ایک طرف پانی میں ڈوبی فصلیں، دوسری جانب پانی کو ترستی زمین

ویب ڈیسک

اگر تصویر کے دونوں رخ دیکھے جائیں تو منظر نامہ حیرت انگیز ہے۔۔ پریشان کن حد تک حیرت انگیز!

ایک طرف سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں میں سیلاب کے بعد کسانوں کی زرعی زمینیں پانی کھڑا ہونے کے باعث فصل اگانے کے قابل نہیں رہیں، لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ کئی علاقوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے فصلیں متاثر ہونے کا خدشہ ہے

سندھ کے ضلع خیرپور کے علاقے ٹھری میرواہ کے رہائشی رب نواز بلوچ کہتے ہیں ”میری سولہ ایکڑ زمین ہے، جس میں سے ایک اندازے کے مطابق صرف چار ایکڑ زمین اس قابل ہے کہ اس پر آنے والے دنوں میں وہ کاشت کر سکیں، باقی زمین پر پانی کھڑا ہے اور وہ کاشت کے قابل نہیں ہے“

انہوں نے بتایا ”جس زمین پر پانی کھڑا ہے، اس پر کاشت اس وقت ممکن ہوگی، جب پانی اتر جانے کے بعد اس کو چار، پانچ ہفتے کا وقت ملے گا“

لیکن سندھ کے ضلع بدین کے کاشت کار مصطفیٰ گل کے مطابق: دریائے سندھ اور اس کے ساتھ ملحق کینالوں میں پانی موجود ہی نہیں ہے یا انتہائی کم پانی چل رہا ہے۔ اُنہیں لگتا ہے کہ یہ نکاسی آب کا کچھ پانی ہے، جو مختلف علاقوں سے آ رہا ہے

انہوں نے کہا ”ایسے لگ رہا ہے کہ خریف کی طرح ربیع کی فصل کے لیے بھی پانی کم دستیاب ہوگا، جس سے فصلیں متاثر ہوں گی“

مصطفیٰ گل کے خدشے کی تائید پاکستان میں دریائی پانی کے منتظم ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد جاری کردہ پریس ریلیز سے بھی ہوتی ہے، جس کے مطابق ربیع کی فصل کے لیے پنجاب اور سندھ کو 18 فیصد کم پانی دستیاب ہوگا

رب نواز بلوچ کہتے ہیں ”میں نے بھائیوں کو محنت مزدوری کے لیے بڑے شہروں میں بھیج دیا ہے کہ اپنی زمینوں پر محنت مزدوری تو ممکن نہیں ہے“

جبکہ مصطفیٰ گل کا سوال ہے کہ اب اتنی بارشوں کے بعد بھی پانی نہیں ہے تو بتائیں کہ وہ کدھر جائیں؟

اس صورتحال کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان بدترین ماحولیاتی اور موسمی تبدیلی کا شکار ہو چکا ہے۔ پے در پے ایسے واقعات ہو رہے ہیں جو معمول کا حصہ نہیں ہیں

تباہ کن بارشوں کے بعد پانی کی قلت کیوں؟

ارسا کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق رم اسٹیشنوں یعنی پانی کے ذخائر میں 29 ستمبر تک 91.47 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی کی آمد ہوئی ہے۔ یہ پانی توقع سے کوئی 14 فیصد کم ہے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ پانی کے ذخائر میں 106.51 ایم اے ایف پانی پہنچے گا مگر ایسا نہیں ہوا

ارسا کے مطابق پانی کے ذخائر میں پہنچنے والا پانی دس سال کی اوسط سے بھی کم ہے۔ اپریل، مئی اور جون کے ماہ میں ریکارڈ خشک سالی ہوئی جبکہ جولائی، اگست اور ستمبر میں ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں

ارسا کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی بھرا ہوا ہے مگر تربیلا ڈیم میں ریت اور مٹی بھر جانے کی وجہ سے اس میں پانی کی گنجائش ہی کم ہو چکی ہے۔ منگلا ڈیم میں مون سون کی بارشوں کے دوران بھی پانی نہیں بھرا تھا

اس وقت مجموعی طور پر ڈیموں میں 22.674 ایم اے ایف پانی موجود ہے

ارسا کے ترجمان محمد خالد ادریس رانا کے مطابق اس وقت دریاؤں میں پانی کم ہونا معمول کی بات ہے۔ بارشیں کم اور مون سون ختم ہو چکا ہے۔ موسم اس وقت اپنے معمول کی تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے

درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے گلیشیئر اب کم پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے اب دریاؤں میں پانی کم ہے۔ اب پانی کی قلت پورا کرنے کے لیے ذخائر کی مدد بھی لے لی گئی ہے

موسم پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے پاک ویدر نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو اویس حیدر کے مطابق ایک حد تک یہ بات ٹھیک ہے کہ پورے ملک پر مجموعی طور پر نظر ڈالیں تو بارشیں معمول سے کئی زیادہ تھیں لیکن جب ہم مختلف علاقوں کا انفرادی طور پر ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ کچھ علاقوں میں مون سون بارشیں اوسط سے بھی کم ہوئی ہیں

مثال کے طور پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بارشیں اوسط سے بھی دو فیصد کم ریکارڈ ہوئی ہیں

ان کے مطابق یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اگر جنوبی پنجاب کے علاوہ سندھ کے مغربی، شمالی اور وسطی علاقوں میں اوسط سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں تو وہ پانی عذاب بن گیا ہے کیونکہ اس وقت وہ نہ تو سمندر میں جا رہا ہے اور نہ دریا میں

سندھ کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں مغربی، شمالی اور وسطی علاقوں کے مقابلے کم بارشیں ہوئی تھیں حلانکہ عموماً جنوبی اور مشرقی علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوتی تھیں۔ اگر سندھ کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوتیں تو شاید وہ اب فائدہ مند ہو سکتی تھیں

ماحولیات کے لیے کام کرنے والے قانون دان اور پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ کے صدر مہدی زمان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ مون سون کی بارشوں میں بھی موسمی تبدیلی کارفرما رہی ہے۔ ’گذشتہ چند سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ روایتی مقامات جہاں پر موں سون بارشیں ہوتی تھیں وہاں سے اب وہ کم ہو کر دیگر مقامات کی طرف منتقل ہو چکی ہیں۔‘

مہدی زمان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کوئی بھی ڈیم، بند، بیراج بنانے سے پہلے مستقبل کی طرف نہیں دیکھا جاتا ہے۔ تحقیق اور تجزیے کی کمی ہوتی ہے جس کے نتائج پوری قوم کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ ’منگلا ڈیم بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ جب اس کی توسیع کا منصوبہ پیش ہوا تو اس وقت محکمہ موسمیات پاکستان سمیت کئی حلقوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ تجزیے ریکارڈ پر ہیں کہ مون سون کی بارشوں کا ٹرینڈ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ’وہ مقامات جہاں پر مون سون بارشوں سے منگلا ڈیم میں پانی جا سکتا ہے وہاں پر بارشیں کم ہو رہی ہیں اس لیے منگلا ڈیم میں توسیع کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اب لگتا ہے کہ ایسے ہی ہوا ہے۔‘

سردیوں میں برف باری میں بھی کمی کا امکان

اویس حیدر کہتے ہیں کہ عموماً ستمبر کا مہینہ گلیشیئرز سے پانی ملنے کے حوالے سے کافی فائدہ مند رہتا ہے مگر اس سال ستمبر میں درجہ حرارت اوسط سے کم رہا ہے جس سے بھی ممکنہ طور پر کافی فرق پڑا ہے

بین الاقوامی مرکز برائے مربوط ترقی پہاڑی علاقہ جات (آئی سی آئی ایم او ڈی) کے آبی وسائل اور موسمیاتی تبدیلی کے ماہر ڈاکٹر فیصل معین قمر کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں مسلسل تیسرے سال سے لانینا چل رہا ہے۔ گذشتہ دو سالوں میں ہم نے دیکھا کہ سردیوں میں برفباری کم ہوئی ہے

ان کا کہا تھا کہ لانینا موسم درحقیقت بحرالکاہل میں موسمی تبدیلیوں کے زیر اثر ہے۔ اس سال میں اب بحرالکاہل میں درجہ حرارت کم ہونا شروع ہو چکا ہے۔ عالمی ماہرین کی رائے ہے کہ یہ درجہ حرارت اوسط سے بھی کم ہو گا جس کے اثرات وسطی ایشیا، پاکستان اور افغانستان پر پڑیں گے

ڈاکٹر فیصل معین قمر کا کہنا تھا کہ کم برفباری کا مطلب کم پانی ہے۔ شاید پاکستان بڑی حد تک موسمی تبدیلی کے نہ ختم ہونے والے ایک سلسلے کا سامنا کر رہا ہے جس میں ایک طرف پانی کھڑا ہے تو دوسری طرف لوگ پانی کی قلت کا شکار ہیں

پانی کیوں کھڑا ہے؟

چیئرمین واٹر آپریٹر نیٹ ورک اور ایم ڈی واسا لاہور زاہد عزیز کے مطابق سندھ اور جنوبی پنجاب کے جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے وہاں پر کوئی نکاسی آب کے زیادہ ذرائع نہیں ہیں

ان کا کہنا تھا کہ یہ بارشوں کا پانی ہے، دریائی سیلاب نہیں ہے۔ یہ کھڑا بھی دریائے سندھ کے ساتھ اس جگہ پر ہے جہاں دو کینال ہیں۔ ایک رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) اور دوسرا لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی)۔ اس وقت پانی لیفٹ کینال سے کچھ اوپر کھڑا ہے جس بناء پر یہ بھی ممکن نہیں نظر آتا کہ یہ پانی دریائے سندھ میں چلا جائے گا

ماحولیات، پانی اور آبی وسائل کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ اس وقت ایک اندازے کے مطابق چار تربیلا ڈیموں جتنا پانی سندھ کے علاقوں میں کھڑا ہے۔ سندھ کے جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے ان علاقوں میں دریائے سندھ کی وجہ سے پرانی اور تاریخی آبادکاری ہے، ان علاقوں میں ڈھلوانیں بہت ہی کم ہیں

ہوتا یہ ہے کہ بارشوں کا پانی ڈھلوان سے دریا اور پھر سمندر میں گر جاتا ہے مگر اب سمندر کی طرف جانے والے راستے پر کینال کے بند ہیں۔ پانی جہاں پر کھڑا ہے وہاں پر کینال کے بند اوپر ہیں

ان کا کہنا تھا کہ صرف کینال ہی نہیں بلکہ ریلوے لائنوں کے علاوہ سڑکوں اور دریا کے بند بھی موجود ہیں۔ ’یہ بند ہم نے خود تعمیر کیے تھے۔ اب یہی بند اس پانی کے راستے میں رکاوٹ بن چکے ہیں۔ اگر ہم اس پانی کو راستہ دینا چاہیں گے تو اس کے لیے کئی بند، ریلوے لائنیں، سڑکیں اور پل وغیرہ توڑنے پڑیں گے مگر اس کے لیے مستقبل کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے کہ آئندہ ایسی صورتحال ہو تو اس میں پانی کو راستہ مل جائے۔‘

ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ یہ سارے ماڈل کوئی دو سو سالوں میں بنے ہیں۔ ان ماڈلوں کے ساتھ جب سنہ 2010ع کا تباہ کن دریا کے پانی کا تباہ کن سیلاب آیا تھا تو اس وقت بھی پانی کو واپسی کا راستہ ملنے میں بڑا وقت لگا تھا اب تو یہ بارش کا پانی ہے۔ جس کے لیے ہمارے پاس کوئی ماڈل تیار ہی نہیں ہے

ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا تھا کہ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ اس پانی کے دریا اور سمندر میں جانے کا شاید کوئی راستہ نہیں ہے۔ اب دوسرا طریقہ یہ ہی ہے کہ یہ پانی بخارات بن کر اڑ جائے اور زمین میں جذب ہوجائے۔ بخارات بن کر اڑنے میں اس پانی کو کئی ہفتوں کی ضرورت ہو گی جبکہ فی الوقت زمین میں جذب ہونے کے امکانات بھی کم نظر آ رہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے وہاں کی مٹی چکنی ہے جو اپنے اندر بہت کم پانی جذب کرتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر زیر زمین پانی کم ہو تو پھر بھی اس بات کے امکانات ہوتے ہیں کہ وہ پانی کو جذ ب کرلیے مگر اس وقت تو شاید اتنی شدید بارشوں کی وجہ سے زیر زمین پانی کی بھی گنجائش کم ہی ہے۔

ڈاکٹر فیصل معین قمر کہتے ہیں کہ یہ سیلاب دریائی سیلاب نہیں تھا۔ پاکستان کے جن علاقوں میں عموماً دریائی سیلاب کی صورتحال پیدا ہوتی ہے، ان علاقوں کے رہنے والے لوگ اس صورتحال سے نمٹنے کے عادی ہوتے ہیں اور وہاں سے پانی کے نکاسی کے کچھ نہ کچھ انتظامات اور روایتی طریقہ کار موجود ہیں۔

’مگر اب جن علاقوں میں بارشوں سے سیلاب کی صورتحال پیدا ہوئی ہے، وہاں کے رہنے والے اس صورتحال سے نمٹنے کے عادی نہیں ہیں۔ یہ اکثریت علاقے نشیبی ہیں۔ جہاں پر زیادہ وقت تک پانی کھڑا رہنے کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس سے متعدد مسائل پیدا ہوں گے۔‘

پانی نکالنے پر تنازعات اور جھگڑے

زرعی تحقیقاتی ادارہ برائے خشک علاقہ جات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نعمان لطیف بتاتے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں بڑے رقبے پر پانی کھڑا ہے۔ ان علاقوں سے پانی کی نکاسی ایک مشکل اور وقت طلب ہے۔ اس صورتحال سے لوگ بہت زیادہ پریشان حال ہیں

’پہلے صورتحال یہ ہوتی تھی کہ لوگوں کے درمیان پانی حاصل کرنے کے لیے مسائل پیدا ہوتے تھے، اب پانی نکالنے پر مسائل پیدا ہورہے ہیں۔‘

فیصل معین قمر کے مطابق ستمبر کے شروع میں سیٹلائیٹ کی مدد سے تحقیق کے مطابق سندھ کے 25 لاکھ ایکڑ رقبے پر پانی کھڑا ہے جو صوبہ سندھ کا 18 فی صد بنتا ہے

ڈاکٹر فیصل معین قمر کہتے ہیں کہ اس طرح کی صورتحال جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں بھی ہے جن میں ڈیرہ غازی خان، راجن پور، تونسہ اور کچھ دیگر علاقے ہیں۔ وہاں کے لوگ اور زمیندار بھی اس صورتحال سے پریشان حال ہوچکے ہیں

ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ اس وقت کی صورتحال سیلابی آفت کے بعد ایک اور آفت جیسی ہی ہے جس سے ہر موسم اور وقت میں فصلوں پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں

خریف کے بعد ربیع کی فصل بھی متاثر

ڈاکٹر فیصل معین قمر کہتے ہیں کہ ہماری ایک تحقیق کے مطابق مون سون کی بارشوں میں سندھ میں تیار فصلوں کے نقصان کا تخمینہ 1.30 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جس میں تین بڑی فصلیں شامل ہیں۔ چاول کا نقصان تقریباً 19 لاکھ ٹن ہے جس کی مالیت 54 کروڑ 30 لاکھ ڈالر بنتی ہے، کپاس کا نقصان تقریباً 48 کروڑ 50 لاکھ ڈالر اور گنے کا تقریباً 27 کروڑ 30 لاکھ ڈالر نقصان ہو چکا ہے

ان کا کہنا تھا کہ ٹماٹر، مرچ، پیاز کے نقصان کا تخمینہ تقریباً 37 کروڑ 40 لاکھ ڈالر جبکہ مال مویشی کے نقصان کا تخمینہ ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر ہے

ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ ربیع کی فصل صرف سیلاب والے علاقوں ہی میں متاثر نہیں ہو گی بلکہ وہ علاقے جو سیلاب سے متاثر نہیں ہوئے ہیں ان علاقوں میں متاثر ہونے کی وجہ پانی کی قلت ہوگی

حل کیا ہے؟

ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ موسمی تبدیلی کی صورتحال کتنی سنگین ہے اس کو ہمیں سمجھنا ہو گا۔ سنہ 2010 والے سیلاب کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ایسا سیلاب 1929 میں آیا تھا۔ یعنی کئی سالوں بعد مگر ہم نے دیکھا کہ 2022ع یعنی چند ہی سال بعد دوبارہ ویسا ہی سیلاب آ گیا

ان کا کہنا تھا کہ 2020 میں کراچی ڈوب گیا تھا اس سال پھر ڈوب گیا۔ یعنی اب حادثات اور واقعات پہلے کی نسبت بہت تیزی سے رونما ہو رہے ہیں، ہمیں ان حادثات اور واقعات کو اپنے لیے جھٹکا نہیں بنانا ہے بلکہ ان سے نمٹنے کی تیاری کرنی ہے۔ ’جیسے کہ جن علاقوں میں زیادہ بارشیں نہیں ہوتی تھیں، اس سال وہاں پر بدترین سیلاب آیا کیونکہ پانی نکلنے کا راستہ نہیں ہے۔‘

اب ہمیں چند ہی دنوں میں پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کا حل نہیں ہے بلکہ اس کا حل پرانی اور جدید ٹیکنالوجی میں موجود ہیں

ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ایک تحقیق کے نتیجے میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ ہمارے دریاؤں کہ تہہ میں موجود ریت کے نیچے سے 50 کروڑ ایکڑ فٹ پانی نکالا جاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے دریاؤں میں اوسطاً 145 ملین ایکڑ فٹ سے لے کر 180 ملین ایکڑ فٹ تک پانی بہہ رہا ہوتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ یہ قدرت کا بنایا ہوا نظام ہے۔ اب اگر بارشیں نہیں ہو رہی ہیں تو اس پانی کو نکال لیں۔ اس کے لیے دنیا میں مختلف طریقے رائج ہیں۔ اس سے قدرتی نظام کو بھی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اگر کبھی زیادہ بارشیں ہوں گی، دریاؤں میں زیادہ پانی آئے گا تو وہ پانی ریت کے نیچے جائے گا، سیلابی صورتحال پیدا کر کے نقصاں نہیں کرے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close