دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل نے آج اپنا ڈوڈل برصغیر کے نامور پہلوان غلام محمد بخش عرف گاما پہلوان کے نام کیا ہے، جن کی آج ایک سو چوالیسویں سالگرہ ہے
گوگل کے لوگو کے بیچ میں گاما پہلوان کا خاکہ لگایا گیا ہے، جس کے ہاتھ میں گُرز ہے۔ اس پر کلک کیا جائے تو گوگل صارف کو سیدھا ویکیپیڈیا کے اس لنک پر لے جاتا ہے، جہاں گاما پہلوان کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں
گاما پہلوان کو ناقابل شکست رہنے پر ”رستمِ زماں“ بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے؟ پچاس سال کشتیاں لڑیں، اس دوران چار سو سے زائد کشتیاں جیتیں
گاما پہلوان کا اصل نام غلام محمد بخش تھا اور وہ ضلع امرتسر کے گاؤں جبووال میں پہلوانی سے وابستہ ایک مسلمان کشمیری گھرانے میں 22 مئی 1878ع کو پیدا ہوئے ہوئے
ان کے والد محمد عزیز بخش بھی پہلوان تھے اور ان کے بڑے بھائی امام بخش بھی، گاما کی عمر چھ سال ہی تھی، جب ان کے والد کا انتقال ہوگیا
اس کے بعد وہ اپنے نانا نون پہلوان کے زیر اثر رہے۔ نانا کے انتقال کے بعد ان کے ماموں عیدا پہلوان نے ان کی تربیت کی
گاما پہلوان پہلی بار پہلوانی کے میدان میں اس وقت منظر عام پر آئے جب 1888ع میں ریاست جودھ پور کے مہاراجہ نے پہلوانی کا ایک مقابلہ منعقد کروایا۔ اس مقابلے میں ہندوستان بھر سے چار سو سے زائد پہلوانوں نے شرکت کی
اس مقابلے کے بہترین پندرہ پہلوانوں میں گاما پہلوان بھی شامل تھے اور اس وقت ان کی عمر صرف دس برس تھی۔ اس کے بعد انہوں نے باقاعدہ طور پر مدھیہ پردیش کی ریاست دتیہ کے مہاراجہ کے زیرسایہ پہلوانی کی تربیت حاصل کی
1910ع تک گاما پہلوان رحیم بخش سلطانی والا کے علاوہ ہندوستان کے تمام نامور پہلوانوں کو شکست سے دوچار کر چکے تھے، اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائی امام بخش پہلوان کے ہمراہ یورپ اور انگلستان کا دورہ کیا اور دنیا کے نامور پہلوانوں کو کشتی کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی
اس وقت ہندوستان پر برطانوی راج قائم تھا اور یہیں سے دو دیسی پہلوان انگریزوں کے درمیان مقابلے کے لیے پہنچے تھے۔ انہوں نے دنیا کے کئی شہروں میں غیرملکی پہلوانوں کو شکست دی اور 1927ع تک ناقابل شکست رہے اور 1928ع میں اس زبیشکو نامی پہلوان کو چند سیکنڈز میں ہرایا
دی ہندو اخبار کی رپورٹ کے مطابق 1947ع میں گاما پہلوان کا خاندان امرتسر سے لاہور کے علاقے موہنی روڈ پر منتقل ہو گیا تھا
گاما پہلوان کی موت سے چند برس قبل انہیں سانپ نے کاٹ لیا تھا، لیکن بروقت طبی امداد سے ان کی جان بچا لی گئی تاہم آنے والے برسوں میں ان کی صحت بگڑتی گئی اور وہ 23 مئی 1960ع کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے، وہ لاہور میں پیر مکی مزار کے قریب قبرستان میں مدفون ہیں.