میں جب بھی پاکستان جاتا ہوں تو یہ دو چیزیں مجھے بہت دکھ دیتی ہیں۔ ایک یہ کہ چھوٹے چھوٹے بچوں پر پڑھائی کا بوجھ بہت ہی بڑھا دیا گیا ہے، ان کی زندگیاں اسکول، ٹیوشن سینٹرز اور کمروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں
نمبروں کی نہ ختم ہونے والی ایک دوڑ ہے، موازنہ ہے کہ اس کے بچے کے اتنے نمبر آگئے، فلاں کے بچے نے 500 میں سے 499 نمبر لے لیے ہیں۔ ایک لاحاصل دوڑ لگی ہوئی ہے، رٹہ سسٹم کی مشینیں ہیں، بچوں میں کانفیڈینس نہ ہونے کے برابرا ہے اور نہ ہی سوال کرنے اور نصاب سے ہٹ کر سوچنے کی صلاحیت پیدا ہو رہی ہے۔ والدین اور معاشرے کے نمبروں کے نئے معیارات کی وجہ سے بچے اس چھوٹی عمر میں ہی اسٹریس میں آنا شروع ہو چکے ہیں، رنگ پیلے پڑتے جا رہے ہیں
دوسری جو چیز مجھے دکھ دیتی ہے، وہ موبائل کا ‘بے تحاشہ‘ اور بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ والدین خود مصروف ہوتے ہیں اور بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے موبائل دے دیتے ہیں اور پھر یہ چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں ہے کہ بچے کو کون کون سے اشتہار دیکھنے کو مل رہے ہیں، کتنی دیر سے موبائل لیے بیٹھا ہے اور اس سرگرمی کے اس کی صحت پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟
مائیں موبائل چھوڑنے کا کہتی ہیں لیکن بچے کی ضد کے سامنے پھر ہتھیار ڈال دیتی ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ بچہ ہاتھ میں موبائل پکڑے پکڑے سو گیا ہے، موبائل سینے پر گر گیا ہے اور کارٹون وغیرہ پھر بھی چل رہے ہیں۔ ایسا میں نے ایک نہیں کئی گھرانوں میں دیکھا ہے۔ اصل صورت حال کس قدر گھمبیر ہو چکی ہے، اس حوالے سے کوئی معتبر سروے یا تحقیق موجود نہیں ہے
آپ خود سوچیں! آنے والے دنوں میں ایسے بچوں کی بینائی پر کتنے گھمبیر اثرات مرتب ہوں گے، موبائل کی لت اس بچے کی عادات پر کیا اثرات مرتب کرے گی؟ بچے کی تربیت وہ لوگ کر رہے ہیں ، جو آپ کے گھر سے کوسوں میل دور بیٹھے ہیں
بچہ موبائل کی دنیا میں بڑا ہو کر موبائل کی دنیا جیسی ہی حرکتیں کرے گا۔ ماہرین کے مطابق پانچ سال سے کم عمر بچے کو تو موبائل بالکل استعمال نہیں کرنا چاہیے جبکہ پانچ سے دس سال تک کی عمر کے بچے والدین کی نگرانی میں تیس منٹ سے پینتالیس منٹ یومیہ تک ٹیبلیٹ وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں
میرے خیال میں جرمنی میں لوگ اس حوالے سے زیادہ شعور رکھتے ہیں۔ بچوں کی موبائل پر سرگرمیاں مانیٹر ہو رہی ہوتی ہیں۔ ایپس کے ذریعے موبائل کا وقت کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اگر آدھ گھنٹہ موبائل دیکھنے کی اجازت ہے تو اس کے بعد موبائل خود بخود بند ہو جاتا ہے، جب تک ماں یا باپ اجازت نہیں دیتے، بچہ دوبارہ آن نہیں کر سکتا
چھٹی ساتویں کلاس کا بچہ اگر انٹرنیٹ پر بھی کچھ سرچ کر رہا ہوتا ہے تو ماں باپ کے پاس کنٹرول ایپ کے ذریعے لکھا ہوا آ رہا ہوتا ہے کہ بچے نے کیا سرچ کیا ہے؟ والدین کی مدد کے لیے متعدد ایپس موجود ہیں۔ اسکولوں میں اس حوالے سے والدین کو باقاعدہ مشورے دیے جاتے ہیں کہ نامناسب مواد سے بچوں کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ موبائل کمپنیاں بچوں کے لیے ایسے سم کارڈ دیتی ہیں، جو بچوں اور کم عمر نوجوانوں کے لیے ہیں اور جہاں انٹرنیٹ وغیرہ پر پہلے ہی فلٹر لگے ہوتے ہیں۔ بچوں کے حقوق کو مدنظر رکھا جاتا ہے
پاکستان میں بچہ کسی بھی دکان پر جا کر سگریٹ خرید سکتا ہے اور کوئی سوال نہیں کرتا کہ بیٹا تمہاری عمر کیا ہے اور تم اس کا کرو گے کیا؟ کچھ عرصہ قبل تک گھروں میں پرچیاں لکھ کر بچوں کے ہاتھ تھما دی جاتی ہیں کہ یہ والی سی ڈی یا فلم دے دیں، کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس کے بچے کی تربیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
بچوں کے سامنے قوانین توڑے جاتے ہیں، تو بچے بھی توڑتے ہیں، بچوں کے سامنے گالیاں دی جاتی ہیں تو بچے بھی دیتے ہیں۔ جھوٹ بولنا نہ بڑوں میں شرمندگی کی بات ہے نہ چھوٹے اب کتراتے ہیں۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ بون یونیورسٹی کی قریبی گلیوں میں ایک دو اشارے ایسے ہیں، جو بہت ہی سنسنان راستے پر ہیں۔ میرا جرمن دوست فلوریان اکثر سرخ اشارے پر بھی وہ گلی کراس کر لیا کرتا تھا۔ ایک دن ہم دونوں سرخ اشارے پر وہ گلی کراس کرنے لگے تو وہ اچانک رک گیا اور مجھے بھی ٹھہرنے کا کہا۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ آج کیا ہوا ہے؟
اس نے دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھو ایک بچہ کھڑا ہے۔ ہمیں دیکھے گا تو کل پرسوں وہ بھی ایسا ہی کرے گا۔ یقین کریں مجھے اس کی یہ بات بہت اچھی لگی۔ بعض اوقات ہم بڑے چھوٹی موٹی اخلاقی یا قانونی خلاف ورزیاں کر رہے ہوتے ہیں لیکن احساس ہونا چاہیے کی کسی بچے کے قریب ہونے کی صورت میں آپ کبھی کوئی ‘غلط‘ کام نہ کریں
پاکستان میں سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک کا استعمال وہ بچے اور بچیاں بھی کر رہے ہیں، جو چھٹی ساتویں کلاس میں ہیں۔ اب ایک چھٹی کلاس کی بچی کو میک اپ کا شوق ہے۔ یعنی اتنی چھوٹی بچیوں کو احساس دلایا جا رہا ہے کہ وہ خوبصورت نہیں ہیں میک اپ کرنا ضروری ہے
اس طرح چھوٹے چھوٹے بچوں میں احساس محرومی کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں۔ کھیل کود کے مواقع انتہائی محدود ہو چکے ہیں اور بچے بس ٹی وی اور موبائل ہاتھ میں لیے بیٹھے رہتے ہیں۔ بچوں کو تشدد سے بھرپور وہ فلمیں دیکھنے کی اجازت دے دی جاتی ہے، جو اٹھارہ سال سے زیادہ عمر والے لوگوں کے لیے ہیں
آپ مستقبل میں کیا توقع کرتے ہیں، یہ کن سے متاثر ہوں گے؟ غیر نصابی کتب اور کھیل کے میدانوں سے دور دن رات ٹک ٹاک دیکھنے والوں کی سوچ کس قدر وسیع ہو سکتی ہے؟ ہم معیاری سوچ اور معیاری پرورش سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں
میں نے پاکستان میں اکثر یہ فقرہ سنا ہے کہ مغرب میں تو بچوں کی تربیت کے بہت ہی مسائل ہیں۔ ہر جگہ بے حیائی ہے اور بچے بہت جلد خراب ہو جاتے ہیں، کوئی وہاں محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان میں تھا تو میں بھی ایسے ہی نتائج اخذ کرتا تھا لیکن اب مجھے حقائق بالکل الٹ نظر آتے ہیں۔ اب مجھے لگتا ہے کہ مغرب میں بچے زیادہ محفوظ ہیں اور جرمنی جیسے معاشرے میں بچوں کی تربیت کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ ایسا نہ صرف ریاستی سطح پر ہے بلکہ زیادہ تر پاکستانی گھرانوں میں بھی ہے اور جرمن خاندانوں میں بھی
قوانین اتنے سخت ہیں کہ کہ بچوں کی طرف میلی نگاہ کر کے کوئی نہیں دیکھتا۔ ظاہر ہے استثنیٰ سبھی معاشروں میں ہوتے ہیں لیکن آپ کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ یہ راستہ میرے بچے کے لیے غیر محفوظ ہے۔ جرمنی جیسے ملک میں جنسی آزادی میسر کی گئی ہے لیکن وہ بالغ ہونے کے بعد کی ہے، اس سے پہلے بچوں کی ہر حرکت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے
اٹھارہ سال سے پہلے نہ تو تمباکو خرید سکتے ہیں نہ سگریٹ۔ الکوحل خریدنے کی اجازت بھی اٹھارہ سال کے بعد ہے۔ بچے جھوٹ سے کوسوں دور ہیں، جو ہوتا ہے سچ بتاتے ہیں۔ دھوکہ نہیں دیتے، جو ہے سب پر واضح ہے
میں نے پاکستان میں دیکھا ہے کہ بچے بات بات پر جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں، خوف کی وجہ سے سچ بتانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ وہ کسی نظریے کی وجہ سے نہیں بلکہ خوف کی وجہ سے جنسی تعلق وغیرہ قائم نہیں کرتے اور جونہی انہیں موقع ملتا ہے، وہ سرخ لائنیں عبور کرتے گزر جاتے ہیں۔ بند کمروں میں نوجوانوں کے پاس موبائل ہیں لیکن وہ اس کے ‘مناسب استعمال‘ سے آگاہ نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ کئی لڑکے اور لڑکیاں نامناسب تصاویر کی وجہ سے بلیک میل ہوتے ہیں اور وہ کسی کو بتانے کا حوصلہ بھی نہیں کر پاتے۔ جنسی تعلیم نہ ہونے کہ وجہ سے بہت سی لڑکیاں حاملہ ہو جاتی ہیں اور پھر خاموشی سے حمل گرانے کے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں
یہ سبھی مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، کھل کر بات نہیں کی جاتی بچوں سے، انہیں نفع اور نقصان عملی طریقے سے نہیں بتایا جاتا۔ پاکستان میں بچوں کو صحت مند سرگرمیوں کی ضرورت ہے، انہیں ڈسپلین کی ضرورت ہے۔ اسکولوں میں یا شہروں میں ایسے اداروں کی ضرورت ہے، جو والدین کو بچوں کی تربیت اور پرورش کے حوالے سے مشاورت فراہم کریں
بچوں کو موبائل کی بجائے، صحت مند سرگرمیاں فراہم کریں۔ انہیں کھیل کود میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے دیں، سوئمنگ سیکھائیں، گھومائیں پھیرائیں، سیاحت کروائیں
موبائل کے بے تحاشہ استعمال کی جس ڈگر پر ہم چل رہے ہیں، اگر اسی پر چلتے رہے تو ہماری نئی نسل مزید ناکارہ ہو جائے گی۔ کاکردگی کے، فیصلہ سازی کے، فعال انسان بننے کے، صحت کے اور جنسی مسائل مزید بڑھیں گے.
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو