سچا، کھرا، بلوچ انقلابی

اوریا مقبول جان

اس قدر محبت، وارفتگی اور والہانہ پن سے میں نے کسی شخص کو گلے ملتے نہیں دیکھا۔ دُور سے اپنے بازو پھیلاتا اور اس تپاک سے ملتا کہ دیکھنے والے چونک جاتے۔ میں اس شخص کو ملنے سے بہت پہلے ہی سے جانتا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں آرمی ایکشن شروع کیا اور عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو اپنی ذاتی اَنا کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے برطرف کر دیا تو پنجاب میں رہنے والے وہ سیاسی کارکن جو بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے حصار میں نہیں تھے، وہ بلوچستان کے حالات میں خصوصی دلچسپی لیا کرتے تھے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ان کا سیاسی شعور اور وہ احساسِ ندامت بھی تھا کہ جب چند سال پہلے ان کے شہر لاہور میں شیخ مجیب الرحمٰن نے ناصر باغ میں جلسہ کیا اور لوگوں سے سیاسی ملاقاتیں بھی کیں تو مغربی پاکستان کے باسیوں نے نہ اس شخص کی گفتگو پر دھیان دیا اور نہ ہی کبھی دردِ دل سے بنگالیوں کے گلے شکوے سننا گوارا کئے. ہماری اسی بے نیازی کے عالم میں مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو گیا۔

بھٹو دَور میں بلوچستان اور سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) شروع دن سے وفاق گریز قیادت تلے جمع تھے اور بھٹو مضبوط مرکز کی علامت تھے۔ بلوچستان کی قیادت اگرچہ قوم پرستانہ اور انقلابی نعروں سے گونجتی تھی، لیکن یہ ساری قیادت ان سرداروں، نوابوں، میر معبتروں، ملکوں اور ٹکڑیوں پر مشتمل تھی جو نیشنل عوامی پارٹی کا حصہ تھے۔ لیکن ان تمام نوابوں اور سرداروں کے درمیان ایک مڈل کلاس سے بھی کم حیثیت والے خاندان سے تعلق رکھنے والا نوجوان عبدالحئی بلوچ بالکل مختلف نظر آتا تھا۔ یہ ایسا نوجوان تھا کہ جب وہ کراچی میں ڈائو میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا تو 1970ء کا الیکشن آ گیا، بی ایس او کے اس سرکردہ طالب علم رہنما کو صدیوں سے بلوچ قوت کی علامت اور ریاستِ قلات کے سربراہ خان آف قلات کے بھائی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا اور حیرت کی بات یہ ہوئی کہ اس نے اس خاندانی وجاہت کی علامت کو شکست دے دی اور آئین ساز اسمبلی کا رکن بن گیا۔ اس کے بعد اس نوجوان نے پورے ملک کو اس وقت مزید حیرت زدہ کر دیا جب اس نے 1973ء کے اس آئین پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا جسے بھٹو متفقہ آئین کہا کرتا تھا۔ اس وقت عبدالحئی بلوچ کا پارٹی لیڈر، سیاسی رہنما اور قائد میر غوث بخش بزنجو تھا۔ بزنجو صاحب کو اس نوجوان سمیت تمام بلوچ شروع دن سے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن عبدالحئی بلوچ نے تو دُنیا کو حیران در حیران کرنے کا شاید ٹھیکہ لے رکھا تھا۔

جب ذوالفقار علی بھٹو نے عطاء اللہ مینگل کی حکومت برطرف کی تو نواب محمد اکبر خان بگٹی کو گورنر لگا کر فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل اور میر گل خان نصیر سمیت لاتعداد بلوچ رہنمائوں پر حیدر آباد سازش کیس کے نام پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ وقت بدلا، ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا کر حیدر آباد کیس ختم کیا اور عامی معافی کا اعلان کر دیا۔

ضیاء الحق کے طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد جو پہلے الیکشن 1988ء میں ہوئے ان میں عبدالحئی بلوچ نواب اکبر بگٹی کے ساتھ مل کر بنائی گئی بلوچستان نیشنل موومنٹ کا روحِ رواں تھا۔ اس نوزائیدہ قوم پرست پارٹی نے بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے مقابلے میں منظور احمد گچلی کو کھڑا کیا، جس نے بابائے بلوچستان کو ہرا دیا۔ یہ واقعہ بلوچستان سے باہر رہنے والوں کے لئے حیرت کا باعث تو تھا ہی، اس نے خود بلوچستان والوں کو بھی حیران کر دیا۔

عبدالحئی بلوچ میرے بلوچستان میں قیام کا ایک شاندار تحفہ تھا۔ ایسے خوبصورت ذہن کے مالک شخص کا باطن اس قدر کھرا، صاف اور اُجلا تھا کہ اس میں بناوٹ تصنع اور منافقت نام کو نہ تھی۔ وہ بلوچستان کے سردار زدہ معاشرے میں ایک ایسا گلاب تھا جو صحراء کے بیچوں بیچ کھلا ہوا تھا۔ وہ کسی بھی ایسے شخص کے لئے ہر گز قابلِ قبول نہیں رہا جو خاندانی اکڑ فوں پر ناز کرتا ہو۔ جس ضلع بولان میں وہ پیدا ہوا، میں ایک دفعہ اس کے ڈپٹی کمشنر کے پاس بیٹھا تھا کہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ملنے کے لئے آیا۔ وہ اس وقت سینیٹر تھا۔ ڈپٹی کمشنر نے مجھے بتایا کہ جب عبدالحئی بلوچ ملنے آتا ہے تو میرا خانساماں بھاگ جاتا ہے، کیونکہ وہ خود کو اس سے نسلی طور پر بلند سمجھتا ہے اور اس کے لئے چائے بنا کر پیش کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اپنی سیاسی جدوجہد کی وجہ سے وہ بڑے بڑے سرداروں کی سیاسی مجبوری بن چکا تھا، کیونکہ وہ نوجوان جو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے تحت نظریاتی طور پر اس کے اردگرد اکٹھا ہو چکے تھے وہی تو قوم پرستانہ سرداروں کی اصل قوت تھے۔ ان کے بغیر سرداروں کی سیاست کا چراغ نہیں جل سکتا تھا۔ لیکن ان سرداروں کا روّیہ اس عظیم بلوچ رہنما کے لئے ویسا ہی تھا کہ جیسے ایک مجبوری ان کے ساتھ ساتھ چل رہی ہو. عبدالحئی بلوچ نے مجھ سے بار بار اس کا تذکرہ کیا۔ ایک دفعہ پنجاب سیکرٹریٹ کے دفتر میں بیٹھے ہوئے کچھ بلوچستان ناآشناہم پنجابی بیورکریٹس نے اس کے ساتھ ایک بے وجہ قسم کی بحث شروع کر دی جس میں انہوں نے سرداروں کو ہی بلوچستان کی پسماندگی کا اصل ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ ہمیں بلوچوں کو سرداروں سے نجات دلانا چاہئے۔ میں نے اپنے ان ساتھیوں سے کہا کہ کیا کبھی بلوچوں نے یہ کہا ہے ہم تم کو چودھریوں کے ظلم سے نجات دلاتے ہیں پھر تم کون ہوتے ہو، بلوچ جانیں اور ان کے سردار جانیں۔ میرے اس فقرے پر عبدالحئی بلوچ نے اپنا مخصوص بلند بانگ قہقہہ لگایا اور کہا اوریا بھائی! انہیں بتائو! اگر یہ لوگ اپنے اس ’’ماما‘‘ بننے والے رویے سے ہٹ جائیں تو بلوچستان کے عوام خود اپنے سرداروں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کر دیں، ان کی مخالفت بلوچ عوام کو سرداروں کی گود میں پھینک دیتی ہے۔ ڈاکٹر حئی کی یہی شعلہ بیانی ہی تھی جو اسے ہر جگہ نئے نئے حاسد تحفے میں دیتی تھی۔ سردار اس کی سیاست کو پسند نہیں کرتے تھے، مگر سرِعام کبھی نہیں بولتے تھے۔ لیکن ایک دفعہ نواب اکبر بگٹی کے داماد سردار چاکر خان ڈومکی کے پاس ان دنوں میں بیٹھا تھا جب نواب بگٹی نے اپنے اس سیاسی داماد کو ڈاکٹر حئی کے الیکشن میں کام کرنے کی ذمہ داری لگائی تھی اس مرحلے پر سردار چاکر خان کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ تقریباً آدھا گھنٹہ اس نے ڈاکٹر حئی کے عوامی طرزِ ملاپ پر تابڑ توڑ تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے تو نواب صاحب نے مشکل میں ڈال دیا ہے، بندر کا تماشہ دیکھنے لوگ کھڑے ہوں تو یہ شخص گاڑی روک کر کہتا ہے آئیں ان لوگوں سے حال احوال کرتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالحئی سے میری ملاقات، تعلق بلکہ بہت حد تک دوستی و قربت کا عرصہ کم از کم بیالیس سالوں پر محیط ہے۔

میں نے جب بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تو وہ میرے ابتدائی جاننے والوں میں سے تھا۔ زمرّد حسین صاحب کی قلات پبلشر تمام انقلابی سرداروں اور لیڈروں کا ٹھکانہ ہوا کرتی تھی۔ زمرّد حسین صاحب واحد شخصیت تھے، جن سے شناسائی کے لئے میں ایک تعارفی خط لے کر کوئٹہ آیا تھا، عبدالحئی بلوچ اور تمام سیاسی اور ادبی قیادت وہیں میری دوست بنی۔ یہ شہر اور صوبہ مجھے اس قدر بھایا کہ میں نے پنجاب کے ڈومیسائل پر سول سروس میں کامیابی کے بعد سندھ میں اپنی پوسٹنگ سے انکار کر کے بلوچستان آنے پر ترجیح دی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اس صوبے کے بلوچوں، براہویوں اور پشتونوں کے کبھی بھی میرے اور اپنے تعلق میں فرق نہ آنے دیا۔ ان کے نزدیک میرے ایک لیکچرر ہونے اور ڈپٹی کمشنر ہونے میں کوئی تفریق نہ تھی۔ ویسے ہی بے تکلف، کھرے، منہ پر بات کرنے والے، نفرت اور محبت دونوں کا برملا اظہار کرنے والے لوگ۔ ڈاکٹر عبدالحئی بھی اسی بلوچ روایت کا امین تھا۔ اس سے دوستی ایک ایسے وقت ہوئی تھی جب بلوچستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے فوجی ایکشن کے زخم تازہ تھے۔ اس کی گفتگو گذشتہ دس سالوں کی جدوجہد، اذیت اور اضطراب سے بھری ہوتی۔

پاکستان کی موجودہ بددیانت اور کرپٹ سیاسی دُنیا میں وہ دیانت و شرافت کا مجسمہ تھا۔ عبدالحئی بلوچ اس وقت پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا رکن بنا تھا جب نواز شریف اور زرداری کے آبائو اجداد کو کوئی جانتا تک نہ تھا۔ ان کی طرح کئی سیاسی رہنما ہیں جو معمولی کاروباروں سے دُنیا بھر کے ممالک میں پھیلی جائدادوں کے مالک بن گئے، لیکن عبدالحئی بلوچ ہمیشہ پیدل ہی رہا لیکن ہماری بددیانت سیاست میں عظمت کا مینار۔ میں نے جناح روڈ کی سڑکوں، سیکرٹریٹ کی راہداریوں یہاں تک کہ اسلام آباد اور لاہور میں بھی اسے پیدل ہی گھومتے دیکھا۔ ایک سادہ سا بلوچ جو آپ کے پاس سے گزر جائے تو آپ کو احساس تک نہ ہو کہ وہ اس ملک کی سیاست کا چمکتا ہوا گوہر ہے۔ لوگوں نے اس گوہر کو مٹی میں دفن کر دیا، لیکن بدقسمت ہے یہ قوم جسے اس نقصان کا اندازہ تک نہیں ہے۔

بشکریہ: 92 نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close