بہاولپور کے نوابوں کے حرم، جہاں آنے کا راستہ تھا جانے کا نہیں

سجاد اظہر

ریاست بہاولپور ہندوستان کی 565 نیم خودمختار ریاستوں میں ساتویں نمبر پر تھی، جس کا رقبہ 45588 مربع کلومیٹر تھا۔ اس کی بنیاد عباسی داؤد پوتروں کے ایک سردار نواب صادق خان اوّل نے 1733 میں قلعہ دراوڑ، راول اکھی سنگھ سے چھین کر رکھی

بہاولپور وہ پہلی ریاست تھی، جو تقسیم کے بعد سب سے پہلے پانچ اکتوبر1947 کو پاکستان میں شامل ہوئی۔ ریاست کا سربراہ نواب کہلاتا تھا۔ پاکستان میں شامل ہونے تک اس کے 12 نواب گزرے ہیں

بہاولپور کے دو ممتاز محققین پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر اور پروفیسر ڈاکٹر آفتاب حسین گیلانی کی ایک مشترکہ کتاب ’خطۂ بہاولپور کا مختصر جغرافیائی، تاریخی، انتظامی اور ثقافتی جائزہ‘ میں ریاست کے بارے میں تفصیلی معلومات دی گئی ہیں، جن میں سے ایک باب حرم سرائے سلطانی کا بھی ہے۔ اس میں نوابوں کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں معلومات شامل ہیں

کثرتِ ازدواج دنیا کے اکثر حکمرانوں کی مشترکہ خاصیت رہی ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ پرانے بادشاہوں میں سے ایسے بھی گزرے ہیں، جن کے حرم میں سینکڑوں بیویاں اور کنیزیں ہوا کرتی تھیں۔ آج کے دور میں بھی افریقی ملک کیمرون کی ایک ریاست ماروا کے بادشاہ بکر یریمابابا کی ایک سو بیویاں ہیں

ریاست بہاولپور کا شمار ہندوستان کی خوشحال ریاستوں میں ہوتا تھا، جس کا اندازہ اس کے عالی شان محلوں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ جن میں صادق گڑھ، گلزار محل، نور محل اور دربار محل شامل ہیں جن کی مثال پنجاب، سندھ اور راجپوتانہ ریاستوں میں نہیں ملتی

ریاست کے دسویں نواب صادق خان رابع کا دور حکومت 1866 سے 1899 تک محیط ہے۔ ان کی سو بیویاں تھیں۔گیارہویں نواب بہاول خان خامس نے تو اپنے پیشرو تمام نوابوں کو مات دے دی اور بیویوں کی تعداد سو سے بھی بڑھا لے گئے۔ ان میں سے چار خاندانی، دو اینگلو انڈین، ایک انگریز اور ایک عراقی خاتون تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی ایک بیوی نچلی ذات کی ہندو ظہراں کٹانی تھی، جس سے انہیں عشق ہو گیا تھا۔ اس سے ان کے دو بیٹے ہوئے تھے، جو انہوں نے درگاہ خواجہ غلام فرید کی خدمت گزاری پر مامور کر دیے تھے

نواب کے حرم کی حفاظت کے اس قدر غیر معمولی انتظامات کیے جاتے تھے کہ وہاں چڑیا تک پر نہیں مار سکتی تھی۔ کڑے پہرے کی خاطر ایک دوہری فصیل قائم کی گئی تھی، جس کے داخلی دروازے کی چوکیداری پر پوربیہ نامی ایک ہندو محافظ تعینات تھی

ڈیوڑھی پر دربانی ڈیر اور مہر قبیلہ کے ذمے تھے۔ حرم سرا کی دیگر خدمات پر خواجہ سرا تعینات تھے۔ حرم سرا میں مردوں کا داخلہ ممنوع تھا اور نواب کے حقیقی بیٹوں کو بھی آٹھ سال کی عمر میں حرم سے باہر منتقل کر دیا جاتا تھا۔ ریاست کے نوابوں کے ہاں منکوحہ بیویوں کے علاوہ زرخرید لونڈیوں، مفتوحہ اور باغی سرداروں کی بیٹیوں اور زیر عتاب مقتول امرا کی بیویوں اور بیٹیوں کو حرم میں شامل کرنے کا دستور تھا

نکاح میں بیک وقت صرف چار بیویاں ہی رکھی جاتی تھیں، باقیوں کو باری باری طلاق دے دی جاتی تھی مگر انہیں نکاح ثانی کرنے اور محل سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ باقی زندگی حرم سرائے میں ہی گزارنے کی پابند تھیں

حرم سرا کی خواتین پر طرح طرح کی ناروا پابندیاں عائد تھیں۔ سال میں ایک بار میکے جانے کے لیے بھی انہیں باقاعدہ اجازت طلب کرنی پڑتی تھی۔ اس دوران انہیں سرکاری محافظوں کی نگرانی میں بھیجا جاتا تھا۔ خواتین کے مرد رشتہ داروں میں صرف والد اور بھائیوں کو حرم سرا سے متصل ڈیوڑھی میں ملاقات کی اجازت تھی

امیرانِ بہاولپور کے حرم سرا میں ریڈیو، اخبار، رسالہ، انسانی تصویر، نر جانوروں اور مرغوں تک کا داخلہ ممنوع تھا، حتیٰ کہ بعض سبزیوں اور پھلوں کو بھی کاٹ کر اندر بھجوایا جاتا تھا

نواب کی بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں جب کاروں میں سفر کرتیں تو گاڑیاں رنگدار شیشوں والی استعمال کی جاتیں۔ مزید یہ کہ شیشوں کے اندر دہرا پردہ لگایا جاتا۔ کار کے اگلے حصے پر بھی خاکی پردہ لگایا جاتا تاکہ رعایا کو پتہ چلے کہ باپردہ خواتین گزر رہی ہیں اور وہ کار کو دیکھتے ہی اپنی پشت کار کی طرف کر کے کھڑے ہو جائیں

خود نواب صاحب جب اپنی انگریز بیوی کے ساتھ باہر نکلتے، تب بھی اسی ضابطے پر عمل کیا جاتا۔ اس سے ذرا سی خلاف ورزی بھی شاہی عتاب کا پیش خیمہ بن سکتی تھی۔ اگر حرم سرائے کی کوئی خاتون بیمار ہو جاتی تو اسے حکیم کے پاس نہیں لے کر جایا جاتا بلکہ صرف مرض کی علامات بتا کر نسخہ لکھوایا جاتا تھا

حرم سرا میں نواب کی بیگمات، ان کی بیٹیوں، والدہ، دادی اور دیگر رشتہ دار خواتین کو حفظ ِ مراتب کے مطابق آراستہ و پیراستہ قیام گاہیں مہیا کی گئی تھیں، جہاں انہیں زندگی کی تمام سہولتیں میسر تھیں

حرم سرا اپنی خوبصورت عمارات، وسیع و عریض سبزہ زاروں، باغیچوں، تالابوں اور آرائش و زیبائش کے حوالے سے کسی جنت سے کم نہ تھا۔ ہر خاتون کا الگ سے وظیفہ مقرر تھا خدمت کے لیے سینکڑوں ملازمائیں تعینات تھیں

ان خدمت داروں پر ایک عہدہ دار خاتون مقرر تھیں۔ جبکہ ڈیوڑھی سے رابطے کے لیے ایک معمر خاتون ’معتبرۂ خاص‘ کے نام سے متعین ہوتی تھی۔ تاہم حرم سرا کے تمام اندرونی معاملات پر حاکمانہ اختیارات نواب کی والدہ یا دادی کو حاصل ہوتے تھے

نواب صادق خان خامس کی دادی اپنے محل میں دربار لگاتی تھیں جہاں حرم سرا کی خواتین، اراکین سلطنت کی بیگمات اور ملازمائیں روزانہ حاضر ہوتیں۔ ان کے محل پر ریاست کا جھنڈا لہرایا جاتا اور وہ حرم سرا کے انتظامات کے حوالے سے احکامات جاری کرتیں۔ اس موقعے پر حاجت مند خواتین کی مدد بھی کی جاتی

خواتین کو رقص و موسیقی کی اجازت تھی اورمہمان خواتین کی تواضع کھانوں اور مشروبات سے کی جاتی تھی۔ لیکن ان تمام سہولیات کے باوجود انہیں محل میں گھٹ گھٹ کر مرنا ہی ہوتا تھا کیونکہ محل سے باہر کی زندگی کے دروازے ان پر قطعی بند تھے

سب سے بڑھ کر جو ظلم بہاولپور کے نوابوں نے روا رکھا وہ یہ تھا کہ انہوں نے شروع سے ہی اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو شادی کے فطری، شرعی اور قانونی حق سے محروم رکھنے کی روایت قائم کی۔ جس کی ایک توجیہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ وہ کسی بھی شخص کو اپنا داماد یا بہنوئی کہلوانا اپنے وقار کے منافی سمجھتے تھے

اس قبیح روایت کا خاتمہ ریاست کے آخری نواب صادق محمد خان خامس کے سر ہے کہ انہوں نے اس غیر شرعی روایت سے رجوع کیا اور سب سے پہلے اپنی حقیقی بہن شہزادی مہر الہٰی کا نکاح اپنے چچا زاد بھائی محمد معتصم باللہ عباسی سے کیا

اس کے بعد انہوں نے اپنی تمام بیٹیوں کی شادیاں کیں۔ انہوں نے حرم سرا میں اصلاحات بھی متعارف کروائیں جن میں خواتین حرم کو تفریحی سہولیات کی فراہمی اور شہزادیوں کی تعلیم و تربیت شامل تھی

علاوہ ازیں انہیں نے اپنی چار سے زائد مطلقہ بیویوں کو مہر کی ادائیگی اور زرعی اراضی تفویض کرنے کے ساتھ ساتھ آزادانہ زندگی گزارنے اور نکاح ثانی کی اجازت بھی دے دی۔ یہ الگ بات کہ ان میں سے بیشتر بیگمات نے اس نظام کی دیرینہ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے حرم شاہی سے علیحدگی کو اپنی عزت اور وقار کے منافی سمجھا

اس کی ایک مثال رکھو بی بی کی ہے، جو اپنی وفات 1993ع تک محل میں ہی مقیم رہیں اور حرم سرا سے باہر قدم نہ نکالا

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close