یوں تو پاکستان میں گزشتہ دوماہ سے مسلسل سیاسی ہلچل کا ماحول ہے مگر رواں ہفتے میں پے در پے کئی ایسے اہم واقعات رونما ہونے ہیں جن کے ملک کے مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں
اتوار کو پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 25 مارچ کو اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا گیا
پی ٹی آئی نے اعلان کر رکھا ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کی جانب سے الیکشن کے اعلان تک وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ ان کے مطابق اس مارچ میں لاکھوں افراد شرکت کریں گے
کیا لانگ مارچ تیاریاں مکمل ہیں؟
اگرچہ عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ لانگ مارچ کی کال بہت کم وقت کے نوٹس پر دی گئی ہے، لیکن خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے ارکان صوبائی اسمبلی اور کارکنان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے چالیس دن سے تیاریوں میں مصروف ہیں، جن میں عوام اور کارکنان کو متحرک کرنا، انتظامات کی مختلف حلقوں، اضلاع اور گروپوں کی سطح پر تقسیم سرفہرست ہیں
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے لیے ان کی تیاریاں اتنی منظم ہیں کہ اس مرتبہ لانگ مارچ میں حصہ لینے والے اہم کارکنان کی ایک ڈیٹا فہرست بھی تیار کی گئی ہے، جس میں ان کے نام اور رابطہ نمبر ودیگر معلومات شامل ہیں، جب کہ لانگ مارچ کی حکمت عملی کے لیے صوبائی، ضلعی، نیبرہڈ کونسل، یونین کونسل، میں پارٹی کے عہدیداران سمیت جنرل یوتھ پلیٹ فارم کو متحرک کرکے ان کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ عوام میں شعور پھیلانے کے ساتھ ساتھ انہیں متحرک بھی کیا جائے
صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن کامران بنگش کا کہنا ہے کہ پارٹی کے کارکنان ذہنی طور پر پارٹی قیادت کی اس ’کال‘ کے لیے تیار تھے۔ ‘ہم 27 مارچ سے ان تیاریوں میں مصروف ہیں۔ پارٹی کے ڈاکٹر فورمز اور وکلا فورمز کو بھی متحرک کرلیا گیاہے، جن میں سے کچھ فرنٹ لائن پر اور کچھ پس پشت کام کریں گے‘
کامران بنگش نے بتایا کہ ان کی جماعت نے لانگ مارچ کی تیاری اور انتظامات کے لیے ایک ’مانیٹرنگ سیل‘ بھی بنایا ہے، جو تمام اضلاع کی کارکردگی پر نظر رکھتا رہا ہے، اور ان کے متحرک یا غیر فعال ہونے سے متعلق رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر پارٹی کے چیئرمین کے ساتھ شیئر کی جاتی تھی
کامران بنگش نے کہا: ’فی الحال لانگ مارچ کا ہی اعلان ہوا ہے، لہٰذا آگے کی حکمت عملی عمران خان اسی دن عوام کو بتائیں گے کہ آیا دھرنا دینا ہے یا مزید آگے بڑھنا ہے‘
انہوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی، جن کے مطابق، خیبر پختونخوا حکومت کے وسائل اور فنڈز کو پی ٹی آئی جلسوں یا لانگ مارچ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ’ہم تمام ارکان صوبائی اسمبلی نے اپنی جیبوں سے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ٹرانسپورٹ، کھانے اور دیگر اخراجات بھی ہم اپنی جیبوں سے ادا کررہے ہیں۔ صرف تین دن قبل ایک کنونشن میں ہم سب ارکان اسمبلی نے فی بندہ 50 ہزار روپے کا حصہ ڈالا۔ ہمارا کام چندوں پر ہی چلتا ہے‘
سکیورٹی اور دیگر انتظامات کے حوالے سے بھی تحریک انصاف کے عہدیداران کے مطابق کافی کام کیا گیا ہے اور صرف پانچ کے قریب کارکنان کو صرف عمران خان کی سکیورٹی کے لیے مختص کیا گیا ہے
لانگ مارچ کے شرکا اور پارٹی قیادت کی سکیورٹی کا ٹاسک سنبھالنے والے مینہ خان آفریدی نے بتایا کہ موجودہ وقت میں کارکنان کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی بنی گالہ میں عمران خان کے گھر کے پاس پڑاؤ ڈالے ہوئے ان کی حفاظت پر معمور ہے
انہوں نے کہا کہ یہی کارکنان لانگ مارچ کے دوران بھی سکیورٹی کے فرائض سنبھالیں گے
انہوں نے کہا ’عوام انتہائی پرجوش ہیں۔ ہمارے نوجوان کب سے اس اعلان کے منتظر ہیں، 25 کی تاریخ تک انتظار کرنے پر وہ راضی نہ تھے‘
لیکن پی ٹی آئی پشاور سٹی کے صدر عرفان سلیم کے مطابق ’ یہ سچ ہے کہ ہم سب اس اعلان کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے، لیکن یہ اعلان اس قدر شارٹ نوٹس پر ہوگا، یہ ہم میں سے کسی نے نہیں سوچا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ٹرانسپورٹ کے معاملات کافی وقت پر طے کیےگئے تھے، البتہ کسی غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے کارکنان کو کیا احتیاطی اور دفاعی تدابیر اختیار کرنے ہوں گے، یہ معاملات دو دن میں دیکھنا کافی چیلنجنگ بن گیا ہے۔‘
پی ٹی آئی کی رکن صوبائی اسمبلی عائشہ بانو نے بتایا کہ ان کی جماعت کی تمام خواتین نے مختلف ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں، اور صرف ان کی جانب سے 25 تاریخ کے لیے 20 کوسٹرز بلائی گئی ہیں
’ان 20 کوسٹرز کا خرچہ میرے شوہر، اور رشتہ داروں نے اپنی جیبوں سے برداشت کیا ہے، جو کہ مردوخواتین دونوں کے لیے ہیں۔ تاہم ہم خواتین، خاص طور پر جن کے ساتھ بچے ہیں، ان پر جانے کے لیے دباؤ نہیں ڈال رہے ہیں، کیونکہ جب اس قسم کی صورت حال میں آپ نکلتے ہیں، تو ہر طرح کے حالات سامنے آسکتے ہیں۔‘
لانگ مارچ سے کیسے نمٹا جائے؟ ن لیگ کی نظر اتحادیوں پر
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد اس وقت سے سب اہم سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا حکومت اپوزیشن جماعت کو لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے کی اجازت دے گی یا نہیں؟ اور اس حوالے سے حکومت کی حکمت عملی کیا ہوگی؟
عمران خان کی جانب سے اتوار کو لانگ مارچ کے اعلان کے بعد حکومت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات اور ردعمل میں اس معاملے پر کسی قسم کی حکمت عملی واضح نہیں ہے
خیال رہے کہ لانگ مارچ میں صرف دو دن باقی ہیں جبکہ توقع کی جا رہی ہے کہ کراچی اور بلوچستان سے کل ہی قافلے روانہ ہو جائیں گے
وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے اعلانات سے ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ ن لیگ ایک بار پھر اتحادیوں کی جانب دیکھ رہی ہے
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کے دوران جب وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ حکومت لانگ مارچ کی اجازت دے گی یا نہیں تو انہوں نے کہا کہ ‘جب وقت آئے گا تب دیکھیں گے۔‘
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ’اگر اتحادیوں نے لانگ مارچ روکنے کا فیصلہ کیا تو میں ان کو گھروں سے نہیں نکلنے دوں گا‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’شیخ رشید کہتے تھے کہ آگ لگا دو، مار دو۔ اب کہتے ہیں کہ میں خونی لانگ مارچ کروں گا۔ انتشار پھیلانے کی کوشش کی تو قانون اپنا راستہ اپنائے گا‘
’اسلام آباد نہ آنے دینےکا فیصلہ ہوا تو ان کو گھر سے نہیں نکلنے دوں گا۔ اِنہوں نے افراتفری پھیلانے کی کوشش کی تو گرفتار بھی کریں گے‘
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی سابق وزیراعظم کے لانگ مارچ کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’کان کھول کے سُن لیں الیکشن کا اعلان ہم نے کرنا ہے۔ چیخیں، پیٹیں، روئیں یا دھمال ڈالیں، الیکشن کا فیصلہ حکومت اور اتحادیوں نے کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو آئی ایم کے ساتھ بات چیت کا آغاز ہے اور عمران کا اعلان اِس پر نیا حملہ ہے‘
استفسار کے باوجود وزیر اطلاعات نے لانگ مارچ کے حوالے سے حکومتی حکمتِ عملی کے بارے نہیں بتایا
تاہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ’وزیراعظم کابینہ کا خصوصی اجلاس بلا کر لانگ مارچ کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے خواہاں ہیں‘
اسلام آباد پولیس میں اعلیٰ سطح پر تقرریاں
دوسری جانب حکومت نے لانگ مارچ سے قبل اسلام آباد پولیس میں اعلیٰ سطح پر تقرریاں کی ہیں، جنہیں تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے
احسن یونس کی جگہ اکبر ناصر خان کو نیا آئی اسلام آباد تعینات کیا گیا ہے۔ انہیں چند دن قبل ہی ایک انکوائری میں کلین چٹ دی گئی ہے
اس کے علاوہ سہیل ظفر چٹھہ کو ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد تعینات کردیا گیا ہے۔ ان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ سیاسی جلسے جلوسوں سے سختی سے نمٹنے میں شہرت رکھتے ہیں
ڈی آئی آپریشنز سہیل ظفر چٹھہ کو ڈی آئی جی لا اینڈ آرڈر کا بھی اضافی چارج سونپ دیا گیا ہے۔ ملک محمد جمیل ظفر کو ایس ایس پی آپریشنز اور یاسر آفریدی کو ایس ایس پی سی ٹی دی تعینات کیا گیا ہے
ڈاکٹر سید مصطفی تنویر کو ڈائریکٹر آپریشنز سیف سٹی اسلام آباد کے ساتھ ساتھ ایڈیشنل آئی جی جنرل کا بھی اضافی چارج دے دیا گیا ہے۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق ’اسلام آباد پولیس نے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ماسوائے ایمرجنسی، پولیس اہلکاروں کی ہر قسم کی تعطیلات پر پابندی عائد کر دی ہے۔‘
اس حوالے سے ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز نے باقاعدہ آرڈرز جاری کر دیے ہیں۔ یہ پابندی اگلے احکامات تک جاری رہے گی
حکام کے مطابق مروجہ ایس او پی کے تحت اسلام آباد کے حساس مقامات اور ریڈ زون کی سکیورٹی آرٹیکل 245 کے تحت فوج کے حوالے کی جا رہی ہے
کیا اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی؟
نئی حکومت آنے کے بعد معاشی معاملات میں اس کی بوکھلاہٹ سے ایک منفی تاثر قائم ہوا ہے، جبکہ ڈالر نے جس تیزی سے ڈبل سنچری مکمل کی، وہ بھی اس کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے، ایسے میں عمران خان کی طرف سے ملک بھر میں بڑے عوامی اجتماعات کے بعد اب لانگ مارچ کے اعلان سے حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا ہے
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ سمیت کئی وزرا کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں موجودہ حکومت اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق 25 مئی کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں وزیراعظم شہباز شریف اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں، جس سے ملک میں نگران حکومت کے قیام اور نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو جائے گی
دوسری جانب عدالتوں میں اہم مقدمات کی سماعت اور متوقع فیصلے بھی اس ساری صورتحال کا اہم پہلو ہیں
اسی ہفتے سپریم کورٹ کی جانب سے فوجداری مقدمات پر اثرانداز ہونے کی حکومتی کوششوں پر ازخود نوٹس کی سماعت بھی ہونی ہے، جس کے فیصلے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے
گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن اور تحقیقات برانچ میں تاحکم ثانی تبادلے اور تقرریاں نہیں کی جائیں گی
جمعرات کو چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجز بنچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کی تھی اور نیب اور ایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ واپس لینے سے روک دیا تھا
سپریم کورٹ نے سماعت کے آغاز پر اپنے مختصر حکم نامے میں وفاقی سیکریٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین نیب، ریجنل ڈائریکٹرز نیب، صوبائی ایڈووکیٹ جنرل، صوبائی پراسیکیوٹرز جنرل، نیب اور ایف آئی اے کے ہیڈ آف انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کو نوٹس جاری کیے
عدالت نے تمام افسران کو حکم دیا کہ وہ اپنے جوابات تحریری طور پر عدالت میں جمع کرائیں جن میں چھ ہفتوں میں ہائی پروفائل مقدمات کی پراسیکیوشن اور انوسٹی گیشن پر مامور افسران کے تقرر، تبادلوں اور ان کو عہدوں سے ہٹائے جانے اور مقدمات کی واپسی سے متعلق تمام حقائق اور اس سے متعلق مواد اور وضاحت شامل ہو
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ ہٹائے گئے افسران اور ان کی جگہ پر تعینات ہونے والے افسران کے نام بھی عدالت میں پیش کیے جائیں
اسی طرح عدالت نے ہدایت کی کہ ای سی ایل سے نکالے گئے افراد کے نام اور مقدمات کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا جائے جبکہ ای سی ایل سے نام نکالے جانے کے موجودہ اور ماضی کے طریقہ کار سے بھی آگاہ کیا جائے
اس کے علاوہ رواں ہفتے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کا کیس بھی زیر سماعت آئے گا۔ اگر معزز عدالت پی ٹی آئی کی درخواست پر ان کی بحالی کا فیصلہ کر دے تو یہ پارٹی کی بڑی سیاسی اور قانونی فتح بھی ہو گی جس کے پنجاب حکومت پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں
بحالی کے بعد گورنر عمر سرفراز موجودہ وزیراعلی حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت دے سکتے ہیں جس سے مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت بڑی مشکل میں آجائے گی کیونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی کے پچیس منحرف ارکان کی رکنیت ختم کرنے کے بعد حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں سادہ عددی اکثریت کھو چکے ہیں.