نیوزی لینڈ کے عوام نے ریفرنڈم میں لاعلاج مریضوں کو ہمدردانہ موت کی اجازت دینے کے حق میں ووٹ دے دیا ہے
گذشتہ دنوں نیوزی لینڈ میں ہمدردانہ موت پر استصواب رائے کرایا گیا جس میں 65.2 فیصد ووٹ اس کے حق میں ڈالے گئے جس کے نتیجے میں ملک میں موت کے حق کے قانون 2019 کی منظوری دے دی گئی ہے
منظور ہونے والے اس نئے قانون کے تحت ایسے لاعلاج مریض جن کے بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا ہو کہ وہ 6 ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکیں گے، انہیں اپنی مرضی سے ہمدردانہ موت کو گلے لگانے کی اجازت ہوگی اور اس کے لیے دو ڈاکٹروں کی منظوری درکار ہوگی
نئے قانون کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس میں احتیاطی تدابیر اور مناسب حفاظتی اقدامات کا دھیان نہیں رکھا گیا۔
نیوزی لینڈ کی حکومت کے لیے اس استصواب رائے پر عمل درآمد لازمی ہے اور نومبر 2021ع سے ملک میں یہ قانون نافذ ہوجائے گا جس کے بعد نیوزی لینڈ بھی دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں ہمدردانہ موت قانونی ہے۔ دیگر ممالک میں نیدر لینڈز اور کینیڈا بھی شامل ہیں۔
نیوزی لینڈ میں ہمدردانہ موت کے ساتھ ساتھ حشیش، گانجا جیسی منشیات کو قانونی قرار دینے پر بھی استصواب رائے کرایا گیا، جسے عوام نے معمولی فرق سے مسترد کر دیا۔ اس قانون کے خلاف 53.1 اور حق میں 46.1 ووٹ ڈالے گئے
ہمدردانہ موت کے قانون کو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسنڈا آرڈرن اور اپوزیشن لیڈر جوڈتھ کولنز دونوں کی حمایت حاصل تھی اور اسی لیے اس کے منظور ہونے کے بھی کافی امکانات تھے۔
واضح رہے کہ ہمدردانہ موت میں لاعلاج مریض کو مرنے میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔