کے ٹی این نیوز پر گلوکارہ شبانہ نوشی کا نشر ہونے والا دو تین سولات پر مبنی مختصر انٹرویو سوشل میڈیا پر سننے کا موقعہ ملا۔ فنکارہ شبانہ نوشی کی پہچان پاکستان پیپلز پارٹی کو عوام میں مقبول بنانے اور جیالوں کو جوش اور جذبہ دلانے والی ”دلءَ تیر بجاں“ جیسے گیت سے ہے
دلء تیر بجاں کو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ بکنے والا گانا قرار دیا جاتا ہے، جس کی لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئی اور جو آج تیس سال گزرنے کے باوجود اب تک پیپلز پارٹی کے جیالوں کا لہو گرماتا ہے
کے ٹی این انٹریو میں شبانہ نوشی مبہم الفاظ میں پیپلز پارٹی سے یہ شکایت کرتے دکھائی دیں کہ ان کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گٸی ہے
انہوں یہ بھی کہا کہ پارٹی نے میرے بیٹے کو صرف چار گریڈ کی نوکری دی گئی ہے۔ فنکارہ شبانہ نوشی کا کہنا ہے کہ ”پارٹی کی جانب سے میری تاج پوشی کرنے کا قیاس لوگوں کی حد تک ہے، پارٹی کی جانب سے نہ مجھے سونے کے تاج سے نوازا گیا ہے اور نہ ہی گھر ملا ہے. میں کرائے کے گھر میں رہتی ہوں۔“
جہاں تک مجھ نابلد کو علم ہے، اس زمانے میں جب یہ گیت بہت مشہور ہوا تو اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے فنکارہ شبانہ نوشی کے لئے پچیس لاکھ کا ایک گھر دینے اعلان ہوا تھا۔ اب پارٹی کی طرف سے یہ وعدہ کیوں وفا نہیں ہوا، اس بات سے میں لاعلم ہوں
بہرحال فنکارہ کی اس بات کی حمایت میں ایک شخص نے فیسبک پیج پر پیپلز پارٹی کے لیڈران کو جاہل، عیاش پرست جیسے الزامات لگاتے ہوئے فنکارہ کے حق میں بہت کچھ لکھ کر اپنا حق ادا کیا ہے۔۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک بہت کم لوگ ”بجاں تیر بجاں“ کے شاعر اور اس کی درد بھری داستان سے آشنا ہیں
اس گیت کے شاعر نے صرف یہ شعر نہیں لکھا، بلکہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے اعزاز میں بھٹو سے والہانہ عشق کی حد تک ایک اور نظم بھج لکھی تھی، جو فنکاروں کے توسط سے عوام میں ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کی پذیرائی کا سبب بنی
اس بات کے شاہد و گواہ اس وقت کے وہ جیالے ہیں، جن کی پیٹھ پر مارشل لاء کے دٶر میں لگائے گئے کوڑوں کے نشانات اب بھی ہونگے
مذکورہ شاعر کو اس وقت صرف وہی مخلص جیالے جانتے ہونگے، جنہوں نے بھٹو کی پھانسی پر دھاڑیں مار کر خودسوزی کی راہ اپنا لی ہو
اس شاعر سے لیاری کے وہ بے لوث جیالے اور دیگر لوگ واقف ہیں، جو بھٹو کو دفنانے کے بعد، جب ان کی قبر پر فوجی چوکس کھڑے تھے، تب بھی انہوں نے مارشل لاء کی پرواہ کیے بغیر سر پر کفن باندھ کر گڑھی خدابخش تک صرف ذوالفقار علی بھٹو کی قبر کی مٹی کو بوسہ دینے کے لیے پیدل لانگ مارچ کیا
اس بات کی تائید وہ لوگ بھی کریں گے، جو اس شاعر کو نزدیک سے جانتے ہیں۔ اور انہوں نے بجاں تیر گیت کے موجد کا یہ شعر بھی ضرور سنا ہے۔ جس شعر نے خاص طور پر سندھ کے چپے چپے کے لوگوں کے دلوں میں بھٹوازم کے بیج کو نشونما عطا کی
اس گیت کو کئی فنکاروں نے اپنے طرز پر اپنی آواز فضاء عطا کر کے فضاؤں میں بکھیرا
”ذوالفقار علی بھٹو سائیں سدائيں جئے،
جئے بھٹو، جئے بھٹو سدائيں جئے،
وری چٸو جئے بھٹو، جئے بھٹو۔“
اس گیت کے شاعر تھے ، غریب شاہ لیاری کے قریب ایک کوٹھی نما گھر میں رہنے والے لالا حضرت شاہ
اس گیت کے موسیقار استاد ظہور خان زیبی کا تعلق بھی لیاری کے علاقے چاکیواڑہ سے تھا
لالا حضرت شاہ ایک شاعر ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ عالم فکر انسان تھے۔ لالا حضرت شاہ کے ہاں اکثر ادب و سیاست سے وابستہ لوگ آتے رہتے تھے اور ادبی و سیاسی محفلیں سجتی رہتی تھیں
لالا حضرت شاہ کے ہمنوا ان کے کردار اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جو ذکر کرتے ہیں، ان پہلوؤں اور کارناموں کا ایک مختصر تحریر میں احاطہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے
ان کی ذہانت اور بردباری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ، کسی مسٸلے کے حل کے سلسلے میں اپنے سے کمتر علم رکھنے والے افراد کے ساتھ تبادلہء خیال میں عار نہیں سمجھتے تھے اور گفتگو کے دوران مخاطب کو یہ احساس تک ہونے نہیں دیتے تھے کہ وہ بذات خود ادب و شاعری کی دنیا کا موجزن سمندر ہیں، بقول شاعر
باز باید عقل وفہم بی قیاس
تاشود خاموش یک حکمت شناش
زندگی کا ایک پہلو انسان کی گذر بسر سے بھی وابستہ ہوتا ہے۔ لالا حضرت شاہ کے معاشی حالات اس قدر کمزور تھے کہ رہنے کو ایک نارمل گھر بھی نہیں بنا سکے۔ کوٹھی نما گھر کو ہی اپنا گلشن سمجھتے تھے
پیپلز پارٹی کو عوام میں پروان چڑھانے میں اور 80 فیصد کامیاب کرنے میں ان کی شاعری آج بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے
لالا حضرت شاہ کی شاعری پیپلز پارٹی اور بھٹو سے والہانہ محبت کا اظہار ہے۔ لالا حضرت شاہ نے کبھی بھی اپنی شاعری کی عوض پیپلز پارٹی سے کچھ طلب نہیں کیا
کہتے ہیں کہ جب وہ کینسر جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا ہوئے، تب بھی پارٹی نمائندوں سے گلا شکوے نہیں کیا۔ البتہ بیماری کی حالت میں پیپلز پارٹی کی ایک خاتون رہنما نے لالا حضرت شاہ کو کشمیر روڈ سے متصل خیراتی اسپتال تک پہنچانے میں مدد کی تھی
لالا حضرت شاہ نے زندگی کی أخری ہچکی تک اپنی کسمپرسی کا شکوہ نہیں کیا، ایک ایسے شاعر جنہوں کے جادو بھرے الفاظ نے آج تک جیالوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا ہے، ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والی جماعت کی طرف سے اگر گلوکارہ شبانہ نوشی کے بیٹے کو پیپلز پارٹی کی طرف سے چار گریڈ کی نوکری ملی ہے، تو یہ بھی غنیمت ہی جانیے..
انہیں گھر نہ ملا، گھر کا وعدہ تو ملا، کہ وعدے تو یوں بھی وفا نہیں ہوتے.. یہاں اس جماعت کا تو ویسے بھی یہ وطیرہ ٹھہرا.. لالا حضرت کی سماعتوں کو تو یہ وعدہ بھی سننا نصیب نہ ہوا
گمنامی کے مہیب سایوں میں گمنام شاعر کا گیت گا کر، اور کچھ نہ سہی، یہ بھی کیا کم ہے کہ آج چینل پر محترمہ شبانہ نوشی کا انٹرویو تو لیا جا رہا ہے، اب اسے کون پوچھے، جو دل میں ہزار غم لے کر بھی خاموشی سے جیا، خاموشی سے چلا گیا اور اب شہر خموشاں کا مکیں ہے
اس گیت کے موسیقار ظہور خان زیبی نے جس وقت یہ گانا کمپوز کیا اس وقت وہ آنکھوں سے دیکھ نہیں پاتے تھے، کم از کم اتنا تو ہوا کہ انہوں نے بعد میں اس گانے سے جمع کئے گئے پیسوں اور دوستوں کی مدد سے اپنی آنکھوں کا آپریشن تو کروایا، لیکن ایک لالا حضرت شاہ ہی تھے، جو ہر صلے سے محروم رہے
ظہور خان زیبی کو کم از کم یہ شکایت کرنے کا موقع تو ملا کہ پارٹی کے نعرے لکھنے والوں تک کو ان کی خدمات کا بہترین صلہ ملا لیکن وہ اس طرح سے آگے نہیں آسکے جس طرح ان کا حق تھا۔۔۔ جب انہوں نے بینظیر بھٹو پر بننے والی ڈاکومینٹری میں بختاور بی بی کو یہ گانا گاتے سنا تو انہیں بہت اچھا لگا۔۔۔ انہیں لگا کہ اب انہیں ان کی اس کوشش کا صلہ ملے گا لیکن انہیں صرف ڈاکومینٹری میں کریڈٹ کی ایک لائن ہی مل پائی۔۔۔
انہوں نے ٹوئٹر پر بلاول بھٹو زرداری کو براہ راست مخاطب کرکے بھی لکھا کہ میں ہوں اس گانے ’’دلء تیر بجا‘‘ کا روح رواں۔۔۔ لیکن انہیں اس کا کوئی جواب نا ملا۔۔۔ لیکن جب استاد ظہور خان زیبی کا انتقال ہو تو اس پر بلاول بھٹو زرداری نے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک پیغام میں یہ ضرور لکھا کہ انہوں نے ایسی دُھن ترتیب دی، جس سے پاکستان میں آمر لرزتے رہے، دلء تیر بجاں کی دُھن سے عوام مخالف قوتیں آج بھی خوفزدہ ہیں…. لیکن لالا حضرت شاہ کے نصیب میں تو یہ رسمی الفاظ بھی نہ تھے
شبانہ نوشی کے گلے شکوے پر مبنی انٹرویو نے تاریخ کے اوراق ضرور پلٹے ہیں، جن اوراق میں لالا حضرت شاہ کی داستانِ درد مسکرا کر کہہ رہی ہے کہ افسوس آج تک کسی نے بھی بجاں تیر بجاں کے شاعر لالا حضرت کے دل پر لگے تیروں کو نہ دیکھا
نہ جانے اس دنیا کی بھیڑ میں اب بھی کتنے پس پردہ لالا حضرت شاہ جیسے شاعر اور مخلص جیالے مٹی کی دھول میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہونگے۔ اس نفسا نفسی کے عالم میں کوئی بھی ان کا درد محسوس نہ کر رہا ہو
تاریخ کہہ رہی ہے، اے زمانے ان تاریخ ساز لوگوں کو ڈھونڈو، جو اپنے کردار کی وجہ سے تاریخ بن جاتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ بنتی ہوئی یہ تاریخ مستقبل میں آپ کے ملامت کا سبب بن جائے..