زباں فہمی: ڈائن اور ڈائنوسار، سچ کیا ہے؟

عبدالخالق بٹ

ایک بے نام سا ڈر سینے میں آ بیٹھا ہے
جیسے اک بھیڑیا ہر در سے لگا بیٹھا ہے
شعر راولپنڈی کے حسن عباس رضا کا ہے، جس میں ایک بے نام ڈر کو بھیڑیے کے دھڑکے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بھیڑیے کا حوالہ دراصل خوف کی انتہائی کیفیت کا اظہار ہے۔
غالباً پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ ’بھیڑیا‘ ایک صفاتی نام ہے جو اسے ’بھیڑ‘ اٹھا لیجانے کی نسبت سے ملا ہے۔ بھیڑ سے بھیڑیا ایسے ہی جیسے کباڑ سے کباڑیا یا لاہور سے لاہوریا ہے۔
یوں تو تمام درندے خونخوار ہوتے ہیں مگر بھیڑیا اپنی سفاکی اور بے خوفی میں کئی حوالوں سے منفرد ہے۔ زبان و بیان کے باب میں جس قدر جُز رسی کا مظاہرہ بھیڑیے کے ضمن میں ہوا ہے شاید ہی کسی اور جانور کے معاملے میں ایسا ہوا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بھیڑیے کا رنگ، اس کی دُم، اس کے پنجے، بلکہ اس کے کُل خواص اور جملہ صفات ضرب المثال، تراکیب اور محاروں میں راہ پا گئی ہیں

ایسے لوگ جو معصوم بن کر لوگوں کو دھوکا دیتے یا نقصان پہنچاتے ہیں، انہیں ’بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا‘ کہا جاتا ہے۔ رؤف رحیم کا شعر ہے:
فساد جو بھی کراتا ہے فرقہ‌ وارانہ
وہ بھیڑیا ہے مگر آدمی کی کھال میں ہے
’بھیڑیا‘ فارسی میں ’گُرگ‘ کہلاتا ہے۔ ’گُرگ‘ کی نسبت سے وجود پانے والی کتنی ہی تراکیب فارسی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی رائج ہیں۔ انہیں تراکیب میں سے ایک ’دُمِ گُرگ‘ یعنی ’بھیڑیے کی دُم‘ ہے۔ عام طور پر بھیڑیا ’خاکستری‘ یا مٹیالے رنگ کا ہوتا ہے، اور ’صبح کاذب‘ کے وقت آسمان اسی رنگ میں رنگا ہوتا ہے۔ یوں رنگ کی اسی مناسبت سے ’صبحِ کاذب‘ کو فارسی میں دُمِ گُرگ‘ کہا جاتا ہے

فارسی ہی میں ظاہری دوستی اگر ’گُرگ آشنائی‘ اور ’گُرگِ بَغلی‘ ہے، تو منافقانہ طرز عمل ’گرگ میش‘ ہے۔ جب کہ ظالم و درندہ صفت ’گُرگ شکم‘ ہے تو دھوکا دے کر حملہ کرنے والا ’گُرگ پیشہ‘ کہلاتا ہے۔ پھر اسی بے رحم طرز عمل کے سبب فرشتہِ اجل کو ’گُرگ اجل‘ بھی کہا جاتا ہے

اس سلسلے کی ایک ترکیب ’گُرگ آشتی‘ ہے، جو منافقانہ طرز عمل پر بولی جاتی ہے۔ شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد نے ترکیب ’گُرگ آشتی‘ کا عجیب و غریب پس منظر بیان کیا ہے۔ وہ برف باری کے موسم کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’بھیڑیوں کو اس موسم میں سخت مشکل ہوتی ہے۔ وہ گوشت کے سوا اور کچھ کھاتے نہیں، اور کسی قسم کا ذخیرہ رکھتے نہیں۔ باہر برف کی کثرت سے کتا تک نہیں نظر آتا۔ گلے سب بند ہو جاتے ہیں۔ یہ دس دس بیس بیس جمع ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مگر ہر بھیڑیا اس طرح بیٹھتا ہے کہ اس کی آنکھ سب پر پڑے۔ ہر چند بھوک، پیاس، تھکن سے تنگ ہوتے ہیں مگر ایک کو دوسرے پر اعتبار نہیں، اس لیے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھے رہتے ہیں۔ آخر نیند تو ظالم ہے کسی کی ذرا آنکھ جھپکی اور جتنے بیٹھے تھے جھٹ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ فوراً پھاڑ چیر تکا بوٹی کر کے کھا ہی جاتے ہیں۔ اسی سے اہل ملک نے اصطلاح نکالی ہے گرگ آشتی یعنی اس بد ذات جانور کے ملاپ کا بھی اعتبار نہیں۔‘
محمد حسین آزاد کی یہ حکایت جتنی لذیذ ہے، حقیقت سے اتنی ہی بعید ہے۔ اس لیے کہ ’لغت نامہ دہخدا‘ سمیت فارسی کی کسی معتبر فرہنگ میں ’گرگ آشتی‘ کے ضمن بھیڑیوں کے اس طرز عمل کا کوئی ذکر نہیں۔ پھر جنگل میں بھیڑیوں کے علاوہ اور بھی درندے ہوتے ہیں وہ اتنے دن کیا کرتے ہیں؟ اس بارے میں روایت خاموش ہے

’گُرگ‘ سے مرکب تراکیب میں سے ایک ’گُرگ کہن‘ بھی ہے، اس کے لفظی معنی ’بوڑھا بھیڑیا‘ کے ہیں، تاہم اصطلاح میں خرانٹ اور تجربے کار شخص کو ’گُرگ کہن‘ کہا جاتا ہے

اس ’گُرگ کہن‘ کی ہم معنی ایک مشہور کہاوت ’گُرگِ بارانِ دیدہ‘ ہے، جس کے لفظی معنی اُس بھیڑیے کے ہیں جس نے بہت سی برساتیں دیکھی ہوں۔‘ تاہم اصطلاح میں تجربہ کار اورجہاں دیدہ آدمی کو ’گرگِ بارانِ دیدہ ‘ کہا جاتا ہے

یادش بخیر… دو دہائی قبل ایک صاحب علم نے ’گُرگ بارانِ دیدہ‘ کا جو پس منظر بتایا وہ وہی تھا جو محمد حسین آزاد نے ’گُرگ آشتی‘ کے ضمن میں درج کیا ہے۔ ممدوح کے مطابق بھوک سے نڈھال بھیڑیوں کے درمیان زندگی و موت کا یہ کھیل برسات رُکنے تک جاری رہتا ہے۔ ایسے میں جو بھیڑیا کئی برساتیں گزار لے اسے’گرگِ بارانِ دیدہ‘ کہا جاتا ہے

اس بیان کے برخلاف دوسری جانب فرہنگ ہائے فارسی اور اردو لغات ہیں، جن کے مطابق بھیڑیے کا بچہ برسات سے بہت خوف کھاتا ہے۔ تاہم جب وہ ایک بار برسات کا سامنا کرلیتا ہے تو اُس کا سارا خوف جاتا رہتا ہے، یوں وہ ’گرگِ بارانِ دیدہ‘ کہلاتا ہے

چونکہ بزرگ زمانے کے سرد و گرم سے آشنا ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے عمر بھر کے اس تجربے کی بنیاد پر انہیں ’گُرگِ بارانِ دیدہ‘ کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے بزرگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ ان الفاظ میں دیا ہے:
اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِ کُہن سے
’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!‘

اب ’گُرگ‘ کا ذکر تمام کرتے اور معدوم ہوجانے والے جانور ’ڈائنوسار‘ کی بات کرتے ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں میں دریافت ہونے والے ریکاز (فوسلز) کی مدد سے مختلف نسلوں کے ڈائنوسارز کی جو صورتیں بنائی گئی ہیں، ان میں بعض خاصی خوفناک ہیں۔ شاید اسی لیے انہیں ’ڈائنو سار‘ کہا جاتا ہے

لفظ ’ڈائنو سار‘ یونانی زبان کے deinos (خوفناک) اورsauros (چھپکلی) سے مرکب ہے۔ یہ ترکیب 1841عیسوی میں میں سر رچرڈ اوون (Sir Richard Owen) نے وضع کی تھی۔
ہمارے ایک دوست نے یونانی ’ڈائنوسار‘ اور ہندی ’ڈائن‘ میں باہم ربط معلوم کرنا چاہا ہے۔
عرض ہے کہ بظاہر ’ڈائنوسار‘ کا جُز اول ’ڈائنو‘ بمعنی خوفناک اور ’ڈائن‘ بمعنی ڈراؤنی صورت میں صوتی اور معنی اشتراک موجود ہے۔ مگر یہ اشتراک ایسے ہی اتفاقی ہے جیسے اردو و ہندی کے چاہ (چاہت) اورعربی کے شاء (چاہت) میں صوتی و معنوی مناسبت پائی جاتی ہے۔ مگر لسانی اصولوں کے مطابق یہ دونوں الفاظ دو الگ دنیاؤں سے متعلق ہیں.

بشکریہ : اردو نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close