آکسفورڈ یونیورسٹی اور اس سے منسلک سات صدیاں پرانے بیلیول کالج میں داخلہ کیسے ملتا ہے؟

ویب ڈیسک

برطانیہ کی تاریخی آکسفورڈ یونیورسٹی دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں میں شمار یوتی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ اس یونیورسٹی سے منسلک تاریخی کالج ہیں

آکسفورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق یونیورسٹی سے مجموعی طور پر انتالیس کالج منسلک ہیں، جن میں سے تاریخی بیلیول کالج یونیورسٹی سے الحاق شدہ دوسرا قدیم ترین کالج ہے

بیلیول کالج 1263ع میں قائم کیا گیا اور دلچسپ بات یہ کہ اب بھی اس کی وہی عمارت استعمال میں ہے

اس کالج میں دنیا کی کئی مشہور اور نامی گرامی شخصیات تعلیم حاصل کر چکی ہیں، جن میں نوبیل انعام یافتہ، سیاستدان، ریاضی دان، ٹی وی شخصیات اور مفکرین شامل ہیں

آج بھی اس کالج کا دورہ کریں اور اس کی مختلف جگہیں دیکھیں، جن میں وہ تاریخی ڈائنگ ہال بھی شامل ہے، جہاں کالج سے فارغ التحصیل عظیم شخصیات کھانا کھاتی تھیں، تو ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے

دنیا بھر کے بیشتر طالب علموں کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ آکسفورڈ میں پڑھیں اور وہاں سے ڈگری حاصل کریں۔ اس لیے یہاں آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلے کا طریقہ کار بیان کیا جا رہا ہے

کالج میں موجود شعبہ جات

کالج حکام کے مطابق یہاں تقریباً تمام شعبہ جات میں داخلہ ملتا ہے

انہوں نے بتایا کہ آکسفورڈ سے مسنلک کالجوں کے لیے داخلے کا کوئی الگ نظام موجود نہیں ہے، بلکہ پوری یونیورسٹی کا ایک ہی نظام ہے اور داخلے کے لیے ایک ہی فارم بھرنا ہوتا ہے، جس میں امیدوار اپنی خواہش کے مطابق کالج کا انتخاب کرتا ہے

کالج میں گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ ڈگری پروگرامز میں داخلہ ملتا ہے

کالج انتظامیہ سے منسلک ایک خاتون بتاتی ہیں ’امیدوار اپلائی کرتا ہے اور فارم میں اپنی پسند کا کالج لکھتا ہے۔ اگر اس کالج میں وہ میرٹ پر پورا اترتا ہے، تو اسے داخلہ مل جاتا ہے اور اگر میرٹ پر نہیں اترتا تو اسے یونیورسٹی کے کسی اور کالج میں اسی شعبے میں داخلے کی آفر کی جاتی ہے۔‘

تاہم آکسفورڈ یونیورسٹی کے کسی بھی کالج میں داخلے کے سلسلے میں ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ آپ کو داخلہ یونیورسٹی انتظامیہ کی منظوری سے نہیں بلکہ آپ کے جمع کروائے گئے مقالے (تھیسس) کے پروپوزل پر ملتا ہے، جسے کالج کے متعلقہ شعبے کے پروفیسر چیک کرتے ہیں

یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر بھی اس بات کا ذکر موجود ہے، جس کے مطابق جب امیدوار داخلہ فارمز اور دیگر ضروری دستاویزات جمع کرواتا ہے تو متعلقہ کالج، جسے اس نے منتخب کیا ہوتا ہے، اس کا متعلقہ پروفیسر اس کے مقالے کے پروپوزل کو دیکھتا ہے اور اس کے مطابق امیدوار کے داخلے کی درخواست منظور یا مسترد ہوتی ہے

تاہم ایک کالج سے جب امیدوار کو انکار کیا جاتا ہے تو اس کے کاغذات دوسرے کالج میں بھیج دیے جاتے ہیں اور پھر دوسرے کالج کے متعلقہ شعبے کے پروفیسر امیدوار کے مقالے کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ داخلہ دیا جائے یا نہیں

اس سوال پر کہ آکسفورڈ کے کالجز کا خرچہ کیسے پورا ہوتا ہے؟ تو انہوں نے بتایا ”برطانوی حکومت کی جانب سے کچھ گرانٹ ملتی ہے، تاہم زیادہ تر کالج کے اخراجات عطیات سے پورے ہوتے ہیں اور کالج سے پاس ہونے والے سابق طلبہ اور دیگر چیریٹی ادارے عطیات دیتے ہیں

ہاسٹل اور کھانے کا خرچہ

داخلہ ملنے کے بعد ذہن میں یہ سوال ضرور آتا ہے کہ کالج کے ساتھ ہاسٹل کی سہولت موجود ہے یا نہیں؟

یونیورسٹی کے مطابق کالج کے پاس دو ہاسٹل موجود ہیں، جن میں طلبہ کو جگہ دی جاتی ہے، تاہم کالج یہ گارنٹی نہیں دیتا کہ تمام طلبہ کو ہاسٹل میں داخلہ ملے گا

ہاسٹل میں داخلہ مل گیا تو اس کے اخراجات کتنے ہوں گے؟ اس حوالے سے انتظامیہ کی رکن خاتون نے بتاتی ہیں ”سب سے بڑا خرچہ کرائے کا ہوگا جو ایک ٹرم (نو ہفتے) کا تقریباً ایک ہزار سے دو ہزار چار سو برطانوی پاؤنڈ (دو سے چھ لاکھ روپے) تک ہو سکتا ہے

اسی طرح بجلی اور لانڈری کے خرچے کی بات کی جائے تو یہ ایک ٹرم کا تقریباً 74 پاؤنڈ (تقریباً 19 ہزار روپے) بنتا ہے

نئے آنے والے طلبہ کو سنگل سٹڈی روم دیا جاتا ہے، جس کا باتھ روم شیئرڈ ہوتا ہے جبکہ بعد کے سالوں میں طلبہ کے پاس مختلف آپشن موجود ہوتے ہیں، جن میں سویٹ رومز کی سہولت بھی شامل ہے

کھانے کے خرچے کی اگر بات کی جائے تو ہاسٹل کے میس میں دوپہر کے کھانے کا خرچہ تین پاؤنڈ تو رات کے کھانے کا خرچہ ساڑھے چار پاؤنڈ (سات سے گیارہ سو روپے تک) ہوتا ہے

کیا آپ آکسفورڈ کا انٹرویو پاس کر سکتے ہیں؟

آکسفورڈ یونیورسٹی ان سوالوں کے نمونے جاری کرتی رہتی ہے، جو وہاں داخلہ لینے کے خواہشمند طلبہ سے پوچھے جا سکتے ہیں

ان سوالوں کی فہرست میں چند سوال ہیں جیسے کہ ”کیا جنگ سیاست کا متضاد ہے؟ اور دماغ کے اس حصے کی کیا اہمیت ہے جو لوگوں سے ملاقات کے دوران ان کے چہرے پہچاننے میں مدد دیتا ہے؟“

اگلے دو ہفتوں کے دوران آکسفورڈ میں داخلے کے امیدواروں کے کم سے کم دو انٹرویو لیے جائیں گے

یونیورسٹی نے یہ سوال داخلے کے طریقہ کار کو کم خوف زدہ بنانے کے لیے جاری کیے ہیں

ماڈرن لینگویجز میں داخلہ لینے والے طلبہ سے یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ دنیا پر انگریزی زبان کے غلبہ کی صورت میں ابھی بھی اطالوی یا فرینچ زبان سیکھنا کیوں ضروری ہے

جب کہ انجینئیرنگ کے شعبے میں دلچسپی رکھنے والوں کو ولاسٹی کے پیچھے موجود طاقت اور فٹبال کو ہوا میں اچھالنے کے طریقہ کار کے بارے میں اسکیچ بنانے کو کہا جا سکتا ہے

داخلہ ڈائریکٹر کے مطابق ”ہم جانتے ہیں کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے انٹرویو کے حوالے سے غلط فہمیاں اور مفروضے پائے جاتے ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ معلومات دی جائیں تاکہ طلبہ کی مدد کی جا سکے جو کہ ان کی آسانی کا باعث بنے۔“

انہوں نے کہا ”اس بارے میں اندازہ ہونا کہ ان سے کیا پوچھا جا سکتا ہے انہیں انٹرویو کی تیاری میں مدد دیتا ہے اور کسی نامعلوم سوال کے بارے میں ان کی پریشانی کو کم کرتا ہے“

جیزس کالج کے ڈاکٹر میتھیو ولیمز کہتے ہیں کہ ممکنہ طور پر سیاست، معیشت یا فلسفے کے طالب علم سے یہ کیوں پوچھا جائے گا کہ کیا جنگ سیاست کا متضاد ہے؟

ان کا کہنا ہے ’عام طور پر جنگ سیاست کا حصہ ہو سکتی ہے۔ اس کی مخالف نہیں۔ اس کا مقصد طلبہ کو کچھ الگ سوچنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اور ایک ایسی تشریح سوچنا ہے جو کی سیاست کو مثبت اور بہتر انداز میں دکھائے اور سیاست کو جنگ سے بچاؤ کے طور پر ثابت کرے

یہ ممکنہ رد عمل ’جنگ‘ کی اصطلاح سے جسمانی تشدد کا مطلب اخذ کر سکتے ہیں۔ ان میں سائبر جنگ بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اور سیاست کی سطح ریاست سے لے کر خاندانی تک ہو سکتی ہے‘

اس لیے جنگ اور سیاست کی اتنی واضح تشریح ان اصطلاحات کے حوالے سے ہماری سمجھ بوجھ کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتی۔‘

یونیورسٹی کالج کے نک یوئنگ نے نفسیات کے شعبے میں داخلہ لینے والے طلبہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کیسے دماغ کے چہرہ پہچاننے والے حصے کی اہمیت بیان کر سکتے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ چہرہ پہچاننا ایک فن ہے جو کہ بہت فائدہ مند ہے اور اسے بہت آسان سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوال پوچھ کر ہم یہ طلبہ کی تجرباتی ساخت کے بارے میں تنقیدی سوچ جاننا چاہتے ہیں تاکہ ہم ان دیکھ سکیں کہ ہم ان نتائج سے کیا سیکھ سکتے ہیں

’مثال کے طور پر کیا اس تجربے میں ایک واضح مفروضہ اور پیش گوئی کی گئی ہے؟ کیا یہ تجربہ کرنے کے لیے یہ ایک بہتر حالت ہے؟ کیا ایک مناسب طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے؟ کیا اس تجربے کے دوران تمام صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری اقدامات لیے گئے ہیں؟‘

ان کا مزید کہنا تھا ’ تنقیدی سوچ کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ طلبہ تخلیقی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر یہ جاننا اس تجربے کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور اس کے نتائج کیسے یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے؟‘

یہ مشورہ ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب ہزاروں طلبہ رواں مہینے یونیورسٹی میں داخلے کے لیے انٹرویو دینے والے ہیں

داخلہ ڈائریکٹر کا کہنا ہے ”یہ کوئی مشکل سوالات نہیں ہیں۔ ہر وہ چیز جو ہم پوچھتے ہیں اس کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ طلبہ کیسے سوچتے ہیں اور نئے خیالات اور معلومات پر کیا ردعمل دیتے ہیں۔ یہ ایک تعلیمی گفتگو ہے جو لیکچرز کا حصہ ہو گی اگر وہ پڑھنے کے لیے آکسفورڈ آتے ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close