میں نے گزشتہ دنوں دو کالم ایک بہ عنوان ’’ادب کیا ہے‘‘ اور دوسرا کالم بہ عنوان ’’ فن صحافت کیا ہے‘‘ تحریر کیے تھے جس کو علمی طبقہ کی جانب سے پسند کیا گیا جس کا میں ممنون ہوں۔ میری ذاتی رائے میں ادب اور صحافت کا تعلق زبان سے ہے۔ اس لیے ادب اور صحافت کے طالب علم کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ طالب علم علم لسانیات کے متعلق بھی تھوڑی بہت آگاہی حاصل کرے یہ کالم اسی تناظر میں تحریر کیا گیا ہے
انسانی آواز توانائی کی ایک شکل ہے جو جسم کے مختلف اعضا مثلاً زبان، حلق، تالو اور ہونٹ وغیرہ کی حرکت سے پیدا ہوتی ہے، یہ قدرت کی طرف سے ایک عطیہ ہے۔ بچہ پیدائشی طور پر آں، یوں، غاں کی آوازیں نکالتا ہے، انسان نے ان آوازوں کو اپنی من و مرضی کے مطابق ڈھال کر ابلاغ کا ذریعہ بنایا، اسے لسانیات Linguistics کہتے ہیں
خیال رہے کہ زبان کی اصطلاح میں ان آوازوں کو زبان سمجھا جائے گا جو منظم ہوں اور جس کے معنی اور مفہوم بھی ہوں۔ یعنی لسانیات ایک خود اختیاری اور روایتی صوتی علامتوں کے اس نظام کو کہتے ہیں جو انسان اپنے سماج میں اظہار خیال کے لیے استعمال کرتا ہے
انسانی جسم کے اعضا مثلاً زبان ، حلق ، تالو ، دانت اور ہونٹ وغیرہ سیکڑوں آوازیں پیدا کرسکتے ہیں ان جسمانی اعضا کا آوازوں کے حوالے سے مطالعہ Phone کہلاتا ہے۔ ان انسانی اعضا کی مدد سے جو آوازیں نکالی جاتی ہیں بالخصوص ایک جیسی آواز والے حرف مثلاً ق ، ک ، حل اور ہل جو بظاہر پڑھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں اور مفہوم کے اعتبار سے الگ ہیں ان کی درست ادائیگی کس طرح ہوتی ہے
اس کا مطالعہ Phonetics کہلاتا ہے۔ اہل عرب چ ، پ ، گ ، ادا نہیں کر پاتے۔ ایران کے لوگ ٹ ، ڈ ، ڑ کا لفظ ادا نہیں کرسکتے، اہل پنجاب ژ، ق کا لفظ آسانی سے ادا نہیں کرسکتے، اس کی وجہ قدرت نے ان کے صوتی عضو کی بناوٹ ایسی رکھی ہے کہ ان کے عضو سے حرفوں کا اصل مخرج نہیں نکلتا۔ اس کا مطالعہ Phonlogy کہلاتا ہے
زبان بہت قدیم زمانے کی ایجاد ہے تحریر اس کے بعد ایجاد ہوئی چنانچہ دنیا میں آج بھی ایسی بہت سی زبانیں بولی جارہی ہیں جو لکھی نہیں جاتیں یعنی ان کا کوئی رسم الخط نہیں ، انھیں بولی کا نام دیا جاتا ہے۔ ہر زبان میں اصل لفظ کی ایک محدود تعداد ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اردو میں ایک لفظ قوم ہے اس میں مخصوص لاحقوں کو جوڑ کر ہم نئے معنی پیدا کرلیتے ہیں جیسے قومی ، قومیت وغیرہ۔ اسے تشکیلات کا نام دیا جاتا ہے یعنی وہ علم جس میں الفاظ کی تشکیل سے بحث کی جاتی ہے۔ اسے انگریزی میں Morphology کہتے ہیں
زبان میں ان گنت الفاظ ہوتے ہیں زبانوں میں عموماً ایک معنی کے لیے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں اس طرح الفاظ کی کئی اقسام ہوتی ہیں حقیقی، مجازی، علامتی، اصطلاحی، لغوی، استعاری اور لفظی وغیرہ، ان کا مطالعہ Semantics کہلاتا ہے
زبان کی ساخت (لب و لہجہ) اور ان کے مختلف عناصر کے درمیان رشتوں کا وہ نظام جس کی بنا پر زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے ، اسے اردو میں ساختیات اور انگریزی میں Structuralism کہتے ہیں۔ لغت سازی ایسا علم ہے جس میں زبان کے سرمایہ الفاظ سے بحث کی جاتی ہے
الفاظ کی تعداد کیا ہے ، ان کی نوعیت کیا ہے اور الفاظ کن ذرایع سے زبان کا حصہ بنا ہے۔ ابتدا میں انسان مختلف آوازیں نکال کر اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا تھا مثلاً غم کے موقع پر رونا ، خوشی کے موقع پر قہقہے لگانا ، درد کی حالت میں کراہنا ، اس کے بعد انسان نے ابلاغ کے لیے الفاظ ایجاد کیے یعنی کئی آوازوں سے ملنے سے لفظ بنا ہے
ان لفظوں کا مطالعہ لفظیات کہلاتا ہے۔ خیال رہے کہ لفظیات میں ان کی آوازوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو مفہوم یعنی معنی پیدا کرتی ہیں۔ لفظ کس طرح لکھا جائے اس کا تعلق املا سے ہے، کس طرح پڑھا جائے اس کا تعلق لہجے سے ہے اور کس طرح لکھا اور پڑھا جائے اس کا تعلق تلفظ سے ہے
گلہ صاف کرنا، کھنکھارنا وغیرہ۔ یہ سب آوازیں فطری ، غیر اختیاری ، غیر ارادی ، لاشعوری پہلو سے تعلق رکھتی ہیں مگر یہ آوازیں بھی مکمل طور پر بے معنی نہیں۔ ان کے ذریعے بھی ابلاغ کا کام لیا جاتا ہے اسے علامات کہتے ہیں۔ جو شے کسی دوسری چیز کی نشاندہی کرکے علامت کے معنی میں استعمال ہوگی، ہمارے یہاں علامت کا استعمال افسانہ نگاری میں زیادہ کیا جاتا ہے
ہم زبان اور الفاظ کے بجائے چہرے، ہاتھوں اور یہاں تک کہ پورے جسم سے اپنا اظہار کرتے ہیں، ہم دوسروں کے سامنے اپنے الفاظ صرف 10فیصد ہی ادا کرتے ہیں 50 فیصد اظہار جسمانی زبان 40 فیصد آواز کے اتار چڑھاؤ سے کیا جاتا ہے یعنی ہم انسانی جذبات اور احساس کا غالب حصہ غیر زبان یعنی بدن بولی کے ذریعے ادا کرتے ہیں اس کو Body Language کہا جاتا ہے
مثلاً کوئی شخص کس کو کوئی بھولا ہوا کام یا معاملہ یاد کرائے تو اسے یاد آجاتا ہے تو وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتا ہے گویا وہ بھولنے کی ذمے داری قبول کر رہا ہے۔ یہ سب تحت الشعور سے ہوتا ہے اور جسم کے ہارمون اہم کردار ادا کرتے ہیں
انسان کا اپنے خیالات کے اظہار کے لیے صرف زبان کا جاننا ضروری نہیں بلکہ اس کا صحیح استعمال بھی کرنا چاہیے ہر زبان میں صحیح بولنے لکھنے اور پڑھنے کے اصول طریقے مقرر کیے ہیں۔ اردو میں اسے قواعد اور انگریزی میں گرامر کہتے ہیں
بعض اوقات انسان الفاظ میں اپنے خیالات اور جذبات کے مکمل اظہار سے قاصر رہتا ہے تو وہ جسمانی حرکات کے ذریعے ابلاغ کا کام لے لیتا ہے۔ یعنی اشاروں کو بھی زبان میں شامل کرلیتا ہے تاکہ ابلاغ مکمل ہو سکے۔ بہرے افراد اشاروں کی مدد سے ابلاغ کا کام انجام دیتے ہیں اسے اشاروں کی زبان کا نام دیا جاتا ہے۔ اصل لفظ کے آگے لفظ جوڑ کر نیا لفظ بنانا مثلاً دغا باز، قدردان، دل پسند، اثر انگیز اس عمل کو لاحقہ کہتے ہیں
اس کے برعکس اصل لفظ کے پیچھے لفظ جوڑ کر نیا لفظ بنایا جائے اسے سابقہ کہتے ہیں مثلاً ناسمجھ ، بے پرواہ ، کم زور، پرجوش وغیرہ۔ جن زبانوں میں لاحقہ اور سابقہ استعمال ہوتا ہے دو لفظی زبان کہلاتی ہیں ترکی زبان اس کی مثال ہے جن زبانوں میں لاحقہ اور سابقہ استعمال نہیں ہوتا۔ یک لفظی زبان کہا جاتا ہے چینی زبان اس کی مثال ہے
زبان میں ایک لفظ عام بول چال ادا کیا جاتا ہے عام بول چال سے مراد سادہ اور سیدھے انداز میں بات کہہ دینا۔ یعنی یہ علمی زبان کی طرح منطقی نہیں ہوتی اور نہ ہی ادبی نثر کی طرح اس میں استعارات ، علامات ، کنایہ اور مبالغہ کا استعمال ہوتا ہے اور نہ ہی شاعری کی طرح مصرعوں کے باہم ملاپ سے جمالیاتی اور صوتی پیکروں کو جنم دیا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ اپنے ابلاغ کے لیے زبان کا استعمال اپنی مرضی سے کرتے ہیں، اسے عام بول چال کا نام دیا جاتا ہے.
بشکریہ: ایکسپریس نیوز