کبھی پانی کی کمی سے مرتے ہیں تو کبھی فراوانی سے

سحر بتول

عزیزان من!

کم و بیش تین ہفتوں سے بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب یا سرائیکی وسیب کے اکثر علاقوں میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ پورے زور و شور سے جاری ہے۔ جس کی وجہ سے یہ علاقے تیزی سے بدترین سیلاب کی نذر ہو رہے ہیں۔ یہ علاقے اکثر ہی قدرتی آفات کی زد میں رہتے ہیں۔ زلزلے ہوں یا سیلاب، جب بھی آتے ہیں ان علاقوں کے باسیوں کو بے گھر اور بے سرو سامان کر جاتے ہیں

المیہ یہ نہیں کہ قدرتی آفات پہ ہمارا اختیار نہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ کئی دفعہ کی تمرین کے بعد بھی ہم نے ان آفات کے بدترین نتائج سے سبق سیکھا اور نہ ہی پیشگی ان آفات کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے۔ جس کا خمیازہ غریب اور بے آسرا لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے باوجود معمول سے زیادہ بارشوں کے نتیجے میں آنے والی اس بھیانک آفت کے متعلق سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا

اور المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اس قسم کی صورتحال میں مکمل طور پہ پھنس جانے کے بعد ہوش میں آتے ہیں اور مدد امداد کے لیے خیراتی اداروں اور بین الاقوامی برادری کی جانب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ یہ ذمہ داری سراسر حکومتی اداروں کی ہوتی ہے۔ اور المیہ یہ بھی ہے کہ ان آفات سے نمٹنے کے لیے وطن عزیز میں باقاعدہ ایک ادارہ بھی قائم ہے۔ اب وہ ادارہ کیا کرتا ہے یا کیا کر رہا ہے واللہ العالم

فی الوقت تک مقامی لوگ اور کچھ خیراتی ادارے مل جل کے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کب تک؟ عوام فقط راشن اور خیمے، ادویات اور بستر وغیرہ پہنچانے کی کوشش کر سکتی ہے۔ لیکن اصل معرکہ سیلاب کی زد میں آنے والے علاقوں کے رہائشی افراد کو سیلابی ریلے سے نکالنا اور محفوظ مقام تک پہنچانا ہے۔ اور یقیناً کثیر تعداد میں آفت زدہ علاقوں سے لوگوں کو ریسکیو کرنا عام آدمی یا فلاحی ادارے کے بس کی بات نہیں ہے

لوگ مر رہے ہیں۔ مکان مردہ خانوں کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ جانور، بچے، عورتیں سیلابی ریلے میں بہہ کے مٹی گارے کا کفن اوڑھ رہے ہیں۔ زمینی رستے زیر آب آ چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ تو سیلاب زدہ علاقے سے لوگ باہر نکل سکتے ہیں اور نہ ہی دوسرے لوگ ان کی مدد کر پا رہے ہیں۔ عجب قیامت کا عالم ہے۔ عجب تکلیف دہ مناظر ہیں۔ عام افراد سے مدد کی درخواست کے ساتھ ساتھ ہم حکومتی اداروں کی منت کرتے ہیں کہ آفت زدہ علاقوں کی طرف پہنچیں اور بے یارو مددگار لوگوں کو ریسکیو کریں۔ ایک ہفتہ بھی اگر یہی صورتحال مزید رہی تو معاملہ بہت زیادہ خراب ہو جائے گا۔ وبائیں اور بیماریاں پھوٹنے لگیں گی جو مصیبت در مصیبت کے مصداق سنبھالنے سے نہیں سنبھلیں گی

جو مر گئے ان کے لیے کفن دفن نہ سہی لیکن جو زندہ ہیں ان کے سانس بچا لیے جائیں۔ ڈوبتے ہوئے بچے اور بہتے ہوئے ماں باپ بچا لیے جائیں۔ ہر ذمہ دار شخص جس کی آواز سنی جاتی ہے۔ جس کے لفظ پڑھے جاتے ہیں وہ جہاد باللسان اور جہاد بالقلم سمجھ کے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے آواز اٹھائیں۔ دعاگو ہیں خدائے بزرگ و برتر خود اپنی مخلوق پہ خاص رحم فرمائے۔

بشکریہ: ہم سب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close