لگ بھگ روزانہ اخبارات کی شہ سرخیوں میں آنے والے عدلیہ کے مختلف مقدمات میں فیصلوں اور ججز کے ریمارکس پر بحث ہوتی ہے۔ فیصلوں سے قبل ججوں کے ریمارکس چند سیکنڈز میں ہی میڈیا کی زینت بن جاتے ہیں۔ ٹی وی چینل، ویب سائٹ اور پھر اگلے روز اخبارات میں یہی ریمارکس خبروں کی شہہ سرخیاں اور مواد بنتے ہیں
دنیا کے کئی ممالک کے جج شاید ابھی اتنے ’خوش قسمت‘ نہیں ہیں کہ ان کی پل پل کی خبر عام ہو سکے۔ ممکن ہے اس کی وجہ وہاں سیاسی نوعیت کے مقدمات کی بھرمار کا نہ ہونا ہو
لیکن کورونا وائرس کی وبا نے جہاں دنیا بھر پر کئی اثرات مرتب کیے ہیں، وہیں عدالتی کلچر پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے
پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک، جہاں پہلے سے عدالتی سماعت کے دوران ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جاتا تھا، اب باقاعدہ ورچوئل سماعت کے انتظامات کیے جا چکے ہیں۔ اب سماعت کے دوران جج کب پانی پی رہے ہیں اور کب کسی وکیل، پولیس والے یا کسی دوسرے افسر کو ڈانٹ پلا رہے ہیں، یہ سب عوام دیکھ سکتے ہیں یعنی سماعت کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال عوام تک پہنچ رہی ہے
اس طریقہ کار نے وکلا، صحافیوں اور عام سائلین کے لیے بھی سہولیات پیدا کی ہیں۔ اب اگر چیف جسٹس آف پاکستان اسلام آباد بیٹھے مقدمات کی سماعت کر رہے ہوتے ہیں تو ان مقدمات میں پیش ہونے والے وکلا کراچی، لاہور اور پشاور سے دلائل دیتے نظر آتے ہیں
اس حوالے سے قانونی ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار کے تحت جب کراچی سے ایک وکیل کے لیے اسلام آباد پہنچ کر سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی شرط نہیں ہوگی، تو لامحالہ عام سائل پر بھی اضافی فیس ادا کرنے اور سفر کے اخراجات کا دباؤ نہیں ہوگا اور ایک معذور سائل بھی اپنے مقدمے کے بارے میں گھر بیٹھے سب جان سکے گا
پاکستان میں جہاں ورچوئل سماعت ہو رہی ہے ،وہیں پڑوسی ملک بھارت ایک قدم آگے بڑھ کر لائیو اسٹریمنگ پر جا چکا ہے
واضح رہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ سنہ 2018ع میں ہی عدالتی کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ کی منظوری دے چکا ہے۔ تاہم جج وکلا کو وڈیو کے ذریعے دلائل دینے کا موقع دینے کو تیار تھے یا نہیں مگر کورونا وائرس نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس دوران یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وکلا جس طرح خوب تیار ہو کر عدالتوں کا رخ کرتے ہیں وہ ورچوئل سماعت میں اپنے لباس کا اتنا خیال نہیں رکھ پاتے
بھارت میں تو دو دلچسپ واقعات بھی پیش آئے: جب ایک بار ایک وکیل بغیر شرٹ پہنے ہی دلائل دینا شروع ہو گئے جبکہ ایک اور وکیل کو دلائل دیتے ہوئے حقہ پیتے ہوئے دیکھا گیا
گذشتہ دہائی میں ’لائیو لاء‘ اور ’بار اینڈ بینچ‘ جیسی ویب سائٹس، سوشل میڈیا اور سمارٹ فون کی بھرمار سے عدالتی کوریج پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں
بھارت میں بھی اب یہ رپورٹنگ صرف ججوں کے فیصلوں، آبزرویشن یا عدالت میں ہونے والے تبادلہ خیال تک محدود نہیں رہی
لائیو لاء کے مینیجنگ ایڈیٹر مینو سیباستیان کی رائے میں اس سب نے عدالتی کوریج سے متعلق بھی آگاہی پیدا کی ہے اور اب لوگوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ عدالتوں میں کیا چل رہا ہے
’باراینڈ بینچ‘ کے شریک بانی ششیرا ردرپا کا کہنا ہے کہ اب بھارت کی عدالتوں پر بھی وہ وقت قریب ہے، جب عدالتی خبریں اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں گی
گذشتہ برس بھارت کی سپریم کورٹ کے ایک جج، جسٹس ڈی وائے چندراچد نے کہا تھا کہ لمحہ بہ لمحہ تازہ صورتحال پر رپورٹنگ عدالت کی ورچوئل توسیع کے مترادف ہے
اپنے ایک بیان میں چیف جسٹس این وی رمانا نے لائیو اسٹریمنگ کو دو دھاری تلوار قرار دیا ہے، تاہم انہوں نے ججز کو خبردار بھی کیا کہ جج عوامی رائے سے متاثر نہیں ہوتا
پاکستان میں عدالتی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے تو عدالتی سماعت کے لیے لائیو اسٹریمنگ تک کے بھی انتظامات کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ تاہم پاکستان میں عدلیہ اس حوالے سے ابھی تک زیادہ آمادہ نظر نہیں آتی
واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں پارلیمنٹ کی کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ کی جاتی ہے لیکن عدالتوں میں ابھی بھی یہ کلچر عام نہیں ہوا۔ البتہ کورونا وائرس کے دوران عدالتیں اس جانب ایک قدم آگے بڑھی ہیں
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنی عدالت سے لائیو اسٹریمنگ کے لیے آلات نصب کرا دیے ہیں، تاہم ابھی اس متعلق طریقہ کار طے کرنے کے لیے انہوں نے ہائی کورٹ کے ایک جج، وکلا اور صحافیوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی ہے
اس کمیٹی کا کام یہ ہے کہ وہ لائیو اسٹریمنگ کے اصول اور ضابطے طے کر کے سفارشات تیار کرے۔ عدالت نے عام لوگوں سے بھی اس متعلق تجاویز طلب کی ہیں
خیال رہے کہ پاکستان میں سیاسی رہنما بھی وقتاً فوقتاً اپنے مقدمات کی لائیو اسٹریمنگ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں
جبکہ سپریم کورٹ میں بھی وکلا اور فریقین مختلف مقدمات میں لائیو اسٹریمنگ کی درخواست کر چکے ہیں لیکن ابھی تک عدالت نے ان درخواستوں پر زیادہ غور نہیں کیا ہے
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے ریفرنس اور سنہ 1990ع کے انتخابات میں فوج کی طرف سے مبینہ دھاندلی کے اصغر خان کیس میں بھی عدالت سے لائیو اسٹریمنگ کی استدعا کی گئی تھی مگر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے یہ کہہ کر ان درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا کہ ابھی پاکستان کی عدالتیں مغربی ممالک کی طرح اتنی ایڈوانس نہیں ہیں
لائیو اسٹریمنگ سے فائدہ؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جب اپنی عدالت میں لائیو اسٹریمنگ کے آلات نصب کرائے تو اس کے بعد انہوں نے میڈیا کے لیے ایک بیان بھی جاری کیا۔ ان کے مطابق بہت سارے مقدمات کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ جس میں فریق لائیو اسٹریمنگ کے حق میں نہیں ہوتے
یہی وجہ ہے کہ عدالت نے ضابطہ کار طے کرنے کے لیے ایک ای-کمیٹی تشکیل دے دی ہے
اس کمیٹی میں شامل ہائی کورٹ بار جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر کا کہنا ہے ”عدالت جہاں ایک طرف عوام تک تمام حقائق پہنچانا چاہتی ہے، وہیں فریقین کی پرائویسی جیسے حقوق کا بھی خیال رکھ رہی ہے۔ ابھی کمیٹی ان خطوط پر ہی کام کر رہی ہے تاکہ ایسے رولز بنائے جا سکیں، جن سے کسی کا حق بھی متاثر نہ ہو اور عوام تک اہم مقدمات کی سماعت بھی براہ راست پہنچ سکے تا کہ وہ عدالت میں ہونے والی کارروائی کو گھر یا دفتر بیٹھے بھی دیکھ سکیں“
حکام کے مطابق لائیو اسٹریمنگ کی سہولت سے عوام، میڈیا اور وکلا بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ اس سے عدالت میں آنے والوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہو سکتی ہے اور سیکیورٹی کے مسائل بھی کم ہونگے
عدالتی کارروائی اور سوشل میڈیا
پاکستان میں جہاں ایک طرف روایتی میڈیا عدالتی کوریج کو یقینی بناتا ہے، تو وہیں دوسری طرف اب یوٹیوبرز اور وی لاگرز بھی تبصروں اور تجزیوں کے ساتھ عدالتی کارروائی کا مکمل احوال عوام تک پہنچا رہے ہیں
ان یوٹیوبرز کو سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد فالو کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان وی لاگرز کی خبریں روایتی میڈیا سے بھی زیادہ وائرل ہوتی ہیں اور انہیں سننے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے
ایڈیٹوریل پالیسی کی پابندیوں سے آزاد یہ وی لاگرز ججوں کے طرز عمل اور سوچ کے زاویے تک پر بھی بات کر لیتے ہیں اور یہ تجزیہ بھی دے دیتے ہیں کہ کون سے جج نے خاص مقدمے میں کون سی پوزیشن اختیار کرنی ہے
سوشل میڈیا پر خبروں کی اس قدر پذیرائی کو دیکھ کر روایتی میڈیا نے بھی اپنی ڈجیٹل کوریج کا دائرہ کار وسیع کیا ہے اور اب فیسبک لائیو اور ٹوئٹر اسپیس کے ذریعے بھی عدالتی کارروائی کا احوال پیش کیا جاتا ہے۔