دریائے سندھ کے ساتھ چشمہ بیراج کے قریب واقع کھنڈر نما عمارت، جو بظاہر کسی قدیمی قلعے کی باقیات لگتی ہے
مقامی لوگ اس جگہ کو ‘کافرکوٹ’ کہتے ہیں لیکن انہیں اس کے حوالے سے زیادہ معلومات حاصل نہیں ہیں۔البتہ جو افراد وادی سندھ کی تہذیب کو دریافت کرنا چاہتے ہیں تو یہ عمارت ان کی توجہ کا مرکز ضرور بنتی ہے
کافرکوٹ کو دو اہم حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بلوٹ کافرکوٹ اور ٹلوٹ کافرکوٹ، جو ایک دوسرے سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں
یہ قدیم عمارت ایک پہاڑی پر واقع ہے ،جس کا سلسہ کوہ ہندو کش سے ملتا ہے
ایک اندازے کے مطابق یہ کھنڈرات ہندو شاہی سلطنت کے تعمیر کردہ آٹھ مندروں کے احاطے کا حصہ ہیں۔ یہ ایک بڑے حکمران خاندان کی باقیات ہیں، جو کبھی مغرب میں کابل کی وادی سے لے کر مشرق میں ہندوستان کے کچھ حصوں تک طاقت رکھتا تھا
ہندو شاہی سلطنت کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہیں اور آثار قدیمہ کے ماہرین نے جو معلومات اکٹھی کی ہیں، ان میں سے بیشتر ان کے دشمنوں کی کہانیاں، کافرکوٹ جیسی جگہوں کی دیواروں پر سکے یا نقشہ جات سے ملتی ہیں
جغرافیائی علم کے حصول کے لیے طویل سفر اختیار کرنے والے،ماضی کے مشہور محقق و مورخ البیرونی کے خیال میں یہاں بسنے والے افراد تبت سے تھے یا ترک تھے
جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ وہ اس علاقے کے متحارب قبیلوں سے نکلے ہیں۔ ہندو شاہی کابل کے اہم شاہی جو کہ بدھ مت تھے سے الگ ہو گئے اور دریائے سندھ کے کنارے اس علاقے میں آباد ہو گئے۔ تاہم وہ 11 عیسوی میں غزنوی سلطنت کے ہاتھوں شکست کھا گئے جنہوں نے ان کے علاقے پر قبضہ کر لیا لیکن قلعے کو برقرار رکھا
کھنڈرات کے ارد گرد مختلف شکلوں کو دیکھتے ہوئے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاہی ایک الگ تھلگ یا دشمن برادری نہیں تھے بلکہ ارد گرد کے قبیلوں اور حکمرانوں کے ساتھ رابطے میں تھے
تاریخ دانوں کے مطابق کھنڈرات پر جو نقش ہیں وہ گندھارا اور کشمیری سلطنتوں سے تعلق رکھتے ہیں
داخلی راستوں پر کشمیری ڈیزائن ہیں۔ تاہم کھنڈرات میں گندھارا فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے، غالباً یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ ابتدائی طور پر ان کھنڈرات کو عام بودھی ستوپ سمجھا جاتا تھا
شاہیوں کا علاقہ غالب گندھارا پر محیط تھا اور ایک موقع پر کشمیر بھی تہذیب میں شامل تھا
ماہرین آثار قدیمہ نے اس خاص کمپلیکس کو ساتویں صدی عیسوی تک قرون وسطیٰ کے قلعوں کی ایک دلچسپ مثال کے طور پر پیش کیا ہے
اس کا محل وقوع نہ صرف ایک منفرد مقام فراہم کرتا ہے، جو شمال میں سندھ کو دیکھتا ہے بلکہ جنوب میں ایک ناقابل تسخیر خندق اور مغرب میں سرحد کی دیوار سے بھی محفوظ ہے
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ قلعہ کیسے بنایا گیا کیوں کہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ قلعے کی تعمیر کے لیے استعمال ہونے والے پتھر اس علاقے کا مقامی پتھر نہیں ہے
قلعے کے کمپاؤنڈ میں کچھ ہندو مندروں کی باقیات ہیں، جو نقش و نگار کے ساتھ مرکز میں ایک تالاب کے ساتھ ہیں
یہ غور کرنا حیران کن ہے کہ غزنویوں کے حملوں اور دیگر عظیم تہذیبوں جیسے کشان، منگولوں یا مغلوں کے باوجود یہ کھنڈر کسی نہ کسی طرح بچ گئے لیکن ان کا وجود کبھی ریکارڈ نہیں کیا گیا
میانوالی کے گزٹ نے پہلی بار 1915ع میں کافر کوٹ کا وجود درج کیا، جس میں کہا گیا تھا کھنڈرات کافی اہمیت اور قدیم ہندو تہذیب کے وجود کی علامت ہیں“
کافرکوٹ میں پہلا آثار قدیمہ کا کام نوآبادیاتی حکمرانی کے دوران ہوا اور اس مقام سے حاصل کیے گئے بہت سے نمونے اب بھی برٹش میوزیم میں موجود ہیں
لیکن وہ بھی صرف ان لوگوں کے بارے میں قیاس آرائیاں کر سکتے تھے، جنہوں نے ٹلوٹ اور بلوٹ میں قلعے بنائے اور استعمال کیے
اگرچہ کھنڈرات ٹوٹ رہے ہیں لیکن مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دشمن کے حملہ آور کے ہاتھوں تباہی کی وجہ سے نہیں بلکہ وقت گزرنے کے کی وجہ سے ہوا ہے
پاکستان میں ایسے کئی مقامات ہیں جو زمین کی امیر اور پرانی تاریخ کی یاد دہانی کا کام کرتی ہیں۔یہ شاید وہ معمہ اور حیرت کا احساس ہے جو مورخین یا تاریخ کے شوقین افراد کو مزید تحقیق کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں
ان تاریخی عمارات کو پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر فیصل امین خان نے دوبارہ سے تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھایا اور محکمہ آثار قدیمہ کی مدد سے ان عمارتوں کو دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔