حیدرآباد سے ٹھنڈی ہواؤں کا کُوچ

نبیل ابڑو

مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں گرمیوں کے دنوں میں جب رات کے وقت بجلی جایا کرتی تھی تو ہم لوگ جاکر چھت پر سویا کرتے تھے اور اس وقت حیدرآباد کی ہواؤں کی کیا ہی بات تھی، پر لطف، تیز اور ٹھنڈی ہوائیں کسی ائر کنڈیشنر سے کم نہ تھیں، یہ بات بھی کوئی اتنی پرانی نہیں ہے غالباً آٹھ دس سال پہلے جب ہم رات کو سونے کے لیے بسترے بچھایا کرتے تھے تو تیز ہوا سے وہ بار بار ہمارے اوپر آ کر گر جاتے تھے

حیدرآباد کی ٹھنڈی سڑک کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، سڑک کے دونوں اطراف لگے درختوں کی گھنی چھاؤں، دن کے وقت بھی دل باغ باغ کر دیا کرتی تھی

آج وہ ہی حیدرآباد ہے وہی گرمیوں کے دن ہیں پر آج نہیں ہے تو بس وہ حیدرآباد کی ہوائیں نہیں ہیں، اب ہوا کی جگہ سخت حبس نے لے لی ہے، آج سے دس سال پہلے رات کے وقت جو بستروں کے اوپر اینٹیں رکھنے کے باوجود تیز ہوا سے ہمارے اوپر آ کر گرا کرتے تھے آج وہی بسترے اینٹیں رکھے بغیر بھی نہیں ہل رہے۔ ٹھنڈی سڑک کی ٹھنڈی ہوائیں چلنا اب بند ہو گئی ہیں، وہاں لگے گھنے درخت کی جگہ اب اشتہاری بل بورڈز اور اور سائن بورڈز نے لے لی ہے

ہم سب تو یہ ہی سمجھتے ہیں کہ نہ جانے کس کمبخت کی نظر لگ گئی ہے ہمارے شہر کی ہواؤں کو پر جناب اس ہواؤں کا بیڑا غرق کرنے والے بھی ہم خود ہی ہیں، آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ آخر کیا ہو گیا جو آٹھ سے دس سالوں میں اتنی تبدیلیاں کیسے آ گیں تو جناب یہ کمال ہے ان بڑی بڑی عمارتوں کا جس کی وجہ سے ہوائیں چلنا بند ہو گئیں، یہ کمال ہے شہر میں لگی مختلف فیکٹریوں کا جہاں سے نکلنے والے دھوئیں نے ہمارے ماحول کو آلودہ کر دیا ہے، یہ کمال ہے اس ٹریفک کا جو دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور ہوا کو آلودہ کرتی جا رہی ہے

اس کے ساتھ ہی حیدرآباد کے ماحول کی اگر بات کی جائے تو یہ بھی تباہی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے، وہ کوئی اور دور تھا جب حیدرآباد اور جامشورو ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے جانے جاتے تھے پر یہاں اب تو پارہ 43 سے 47 کے درمیان ہی رہتا ہے

دریائے سندھ میں کئی سالوں سے جاری پانی کی قلت کی وجہ سے اس کے کنارے پر جو درخت تھے کچھ تو ختم ہو چکے ہیں جبکہ کچھ کا لوگوں نے صفایا کر دیا ہے

شجر کاری مہم میں خیبر پختون خواہ صوبہ سب سے آگے دکھائی دے رہا ہے، کے پی کے کی سابقہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ دکھائی دی، جہاں حکومت نے کم و بیش ایک ارب درخت لگائے جو ایک بہترین کاوش تھی

ویسے تو فضائی آلودگی کے بہت سارے اسباب ہیں لیکن کچھ خاص یہاں پر لکھتا چلوں:

جنگلات کی کٹائی

پوری دنیا میں درخت آکسیجن فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہیں جو فضا میں پہلی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری مضر صحت گیسوں کو جذب کر کے آکسیجن فضا میں پھیلاتے ہیں۔

کچھ سالوں سے جاری جنگلات کی کٹائی اور نئی درخت نہ لگنے کی وجہ سے فضا میں ماحول دشمن گیسوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بارشوں کا نہ ہونا، گرمی میں مسلسل اضافہ، پانی کی کمی اور دوسرے مسائل بڑھ گئے ہیں

ٹرانسپورٹ:

پبلک ٹرانسپورٹ کا بہتر نظام نہ ہونے کی وجہ سے شہری اپنی ذاتی کار یا موٹرسائیکل چلاتے نظر آتے ہیں جن کی نہ تو کوئی مینٹیننس چیک کرنے والا ہے اور نہ ہی کوئی ایکشن لیا جاتا ہے، آج بھی کئی سالوں سے چلتے فور سیٹر، چنگچی رکشا اور کھٹارا سوزوکیوں کے دھوئیں روڈ پر چھوڑتی نظر آتی ہیں۔ گاڑیوں میں اضافے کی اہم وجہ بینکوں کا آسان اقساط پر گاڑیاں فراہم کرنا بھی ہے۔

اینٹوں کے بھٹے :

اس ہی کے ساتھ ساتھ حیدرآباد کے اطراف میں اینٹوں کے بھٹوں کے جائزہ لیا جائے تو وہاں پر بھی ماحول دشمن گیسوں کا اخراج جاری ہے، اینٹوں کو پکا کرنے کے لیے جلائی جانے والی آگ میں پلاسٹک اور پرانے چپل جیسی چیزوں کے استعمال نے ماحول کو خطرناک حد تک آلودہ بنا دیا ہے ایک اندازے کے مطابق حیدرآباد کے قریب ٹنڈو حیدر میں تقریباً 30 سے 35 کے قریب بٹھے ہیں جو ایک الارمنگ والی صورتحال ہے

حیدرآباد کے علاقے گاڑی کھاتہ میں جگہ جگہ بیٹریوں کا پانی پھینکا جاتا ہے جس کی وجہ سے بھی گرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ حیدرآباد کے وادھو واہ میں گندگی اور سیوریج کا پانی نظر آتا ہے ماضی میں وادھو واہ میں صاف پانی ہوا کرتا تھا جو قاسم آباد کی زرعی زمینوں کو آباد کرنے کے لیے تھا پر اب سارے قاسم آباد کا سیوریج اور نکاسی اس ہی وادھو واہ میں کی جاتے ہے، جبکہ اس کے برعکس لاہور کے کینال روڈ والی نہر آج بھی صاف پانی سے بھری ہوئی ہے۔ اگر گندگی اور ماحول کو خراب کرنے میں وادھو وائی کی گندگی کو بھی گنا جائے تو غلط نہ ہوگا

گرمی میں اضافے کی اہم وجہ درختوں کی کٹائی بھی ہے۔ سندھ میں جنگلات ختم ہوتے جا رہے ہیں، اور جو بچے کچے ہیں ان میں روزانہ کی بنیاد پر درختوں کی کٹائی جاری ہے، جنگلات کی تیزی سے ختم ہونے سے جہاں ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہیں جنگلی حیات کا بھی خاتمہ ہو رہا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ حیدرآباد سمیت سندھ بھر میں گرمی کی شدت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے

رواں ماہ (مئی) کے دوسرے ہفتے کے دوران حیدرآباد میں درجہ حرارت:
45,43,46,48,49,47

درجہ حرارت میں اضافے کا دوسرا سبب صنعت کاری ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ملک کی ترقی میں صنعت کا بڑا کردار رہا ہے پر یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کا ماحول خراب کرنے میں بھی صنعت کاری کا ہی ہاتھ ہے

اگر درجہ حرارت پر قابو پانا ہے اور ماحول کو خراب ہونے سے بچانا ہے تو ہر ایک آدمی کو انفرادی حیثیت میں ایک ایک درخت لگانا اپنے گھر اور اطراف میں، یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہر امیر و غریب آدمی یہ با آسانی لگا سکتا ہے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ جلد از جلد انوائرمینٹل پالیسی جوڑے اور جنگلات کو ختم ہونے سے بچائے اور درختوں کی کٹائی کرنے والوں کے خلاف بھی اقدامات کیے جائیں

اس کے ساتھ ساتھ روڈ پر دوڑتی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی مینٹیننس کو یقینی بنایا جائے تاکہ ان گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں سے نکلتا دھواں ہوا کو آلودہ نہ بنائے جبکہ شہر کے اطراف میں لگے اینٹوں کے بھٹوں کو شہر سے باہر منتقل کیا جائے، اور حیدرآباد میں وادھو واہ میں گندگی کو صاف کر کے صاف پانی اور شہر کے ہر کونے میں درخت لگائے جائیں تا کہ ہمارا ماحول اچھا رہے اور ہم گرمی سے بچ سکیں، اگر ہمارا ماحول اچھا ہو گا تو ہم بھی اچھے طریقے سے رہ سکیں گے۔

بشکریہ: ہم سب و مصنف

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close