اگرچہ جڑی بوٹیوں سے ادویات تیار کرنے کی روایت ہزاروں سالوں قدیم ہے لیکن یہ روایت آج بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے. انسان ہزاروں سالوں سے پودوں کی شفا بخش خصوصیات کی تلاش اور اس کو بروئے کار لاکر ادویات سازی کر رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف تو جڑی بوٹیوں سے علاج کو اکثر غیر سائنسی قرار دیا جاتا ہے، لیکن دوسری طرف ایک تہائی سے زیادہ جدید ادویات براہ راست یا بالواسطہ قدرتی مصنوعات جیسے پودوں، مائیکرو اورگینیزم اور جانوروں سے حاصل کی جاتی ہیں
یہی وجہ ہے کہ آج کے اس جدید دور میں بھی ایسی ادویات کے فوائد کی نئی دریافت سامنے آ رہی ہیں، ایسی ہی ایک دریافت حال ہی میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے اسکرپس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تحقیق میں سامنے آئی ہے
‘اسکرپس ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ محققین کو اپنی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ‘گالبولی لیما بیلگراوینا درخت’ کی چھال سے نکالا جانے والا کیمیکل نفسیاتی اثرات رکھتا ہے، جو ڈپریشن اور اضطراب کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے
واضح رہے کہ یہ درخت ہمیشہ ہرا بھرا رہتا ہے اور استوائی علاقوں جیسے کہ پاپوا نیو گنی اور شمالی آسٹریلیا کے دور دراز بارانی جنگلات میں پایا جاتا ہے اور اسے مقامی لوگ طویل عرصے سے درد اور بخار کے علاج کے طور پر استعمال کرتے آ رہے ہیں
کیلیفورنیا کے ‘اسکرپس ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ سے وابستہ کیمسٹری کے ایک پروفیسر اور ایک سینیئر مصنف ریان شینوی کا کہنا ہے ”اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ادویات نے مارکیٹ کو اپنے گھیرے میں نہیں لیا ہے۔ اب بھی بہت سی ایسی روایتی ادویات پائی جاتی ہیں، جن پر تحقیق ہونا باقی ہے‘‘
پودوں میں کون سی دیگر طبی خصوصیات پائی جاتی ہیں؟
پودوں سے کشیدہ کردہ سب سے مشہور و معروف طبی مواد افیون ہے۔ اس کا استعمال بطور درد کُش چار ہزار سال سے بھی پہلے سے کیا جاتا رہا ہے۔ پودے کی اس خاص قسم یعنی افیون یا پوست سے حاصل کردہ طبی مواد مورفین یا کوڈین جیسی دوا تیار کی جاتی ہے، جس کا انسانی مرکزی اعصابی نظام پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے
پارکنسنسز جیسی بیماری کا علاج
مخمل پھلیاں (Mucuna pruriens) قدیم ہندوستانی ایورویدک اور چینی حکمت میں قریب تین ہزار سالوں سے استعمال کی جارہی ہیں۔ قدیم مخطوطوں سے پتا چلتا ہے کہ لرزے یا رعشہ یا پارکنسنز جیسی بیماری کا علاج قدیم زمانے میں ان مخملی پھلیوں سے کیا جاتا تھا
موجودہ دور میں تحقیقی نتائج بتاتے ہیں کہ ان پھلیوں میں لیووڈوپا نامی ایک مرکب پایا جاتا ہے، جنہیں آج کل پارکنسنز جیسی بیماری کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے
امراض قلب کا مؤثر علاج
ایک مخصوص جھاڑی میں گہرے سرخ رنگ کا کھلنے والا پھول، جسے گل گنج شفا یا شہفنی بھی کہا جاتا ہے، دل کے عارضے کے علاج میں بہت فائدہ مند مانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی طبی خصوصیات بھی پہلی صدی میں یونانی معالج ڈیوسکوریڈس نے دریافت کی تھیں، جبکہ چینی حکمت میں اسے ٹان بین چاؤ نے ساتویں صدی میں طب کے لیے استعمال کرنا شروع کیا
کورونا وبا کا چینی جڑی بوٹیوں سے علاج
اب تازہ کلینیکل ٹرائلز یا تجربوں سے پتا چلا ہے کہ یہی شہفنی بلڈ پریشر کو کم کرنے اور دل کی بیماری کے علاج کے لیے بہت مفید ہے۔ شہفنی کی بیریوں میں ایسے مرکبات پائے جاتے ہیں جیسے بائیو فلاوونوئیڈز یعنی بعض ایسے مادے جو ترنجی پھلوں اور سیاہ کشمش جیسی چیزوں میں پائے جاتے ہیں، سے بھرپور ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں اینٹی آکسیڈینٹ کا حامل پروانتھوسیانیڈنز پایا جاتا ہے
تاہم شہفنی کا عرق ابھی تک وسیع تر عوامی طبی استعمال کے لیے موزوں قرار نہیں دیا گیا ہے۔ اس بارے میں ماہرین مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، تاہم شہفنی کے درخت کی ٹہنی یا شہفنی بیر کا ذائقہ تھوڑا سا چھوٹے سیب جیسا ہوتا ہے، اس لیے ممکنہ طور پر ان کا عرق دل یا خون کی بیماریوں کے علاج میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے
پیسیفک یو ٹری بارک
علاوہ ازیں پیسیفک یا بحرالکاہل کے مخصوص درخت کی چھال کینسر جیسی موذی بیماری کا مقابلہ کرنے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ یو کے درختوں کو یورپی افسانوی طب میں ایک خاص مقام حاصل ہے
یہ شمالی امریکہ میں پائے جانے والے یو درخت کی ایک قسم ہے۔ Taxus brevifolia سب سے زیادہ طبی خصوصیات کی حامل قسم مانی جاتی ہے
1960ع کی دہائی میں سائنسدانوں نے اس کی چھال میں ٹیکسلز نامی مرکبات کی موجودگی کا پتا لگایا تھا، ان میں سے ایک ٹیکسل، جسے Paclitaxel کہتے ہیں، کو کینسر کے خلاف بننے والی ایک دوا میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کینسر کے خلیوں کو تقسیم ہونے سے روکتی ہے اور اس طرح اس مہلک بیماری کی وجہ بننے والے خلیوں کی نشو و نما کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے.