پاکستان: خواتین کی گھریلو ملازمت یا غلامی کی جدید شکل؟

ویب ڈیسک

پاکستان کے صوبے پنجاب کا جنوبی حصہ انتہائی پسماندگی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ بیشتر آبادی کے زراعت پر انحصار کرنے والے اس خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گزرتے وقت کے ساتھ عام افراد کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے، جس سے نہ صرف غربت بلکہ بیروزگاری بھی بڑھی ہے

اس خطے میں کئی غریب خاندانوں کے مرد اپنے گھروں کی خواتین اور بچیوں کو صوبے کے دور دراز کے بڑے شہروں میں مزدوری کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پیشگی رقوم حاصل کرتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے ان کی فروخت کا عمل ہوتا ہے، جو گھریلو ملازمت کو اکیسویں صدی میں جدید غلامی کی شکل کے طور پر پیش کرتا ہے

غربت کی ماری بعض خواتین مالی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے پیاروں کی کفالت کی خاطر گھروں سے نکل کر محنت مزدوری کی شکل میں کام تلاش کرتی نظر آتی ہیں، لیکن کسی بھی فنی تربیت سے محروم ہونے کی وجہ سے اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے وہ لوگوں کے گھروں میں کام شروع کر دیتی ہیں، جو عملاً بیگار ہی ہوتی ہے

ایسی ہی ایک خاتون پروین شہزاد ملتان کے علاقے قادر پور راون میں پیدا ہوئی۔ اس وقت اس کی عمر ستائیس برس ہے

پروین بتاتی ہیں ”میری شادی صرف تیرہ برس کی عمر میں مجھ سے بہت بڑی عمر کے ایک شخص سے کر دی گئی تھی۔ شروع کے چند سال تو میں اس بات پر مار کھاتی رہی کہ اولاد کیوں پیدا نہیں کر پا رہی۔۔ پھر یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں پیدا کرنے کے جرم میں مَیں اس لیے مار کھاتی رہی کہ میں نے بیٹا کیوں نہ پیدا کیا“

جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پروین نے مزید بتایا ”کئی امراض میں مبتلا بوڑھا شوہر جب انتقال کر گیا تو میری شادی زبردستی سب سے چھوٹے لیکن ایسے دیور سے کر دی گئی، جو کوئی کام نہیں کرتا تھا اور نشے کا عادی تھا‘‘

پروین اب اسلام آباد کے مضافات میں ایک گاؤں میں رہتی ہے اور مختلف گھروں میں کام کر کے اپنی گزر اوقات کرتی ہے

پروین کا کہنا ہے ”گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ گھروں کی مالکنیں بہت زیادہ کام کرواتی ہیں اور معاوضہ بہت کم دیتی ہیں۔ پھر اکثر گھروں میں مرد ہراساں بھی کرتے ہیں“

ایک گھر والے اپنی ملازمہ پر خفا ہوئے اور اسے اٹھا کر چوتھی منزل سے نیچے پھینک دیا۔ یہ واقعہ اخباروں میں چھپا۔ چند روز بعد ایک اور گھر والوں نے اپنی ملازمہ کو دوسری منزل سے نیچے پھینک دیا۔ دو تین دن گزرے ہونگے کہ ایک صاحب جو خیر سے پروفیسر بھی تھے اور جن کا مکان ایک منزلہ تھا اور چھت پر جانے کا راستہ نہیں تھا، وہ ملازمہ کو نیچے پھینکنے سے معذور رہے ۔انہوں نے غریب لڑکی کو اتنا مارا کہ وہ جان سے گئی۔ یہ وہ تین واقعات ہیں، جو اخباروں یا ٹی وی پر بیان ہوئے۔ وہ تیس واقعات ان کے علاوہ ہیں جن کی دنیا کو خبر ہی نہیں ہوئی۔ یا تو پولیس نے ہاتھ کی صفائی دکھائی یا بے رحم آقاؤں نے کسی کو واقعے کی ہوا بھی نہ لگنے دی

بہاولنگر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نادیہ بی بی اپنی زندگی کے تلخ حقائق یوں بیان کرتی ہیں ”میرے والد نے دو شادیاں کی تھیں اور دونوں بیویوں سے ہونے والے چودہ بچوں میں سے میں آخری نمبر پر ہوں۔ خاندان میں بچوں کو پڑھانے کا کوئی رواج نہیں تھا، خاص طور سے لڑکیوں کو تو پندرہ سولہ سال کی عمر میں کسی ایسے بھرے پرے گھرانے میں بیاہ دیا جاتا تھا، جہاں افرادِ خانہ کی تعداد بھی آٹھ دس تک ہوتی تھی“

نادیہ کی شادی بھی ایک ایسے ہی زیادہ افراد پر مشتمل خاندان شادی ہوئی۔ وہ بتاتی ہیں ”میرے ساتھ مار پیٹ بھی کی جاتی تھی۔ مار پیٹ کے اسی ماحول میں میں نے ایک بیٹی کو جنم دیا تو میری مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا۔“

پھر نادیہ کے شوہر کا ایک روڈ حادثے میں انتقال ہو گیا۔ تب اس کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ شوہر کے انتقال سے گھر کے حالات خراب تر ہو گئے۔ دو ماہ بعد جب نادیہ کے ہاں ایک اور بیٹی پیدا ہوئی، تو ساس اور سسر نے نادیہ کو دونوں بیٹیوں سمیت گھر سے نکال دیا

نادیہ بی بی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا ”میں سسرال سے لٹی پٹی میکے پہنچی، جہاں میرے تین بھائی بھابھیاں سولہ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہاں سب نے صاف کہہ دیا کہ یہاں رہنا ہے تو اپنی دونوں بیٹیوں کو سسرال کے حوالے کر کے آؤ، یہ بات میرے لیے ہرگز قابلِ قبول نہ تھی۔ یوں میرا میکہ بھی چھوٹ گیا۔ اب ایک کمرے کے کرائے کے گھر میں رہتی ہوں، گھروں میں کام کرتی ہوں‘‘

لیکن پروین کی نسبت نادیہ خوش قسمت نکلیں، انہوں نے بتایا ”ایک باجی بہت اچھی ہیں، میرے بچوں کو اسکول میں پڑھا رہی ہیں اور سارا خرچہ بھی اٹھاتی ہیں۔ اپنوں سے تو غیر ہی اچھے نکلے۔۔ اکثر میری چھوٹی بیٹی پوچھتی ہے کہ اماں، باپ کیسا ہوتا ہے؟ میرے پاس اس بات کا آنسوؤں کے سوا کوئی جواب نہیں‘‘

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی چالیس شبینہ فاطمہ کی زندگی درد کی تصویر پیش کرتی ہے، وہ بتاتی ہیں ”جب میں پانچ سال کی تھی، تو میری ماں مجھے پانچ ہزار روپے پیشگی کے عوض کام پر رکھوا گئی تھی۔ اسی گھر میں جب میں تیرہ برس کی ہوئی، تو ایک دوسرے شہر سے آنے والے اسی خاندان کے ایک دور کے رشتے دار نے مجھے ریپ کیا۔ میں نے بہت شور کیا۔ واپس گھر آ گئی‘‘

شبینہ نے مزید بتایا ”میرے گھر والوں نے معافی تلافی کر کے ان سے تیس ہزار روپے لے کر مجھے واپس اسی گھر میں کام کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ مجھے اپنے ہی گھر والوں سے نفرت ہو گئی۔ پھر میرے ساتھ اس گھر میں کئی بار ایسا ہوا لیکن میرے اپنے گھر والوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ بس میری تنخواہ کی ماہانہ رقم کھاتے رہے‘‘

یہ سب المناک واقعات پاکستان میں غریب اور محروم طبقے کی خواتین کی زندگیوں کے عام واقعات ہیں۔ معاشرے کا ایسا حصہ، جہاں عورت کا مسلسل استحصال کیا جاتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی جینے کا سوچ بھی نہیں سکتیں

معروف صحافی رضا علی عابدی نے چند سال قبل غریب بستی کی نادار لڑکیوں کے ایک اسکول کا احوال لکھا تھا، جہاں مزدوروں کی کچی بستیوں کی لڑکیاں پڑھنے آتی ہیں۔ یہ لڑکیاں ماں باپ کو مالی سہارا دینے کے لئے اسکول کے اوقات کے بعد مختلف گھروں میں جاکر چھوٹے موٹے کام کرتی ہیں۔ ان گھروں میں ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے، خصوصاً گھر کے ندیدے مرد اُن پر کیسی رال ٹپکاتے ہیں اور دست درازی کرتے ہیں، بچیوں کی زبانی یہ سب کچھ سن کربے چاری استانی اپنا سر پیٹ کر رہ گئی۔ یہ روز روز کا قصہ ہے لیکن بظاہر یہ چھوٹی سی بات کیا ایک بہت بڑے المیہ کی طرف اشارہ نہیں کرتی؟

رضا علی عابدی لکھتے ہیں ”کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بُردہ فروشی اور وہ غلاموں کی تجارت کا زمانہ چوری چھپے موجود ہے۔ ہمارے معاشرے اور ہمارے ماضی میں سب جانتے ہیں کہ غلاموں کے بازار لگا کرتے تھے، بولیاں لگتی تھیں اور نیلامی ہوتی تھی۔“

ملتان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن اور صحافی انیلا اشرف کہتی ہیں ”سماجی اور قانونی سطح پر گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو آج تک مزدور تصور نہیں کیا جاتا۔ 2018ع سے قبل اس وقت کی حکومت پنجاب نے البتہ اعلانات کیے تھے اور محکمہ لیبر کو گھریلو مزدور خواتین کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کی ہدایات بھی جاری کی تھیں۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ گھریلو ملازماؤں کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہو گیا تھا‘‘

اس ابتدا میں زور شور سے کام کا آغاز کیا گیا تاہم بعد میں ایسے اعلانات عدم دلچسپی کی نذر ہو گئے۔ اس منصوبے کا مقصد گھریلو ملازم خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا تھا تاکہ نہ تو ایسی خواتین کا معاشی استحصال ہو سکے اور نہ ہی وہ سوشل سیکورٹی اور دیگر سہولیات سے محروم رہیں۔ لیکن عملاً حقیقت آج بھی یہی ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو نہ تو مزدور سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی انسان۔۔

انیلا اشرف کے مطابق ”ایسی گھریلو ملازمت پیشہ خواتین کی زندگیوں کو پدر شاہی نظام نے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان کی زندگی کا ہر فیصلہ مرد کرتے ہیں۔ اسی لیے بڑے شہروں کی بڑی بڑی کوٹھیوں اور بنگلوں میں انہیں کام کرنے کے لیے بغیر کسی قانونی تحفظ کے بھیج دیا جاتا ہے۔ یوں ایسی خواتین اور بچیوں پر تشدد کے واقعات بھی عام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک زیرِ التوا خواتین ورکرز تحفظ بل 2019 پر کام جاری رکھنا اشد ضروری ہے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close