بھارتی ریاست راجستھان کا جیسلمیر شہر ریگستانی خطے میں واقع ہے۔ شہر سے باہر سینکڑوں میل تک ریگستان کا طویل سلسلہ پھیلا ہوا ہے جہاں جگہ جگہ ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں۔ شہر سے چند میل کی مسافت پر ایک خوبصورت ‘کلدھرا’ نامی گاؤں واقع ہے، جو گذشتہ دو سو برس سے ویران پڑا ہے اور اب محکمہ آثار قدیمہ کی نگرانی میں ہے
اس گاؤں کے باشندے دو سو برس قبل راتوں رات اپنا گاؤں چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے اور پھر کبھی پلٹ کر واپس نہیں آئے
مقامی روایت کے مطابق دو سو برس قبل جب جیسلمیر رجواڑوں کی ایک ریاست تھی، اس وقت کلدھرا گاؤں اس ریاست کے سب سے خوشحال گاؤں میں شمار ہوتا تھا، یہاں سے سب سے زیادہ ریونیو آتا تھا. یہاں خوشیوں کی تقاریب ہوتیں اور روایتی رقص و موسیقی کی محفلیں سجا کرتیں
یہ گاؤں پالیوال برہمنوں کا مسکن ہوا کرتا تھا۔ گاؤں کی ایک لڑکی شادی ہونے والی تھی، جس کے بارے میں روایت مشہور ہے کہ وہ لڑکی حسن میں اپنی مثال آپ تھی
ایک روز جیسلمیر ریاست کے دیوان سالم سنگھ کی نظر اس لڑکی پر پڑی تو وہ اُن کی خوبصورتی پر مر مٹا اور لڑکی سے شادی کرنے کی ضد پکڑ لی
مقامی روایات کے مطابق سالم سنگھ ایک ظالم شخص تھا جس کے ظلم اور زیادتیوں کے قصے دور دور تک مشہور تھے۔ مگر اس کے باوجود کلدھرا والوں نے ڈر کر ہامی بھرنے کی بجائے سالم سنگھ کو لڑکی کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا
گاؤں والوں کے انکار کو دیکھ کر سالم سنگھ نے گاؤں والوں کو سوچنے کے لیے چند دنوں کی مہلت دی۔ گاؤں والے جانتے تھے کہ اگر انہوں نے سالم سنگھ کی بات نہیں مانی تو وہ گاؤں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دے گا
روایت کے مطابق کلدھرا کے باشندوں نے گاؤں کے مندر کے پاس واقع ایک چوپال میں پنچایت کی اور اپنی بیٹی اور اپنے گاؤں کا وقار بچانے کے لیے گاؤں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ سارے گاؤں والے ایک رات کے خاموش اندھیرے میں اپنا سارا سامان، مال متاع، مویشی، غلہ اور کپڑے لے کر اپنے گھروں کو چھوڑ چھاڑ ہمیشہ کے لیے یہاں سے نقل مکانی کر گئے اور پھر کبھی واپس نہیں لَوٹے
ایک اور مقامی روایت یہ مشہور ہے کہ کلدھرا کے باشندے جب یہ گاؤں چھوڑ رہے تھے اس وقت انہوں نے یہ بددعا دی تھی کہ یہ گاؤں کبھی آباد نہیں ہوگا۔ ان کے چلے جانے کے دو سو برس بعد بھی جیسلمیر کے ریگستان میں یہ گاؤں ویران پڑا ہے
جیسلمیر میں سالم سنگھ کی حویلی اب بھی موجود ہے لیکن اسے دیکھنے کوئی نہیں جاتا
جیسلمیر کے نواح میں واقع کلدھرا گاؤں میں کئی قطاروں میں بنے ہوئے پتھر کے مکانات اب دھیرے دھیرے کھنڈر بن چکے ہیں۔ لیکن ان کھنڈروں سے بھی ماضی میں اس گاؤں کی خوشحالی کا پتہ چلتا ہے
بعض گھروں میں چولہے، بیٹھنے کی جگہیں، گھڑے رکھنے کی جگہوں کی موجودگی سے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی یہاں سے ابھی گیا ہو۔ یہاں کے در و دیوار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔ کھلے مقام پر بسا ہونے کی وجہ سے سناٹے میں سَرسَراتی ہوئی ہوا کی آواز ماحول کو اور بھی افسردہ بنا دیتی ہے
مقامی لوگ اپنے بزرگوں کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ رات کے سناٹے میں کلدھرا کے کھنڈروں سے اکثر کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ مقامی طور پر یہ روایت کافی مشہور ہے کہ ”کلدھرا کے باشندوں کی آتمائیں یہاں بھٹکتی ہیں“
راجستھان حکومت نے اس گاؤں کو سیاحوں کی خاطر دلچسپ بنانے کی غرض سے یہاں کے کچھ مکانات کو پہلے کی طرح بحال کر دیا ہے۔ گاؤں کا مندر اب بھی اپنی جگہ گزرے ہوئے وقت کے گواہ کی طرح صحیح و سالم کھڑا ہے
یہاں ہر سال ہزاروں سیاح اس گاؤں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ اس گاؤں کو بہت عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں.