اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے سربراہ اور ڈپٹی کمشنر کو حکم دیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف ملک کے مختلف صوبوں میں درج ہونے والے مقدمات میں ان صحافیوں کو عدالت کی اجازت کے بغیر مقامی پولیس کے حوالے نہ کیا جائے
عدالت نے یہ حکم صحافی ارشد شریف، سمیع ابراہیم اور اینکر پرسن معید پیرزادہ کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواستوں پر دیا ہے
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جب ارشد شریف کی طرف سے دائر ہونے والی اس حفاظتی ضمانت کی درخواست کی سماعت کی تو درخواست گزار کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل کے خلاف مزید مقدمات درج کیے جا رہے ہیں اور ان کے خلاف سندھ اور بلوچستان میں مقدمات درج کیے جا رہے ہیں
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ دیگر صحافیوں سمیع ابراہیم اور عمران ریاض کے خلاف بھی مقدمات درج ہوئے ہیں، جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ”جب ادارے قانون کے مطابق اپنا کام کریں گے تو چیزیں خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے“
دوسری جانب درخواست گزار ارشد شریف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق ان کے خلاف اب تک سات مقدمات درج ہو چکے ہیں اور یہ تمام مقدمات سندھ اور بلوچستان میں درج کیے گئے ہیں
انہوں نے بتایا کہ ”ٹیلی فون پر دھمکیاں مل رہی ہیں کہ تم ملک بھر میں مقدمات کے سلسلے میں عدالتوں میں پیشیاں بھگتو گے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جب تم بلوچستان کے علاقے پشین وغیرہ میں پیشی بھگتنے کے لیے جاؤ گے تو تمہیں راستے میں سے ہی اغوا کر لیا جائے گا“
ارشد شریف کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ پچھتر سالوں سے ایک مائنڈ سیٹ کوارڈینیٹڈ کوششوں سے صحافیوں کی زبان بندی کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘
ارشد شریف کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے جب ان کے خلاف تحقیقات شروع کیں تو وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے انہیں فون کیا اور کہا کہ ان مقدمات سے ان کی جماعت اور حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے
عدالتی سماعت میں کیا ہوا؟
حفاظتی ضمانت سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کے دوران ارشد شریف جب کمرہ عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ انہوں نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ ان کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں جس پر ارشد شریف کا کہنا تھا کہ انہیں کہا جا رہا ہے کہ انہیں سبق سیکھایا جائے گا
انھوں نے کہا کہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انھیں ’راستے سے ہی اغوا کر لیا جائے گا‘
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل کے خلاف ملک بھر میں مقدمات درج ہو رہے ہیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ عدالت صرف حفاظتی ضمانت دے سکتی ہے کیونکہ جہاں پر یہ مقدمات درج ہوئے ہیں، وہ اس عدالت کے دائرہ سماعت میں نہیں آتے
ارشد شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ دیگر شہروں میں درج مقدمات کو اسلام آباد منتقل کرنے کے احکامات دیے جائیں جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے کہ مقدمات کو ادھر ٹراسنفر کیا جا سکے
عدالت کے استفسار پر اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر نے بتایا کہ ’ارشد شریف کو سنگین نوعیت کی دھمکیاں دی جارہی ہیں‘
انہوں نے کہا کہ ’ملک بھر میں ان کے خلاف مقدمات درج ہو رہے ہیں اور ایسے میں وہ ہر جگہ کیسے اپنے دفاع کے لیے پیش ہو سکتے ہیں‘
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ کم از کم ایک ہفتے کے لیے انھیں حفاظتی ضمانت دی جائے کیونکہ درخواست گزار کے وکیل کے بقول ان کے موکل کے خلاف دس مقدمات درج ہیں
انہوں نے کہا کہ ’ان مقدمات میں بغاوت پر اکسانے کی دفعات لگائی گئی ہیں‘
فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ ایک واقعے کی ایک سے زائد ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتیں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک صحافی کو جذباتی نہیں ہونا چاہیے اور اسے ذمہ داری اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی مقدمے میں کوئی ادارہ بھی مدعی ہے، جس پر عدالت میں بتایا گیا کہ ان مقدمات میں عام شہری درخواست گزار ہیں جس میں انھوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ انھوں نے ویڈیو دیکھی ہیں جس سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے اس لیے مقدمات درج کیے جائیں
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا کیا ہو گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف اچانک سے مقدمات درج ہونا شروع ہو گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت گذشتہ ایک سال سے صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے مقدمات کو سن رہی ہے۔
ان درخواستوں کی سماعت 30 مئی تک ملتوی کر دی گئی ہے.