خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے صوبے کے دارالحکومت پشاور میں آبادی اور رش میں اضافے کے باعث جدید طرز کا ایک ایسا نیا شہر تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے، جسے ماحولیاتی اعتبار اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے پاکستان میں اب تک اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ قرار دیا جارہا ہے
تفصیلات کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ”نیو پشاور ویلی“ کے نام سے نئے ہاؤسنگ منصوبے کی باضابطہ منظوری آئندہ ہفتے پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے بورڈ اجلاس میں دی جائے گی، جب کہ پلاٹوں کا اعلان زمین کے مالکان کے ساتھ تمام معاملات طے کرنے کے بعد اسی سال متوقع ہے
اس ضمن میں صوبائی وزیر بلدیات فیصل امین خان گنڈاپور کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ پشاور کے مشہور پرانے ٹاؤن حیات آباد سے تین گنا بڑا ہوگا، جس میں انجینیئرنگ یونیورسٹی، جنرل سائنس یونیورسٹی، ایڈمنسٹریٹیو بلاک، آئی ٹی پارک، ریسرچ سنٹر، ہوسٹلز، کھیل کے میدان، دو سو بستروں پر مشتمل ہسپتال، میڈیکل کالج و یونیورسٹی، جنرل ہسپتال، پولی ٹیکنیکل کالج، کرکٹ اسٹیڈیم، کرکٹ گراؤنڈ، فٹ بال گراؤنڈ، ہاکی اسٹیڈیم، اسپورٹس کمپلیکس، اندرون خانہ کھیلوں کی جگہ، اتھیلیٹک اسٹیڈیم، پارکنگ کا میدان، پارکس، ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز بنائے جائیں گے
پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے فیسبک پیج پر 7 اپریل کو جاری ایک وڈیو میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اس منصوبے کے سلسے میں ایک اجلاس کی صدارت کرتے دکھائی دیے ہیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ منصوبے کے 76 ہزار کنال پشاور میں ہوں گے اور 30 ہزار کنال نوشہرہ میں
انہوں نے کہا کہ 18 سو کنال کے رقبے پر سول سیکریٹیریٹ اور صوبائی اسمبلی، 600 کنال پر ڈپلومیٹک انکلیو، 502 کنال پر حکومتی دفاتر، ایک ہزار کنال پر سپورٹس سٹی، 800 کنال کا میڈیا انکلیو، ڈھائی ہزار کنال کے رقبے پر تعلیمی ادارے اور صحت سٹی جب کہ آٹھ ہزار کنال کے رقبے پر دنیا کا سب سے بڑا سینٹرل پارک بنایا جائے گا
فیصل امین نے بتایا کہ اس ہاؤسنگ سوسائٹی کا کُل رقبہ ایک لاکھ چھ ہزار کنال ہے، جو کہ جی روڈ اور پشاور میں موٹروے ٹول پلازہ سے جنوب کی جانب تیرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے
ان کا کہنا تھا: ’وقت کے ساتھ تعلیم، صحت اور تجارتی ضروریات کی خاطر پشاور کا رخ کرنے والوں کی وجہ سے شہر پر حد درجہ بوجھ بڑھ گیا ہے، جس کو کم کرنے کے لیے ایک نیا شہر تعمیر کرنے پر غور ہوا۔‘
وزیر بلدیات کا مزید کہنا تھا: ’نئے شہر میں ماحولیاتی معیار کا پورا خیال رکھتے ہوئے وسیع وعریض سبزہ زار بنائے جائیں گے۔ کوڑا کرکٹ کا انتظامی نظام اور ضائع شدہ پانی کا بندوبست اس منصوبے کے اہم حصے ہوں گے‘
فیصل امین گنڈاپور نے بتایا کہ اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں تین مرلہ، پانچ مرلہ، سات مرلہ، دس مرلہ، ایک کنال، دو کنال اور چار کنال پر محیط پلاٹ ہوں گے
نیو پشاور ویلی کے حوالے سے وزیر ہائیر ایجوکیشن کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس وقت وہ وزیر بلدیات تھے، اس وقت انہوں نے یہ منصوبہ پیش کیا تھا، جس کے لیے لینڈ ایکویزیشن یعنی زمین حاصل کرنے پر انہوں نے کام کیا تھا
ان کا کہنا تھا: ’میرے بعد اکبر ایوب وزیر بلدیات بنے، جنہوں نے اس کا نام تبدیل کرکے ’گندھارا ویلی‘ رکھا۔ انہوں نے پھر اس منصوبے پر سب سے زیادہ کام کیا اور اب فیصل امین نے دوبارہ اس کا نام نیو پشاور ویلی رکھ کر اس پر مزید بہت سارا کام کرلیا ہے۔‘
کامران بنگش نے کہا کہ حکومت اس وقت کوشش کررہی ہے کہ زمین مالکان سے اس حوالے سے تمام معاملات کو انجام تک پہنچائے تاکہ بعد میں ریگی للمہ ٹاؤن جیسے مسائل پیدا نہ ہوں
اس منصوبے کے حوالے سے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے بتایا کہ تعمیری منصوبے پر کام کرنے اور پلاٹوں کی فروخت کا اعلان بہت جلد کیا جائے گا۔’تاہم اس سے قبل حکومت زمین مالکان سے لینڈ شیئرنگ فارمولے پر حتمی بات چیت کر رہی ہے، جن کو ہر فی چار کنال زمین کے بدلے نیو پشاور ویلی کے مکمل ہونے کے بعد ایک کنال کا پلاٹ دیا جائے گا، اس طرح سے ان کا ایک کنال پلاٹ موجودہ وقت کی چار کنال زمین سے کئی گنا قیمتی ہوگا۔‘
بیرسٹر سیف کے بقول زمین مالکان اس تجویز پر رضامند ہیں، جب کہ ان کے آبائی قبرستان کو بھی منتقل نہ کرنے کی بات حکومت نے مانتے ہوئے اس کو نیو پشاور ویلی میں تحفظ دینے کا فیصلہ کیا ہے.