غلام رسول پاکستانی کا تعلق پنجاب کے شہر پاکپتن سے ہے، انہوں نے اپنے شہر اور اطراف میں نو ماہ میں پانچ لاکھ ستر ہزار پودے لگائیں ہیں، ان کے اس کارنامے کی وجہ سے ضلعی حکومت نے انہیں صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزد کرنے کی درخواست بھی کی ہے
غلام رسول پاکستانی کی عمر چھیالیس سال ہے، وہ کئی سال تک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع بھمبر میں سیاحت کے کام سے منسلک رہنے کے بعد گذشتہ سال ستمبر میں واپس اپنے آبائی شہر پاکپتن آئے، جہاں انہوں نے رضاکارانہ طور پر درخت لگانے کا کام شروع کیا
غلام رسول پاکستانی کا کہنا ہے کہ ستمبر سے اب تک انہوں نے پانچ لاکھ ستر ہزار پودے لگائے ہیں، جن میں اکثریت مقامی درختوں کی ہے
انہوں نے پھل دار جامن، انار، امرود، شہتوت اور بیر کے علاوہ شیشم، سوہانجنا، سکھ چین، کیکر اور دیگر مقامی پودے لگائے ہیں
غلال رسول پاکستانی کے اس منفرد اور مفید کارنامے پر ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر ضلع پاکپتن ارشاد محسن نے ان کے نام ایک خط بھی لکھا ہے کہ وہ چار مارچ 2022ع تک پانچ لاکھ پودے لگا چکے ہیں
ارشاد محسن کہتے ہیں ”غلام رسول پودے تقسیم کرنے والی ہر تقریب میں ضلعی انتظامیہ کو بلاتے ہیں اور پودوں کی تعداد بھی بتاتے ہیں، اس لیے ہمارے محکمے نے یہ خط ڈویژنل ڈائریکٹر کو لکھ کر درخواست کی کہ غلام رسول کو ان کے اس اچھے کام پر صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا جائے“
اپنی اس ماحول دوست سرگرمی کے حوالے سے غلام رسول پاکستانی کا کہنا ہے ”شجرکاری کی اس مہم کے اگلے مرحلے میں ہم پانچ لاکھ پودے صرف کیکر کے لگائیں گے، جن میں سے ایک لاکھ کیکر کے درخت صرف چولستان میں لگائے جائیں گے“
انہوں نے بتایا، اس مہم کے پہلے مرحلے میں چولستان کے قلعہ دراوڑ کے نزدیک ایک مقامی زمیندار کی زمین پر پانچ ہزار کیکر کے پودے لگا دیے گئے ہیں
غلام رسول اسکولوں میں بھی پودے لگاتے ہیں۔ وہ کسی بھی اسکول میں صبح اسمبلی میں جاکر سب بچوں کو درختوں کی اہمیت پر لیکچر دیتے ہیں جس کے بعد سکول میں ایک سو ایک پودے لگائے جاتے ہیں
انہوں نے بتایا ”ہم یہ پودے طالب علموں سے لگواتے ہیں اور اسکول انہیں اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ جب تک اسکول میں پڑھیں گے تب تک وہ اپنے لگائے ہوئے پودے کو نہ صرف روزانہ پانی دیں گے بلکہ اس کی دیکھ بھال بھی کریں گے“
انہوں نے مزید کہا ”اس کے علاوہ ہم ان طالب علموں کو کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر والوں سے پوچھیں کہ انہیں کتنے پودوں کی ضرورت ہے* جو دیے جائیں تاکہ وہ انہیں لگائیں، دوسرے دن انہیں ان کے ضرورت کے مطابق پودے دیے جاتے ہیں“
غلام رسول پاکستانی خود پودے نہیں اگاتے اور نہ ہی کوئی اپنی نرسری بنائی ہوئی ہے، بلکہ وہ محکمہ جنگلی حیات کی پاکپتن اور پتوکی میں موجود سرکاری نرسریوں سے کم قیمت میں پودے خرید کر لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں
انہوں نے بتایا ”پودے خریدنے کے لیے ہم کچھ دوست آپس میں مل کر چندا اکٹھا کرتے ہیں اور پودے خرید کر شہر کے پارکوں، اسکولوں میں لگانے کے علاوہ اطراف کے زمینداروں کو بھی دیے جاتے ہیں“
ان کے بقول ”پہلے ہم نے جو پودے پاکپتن شہر میں لگائے تھے، انہیں پانی دینے کے لیے لوڈر رکشہ خریدا اور میں خود وہ رکشہ چلا کر ان پودوں کو پانی دیتا تھا۔ مگر اس کام میں زیادہ وقت لگتا تھا اور یہ تھکا دینے والا کام تھا“
غلام رسول نے بتایا کہ اب انہوں نے شہر سے گزرنے والی بارہ ماسی نہر کے کنارے محکمہ جنگلات سے نہر کے ساتھ پٹی کی صورت میں موجود ایک کلومیٹر لمبا رقبہ لیا ہے، جس پر میاواکی تکنیک کے تحت اربن فاریسٹ بنایا جائے گا
غلام رسول پاکستانی کے دوست جب انہیں پودے لگانے کے لیے چندہ دیتے ہیں تو وہ ایک وڈیو بناتے ہیں، جس میں ان دوستوں کے نام لے کر بتاتے ہیں کہ ان کے دیے ہوئے چندے سے کتنے پودے اور کہاں لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ پودے لگانے کی تصاویر اور وڈیو کو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا جاتا ہے
جب ان سے سوال کیا گیا کہ وہ کیوں اتنے زیادہ درخت لگانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ پاکپتن اور آس پاس کے اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح دن بدن گر رہی ہے۔ صرف درخت لگا کر ہی زیر زمین پانی کی سطح کو بہتر بنایا جاسکتا ہے
ان کا کہنا تھا ”ہمارے علاقے میں درخت نہ ہونے کی وجہ سے یہاں بارشیں نہیں ہورہی ہیں، حتیٰ کہ پاکپتن مون سون والے علاقے سے باہر نکل گیا ہے، اس لیے میں زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر اسے دوبارہ مون سون کے علاقے میں شامل کروانا چاہتا ہوں“
اتنے تھوڑے عرصے میں اتنے زیادہ پودے لگانا کیسے ممکن ہوا؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے زیادہ تر شیشم یا ٹالی کے پودے لگائے ہیں، جنہیں دیگر پودوں کی طرح پلاسٹک کی تھیلی میں بیج لگا کر اگانے کی بجائے صرف پتلی شاخ کو زمین میں لگایا جاتا ہے اور یہ کچھ عرصے بعد ایک مکمل پودا بن جاتا ہے.