بدرالدین جمال قاضی المعروف جانی واکر کے ہاتھوں میں اسکرپٹ تھا، مقابل کمل ہاسن تھے اور خود جانی واکر شش و پنج کا شکار تھے
ایک منجھے ہوئے اداکار جانی واکر کی اس حالت کی وجہ یہ تھی کہ وہ کم از کم دس سال سے فلمی دنیا اور تقریبات سے دور تھے، سچ تو یہ ہے کہ نئے نئے مزاحیہ اداکاروں کی آمد کے بعد جانی واکر کو ہدایت کاروں نے تقریباً بھلا دیا تھا
گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے ہوئے جانی واکر خاصا اپنی اس زندگی سے مانوس ہو چکے تھے، لیکن کمل ہاسن انہیں ایک بار پھر اداکاری کی طرف کھینچ کر لے آئے تھے
اب وہ کمل ہاسن کے سامنے ہاتھوں میں اسکرپٹ پکڑے شش و پنج کا شکار تھے اور سوچ رہے تھے کہ فلمی دنیا کو وہ اپنی زندگی کے ستر برس میں سے نصف دے چکے تھے، لیکن ایسا تو ان کے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا
یہ بھی کتنی عجیب بات تھی کہ جانی واکر کی اس وقت تک آخری فلم انگریزی زبان میں تھی۔ ہدایت کار اسماعیل مرچنٹ کی ’دی پرفیکٹ مرڈر‘ میں جانی واکر نے 1988ع میں آخری مرتبہ مداحوں کو اپنی جھلک دکھائی تھی
خود جانی واکر کا خیال تھا کہ جو وہ کر چکے، کر چکے، اب ڈھلتی عمر انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ ایک اسٹوڈیو سے دوسرے کے چکر لگاتے پھریں۔ پھر جس طرح کی ذومعنی اور جگت بازی پر مبنی کامیڈی کی جارہی تھی اس نے بھی جانی واکر کو دل برداشتہ کر دیا تھا۔ اسی لیے وہ خود بھی آہستہ آہستہ فلم نگری سے دور ہوتے گئے۔ انہی باتوں کو وہ کمل ہاسن کے گوش گزار کرنے کے لیے الفاظ کا چناؤ کرنے پر غور کر رہے تھے
جانی واکر کا سفر بس کنڈیکٹر سے شروع ہوا تھا۔ ایک دن گرودت کے دفتر قسمت آزمانے پہنچے تو انہوں نے سرپھرے مے نوش کی ایسی اداکاری کی کہ گرودت کو گمان ہی نہیں ہوا کہ پتلا دبلا یہ نوجوان اداکاری کر رہا ہے۔ انہیں ’بازی‘ میں پہلا موقع ملا اور اسی فلم سے بدر الدین جمال قاضی سے انہیں ’جانی واکر‘ کا نام ملا، کیونکہ انہوں نے شرابی بن کر انہیں متاثر کیا تھا
اس پہلے موقعے کے بعد جانی واکر نے پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ چاہے وہ شرابی بنیں یا کوئی سا بھی اور کردار ادا کریں، ان کا مکالمے کا مخصوص انداز چہروں پر بہار لے آتا
ایک دور وہ بھی تھا کہ بھارتی فلم انڈسٹری میں وہ تن تنہا کنگ آف کامیڈی رہے، جن کے مزاح سے بھرپور مکالموں میں شائستگی کا پہلو نمایاں رہتا
یہی وجہ ہے کہ سنسر بورڈ والے ان کا کوئی بھی منظر قابل اعتراض نہ ہونے پر قطع و برید سے محروم رہتے۔ یہ بھی کتنی عجیب بات تھی کہ بیشتر فلموں میں شرابی بن کر چھانے والے جانی واکر شراب سے کوسوں دور رہے۔ یہ تو ان کا مشاہدہ ہی تھا کہ جو ان کے اندر کے فنکار کو اسکرین پر ابھار دیتا
جانی واکر کی اسی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ہدایت کار ان کے لیے فلموں میں خصوصی طور پر کوئی نہ کوئی گانا بھی رکھتے۔ جبھی تو ’جنگل میں مور ناچا‘ ’یہ ہے بمبئی میری‘ ’سر جو تیرا چکرائے‘ ’جانے کہاں میرا جگر گیا جی‘ اور ’ہم بھی اگر بچے ہوتے‘ جیسے ان پر فلمائے گانے اتنے مشہور ہوئے کہ مقبولیت کے ریکارڈ کام کر گئے
کمل ہاسن جانی واکر کو ان کی گہری سوچ سے واپس لائے اور ماحول میں خاموشی کا خاتمہ ہوا۔ کمل ہاسن بتا رہے تھے کہ جب ان کے پاس یہ کردار آیا تو ان کے ذہن میں صرف اور صرف جانی واکر کا نام ہی چمکا
حالانکہ ان کی پروڈکشن ٹیم کئی اور نام پیش کر رہی تھی لیکن انہوں نے جانی واکر کا ہی نام فائنل کیا
کامیڈین نے ممنون بھری نظروں سے کمل ہاسن کو دیکھا لیکن ساتھ ہی اس بات کی تشویش کا اظہار کیا کہ اب اس عمر میں پھر اداکاری؟ کہیں ان کی وجہ سے کمل ہاسن کی فلم ہی متاثر نہ ہو جائے
کمل ہاسن، جو چالیس سال اداکاری کو دے چکے تھے، پہلی بار بطور ہدایت کار اپنی صلاحیتوں کا امتحان لینے جا رہے تھے۔ خواہش تو ان کی یہی تھی کہ ’چاچی 420‘ میں کوئی کسر نہ رہے۔ جبھی ہر شعبے میں بہترین تخلیق کاروں کا انتخاب کر رہے تھے
واضح رہے کہ ’چاچی 420‘ دراصل شہرہ آفاق انگریزی فلموں ’ٹوٹسٹی‘ اور ’مسز ڈاؤٹ فائر‘ کا حسین ملاپ تھی۔ ہالی وڈ سپر اسٹار ڈسٹن ہوفمین اور رابن ولیمز کی انہی الگ الگ فلموں پر 1996ع میں تامل فلم ’آوی شن موگی‘ بھی بنائی گئی تھی۔ ہدایت کار کے ایس روی کمار کی اس فلم میں خود کمل ہاسن مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ ’آوی شن موگی‘ کی کامیابی کے بعد ہی انہوں نے خود اسے ہندی زبان میں بنانے کا فیصلہ کیا تھا
کمل ہاسن کے لیے یہ فلم اس لیے بھی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ وہ بارہ سال بعد مکمل طور پر ہندی زبان میں کسی فلم میں کام کرنے جا رہے تھے، اس لیے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی اہمیت دے رہے تھے۔ اسکرین پلے اور گانے گلزار کے تھے تو سُر بکھیرنے کے لیے موسیقار وشال بھردواج کا چناؤ کیا گیا تھا
جب کمل ہاسن کو بتایا گیا کہ مووی میں ایک چلبلا سا مے نوش میک اپ آرٹسٹ ہوگا، جو ہیرو جے پرکاش (کمل ہاسن) کو خاتون کا روپ دے کر اس کی سابق بیوی کے گھر میں انٹری دلانے میں اہم کردارادا کرے گا تو اس کردار کے لیے ان کے ذہن میں جانی واکر کے علاوہ کوئی نام نہیں آیا
کمل ہاسن نے جانی واکر کی اضطرابی کیفیت محسوس کرتے ہوئے کہا ”دیکھیں جانی بھائی.. ’ناں‘ کہہ کر مایوس مت کریے گا۔ آپ کا مہمان اداکار کا کردار ہے، جسے آپ کی سہولت کے مطابق ہی عکس بند کیا جائے گا۔ یہ ’جوزف‘ کا کردار ہے۔ ہے تو مختصر.. لیکن فلم کی پوری کہانی اسی کے گرد گھوم رہی ہے“
جانی واکر نے کچھ دیر سوچا اور پھر کمل ہاسن کو وہ خوشخبری سنا دی، جس کے وہ منتظر تھے۔ بالآخر جانی واکر نے اس کردار کے لیے ہامی بھر ہی لی
19 دسمبر 1997 کو کمل ہاسن، تبو، امریش پوری، اوم پوری اور آئشہ جھلکا جیسے ستاروں کی ’چاچی 420‘ میں چائلڈ اسٹار کے طور پر فاطمہ ثنا نے بھی کام کیا، جو بعد میں جوانی کی دہلیز پر پہنچیں تو ’دنگل‘ میں نظر آئیں
کمل ہاسن جیسا چاہتے تھے، جانی واکر نے ان کی توقعات کو مایوسی کے اندھیرے میں نہیں دھکیلا۔ مختصر سے کردار’جوزف‘ میں وہ حسب روایت فن کی اسی بلندی پر رہے، جو ان کی اداکاری کا خاصہ تھی۔ جانی واکر نے ثابت کر دکھایا کہ اداکار بوڑھا ہوتا ہے، اس کا فن نہیں۔ فلمی نقاد تو ایک بار پھر سے جانی واکر کے دیوانے ہو گئے، جو بھول بیٹھے تھے ان کے لبوں پر بھی جانی واکر کا تذکرہ تھا
جانی واکر کو ’چاچی 420‘ کے بعد کئی اورفلموں کی پیش کشیں ہوئیں لیکن وہ معذرت کرتے چلے گئے۔ سب کو یہ باور کرایا کہ انہوں نے سپرہٹ ’چاچی 420‘ صرف اور صرف کمل ہاسن کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کی تھی
اپنی بے ساختہ اور برجستہ مزاحیہ اداکاری کی وجہ سے جانے جانے والے جانی واکر 29 جولائی 2003ع کو خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے، اور یوں جس فلم میں انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی کام کیا تھا، وہی ’چاچی 420‘ ان کی آخری فلم ثابت ہوئی.