شاعر اکثر صدمے کی کیفیت میں ”دل ٹوٹنے“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، لیکن جان لیجئے کہ یہ محض بات نہیں، بلکہ اچانک صدمے سے ’دل ٹوٹنے‘ کی بیماری ہو سکتی ہے جو جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے
جی ہاں، دل ٹوٹنا باقاعدہ ایک بیماری ہے، جسے تاکت سوبو کارڈیومایوپیتھی سنڈروم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دل کی ایسی عارضی حالت ہے، جو انتہائی جذباتی یا جسمانی دباؤ کے نتیجے میں ہو سکتی ہے
اس حالت کے بارے میں پہلے 1990ع میں جاپانی ماہرین نے نشاندہی کی تھی۔ ’تاکت سوبو‘ کا لفظ ایک برتن کے نام سے آیا ہے، جسے جاپانی ماہی گیر آکٹوپس پکڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں
یہ بیماری اس وقت لاحق ہوتی ہے، جب دل کا بایاں خانہ، جو خون پمپ کرنے کا بڑا چیمبر ہے، وہ شکل تبدیل کر کے سائز میں بڑا ہو جاتا ہے، جس سے دل کے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں اور خون پمپ کرنے کی دل کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے
ایسا ہونے پر بائیں خانے کا بالائی حصہ تنگ اور نیچے کا حصہ گول ہو جاتا ہے، جس سے یہ آکٹوپس کے جال جیسا دکھائی دیتا ہے
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دل ٹوٹنے کا عارضہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ رپورٹ ہونے والے کیسز میں نوے فیصد سے زیادہ کیس اٹھاون سے پچھتر سال کے درمیان کی عمر کی خواتین کے تھے
ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ماہرین کے مطابق تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانچ فیصد تک ایسی خواتین جن پر دل کا دورہ پڑنے کا شبہ ہوتا ہے، وہ دراصل ’تاکت سوبو کارڈیومایوپیتھی‘ کا شکار ہوتی ہیں
اس حالت سے منسلک دباؤ کے عوامل میں کسی عزیز ترین ہستی کی جدائی، انتہائی رنجیدہ کر دینے والا حادثہ، اچانک آنے والی قدرتی آفات مثال کے طور پر زلزلہ یا اچانک بیماری شامل ہو سکتی ہے
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ شدید تکلیف اور دباؤ کے ہارمونز مثلاً ایڈرینالین کی مقدار میں اضافہ دل کو ’حیرت زدہ‘ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں، جس کا نتیجہ دل کے پٹھوں کے خلیوں، دل کی شریانوں یا دونوں میں تبدیلی کی صورت میں نکلتا ہے
یہ تبدیلیاں دل کے بائیں خانے کو مؤثر انداز میں سکڑنے سے روک دیتی ہیں، اس طرح یہ اتنی اچھی طرح خون پمپ نہیں کر پاتا، جتنی اچھی طرح اسے کرنا چاہیے
تاہم ’تاکت سوبو کارڈیومایوپیتھی‘ کی علامات لگ بھگ دل کے دورے جیسی ہی ہیں، جس کی وجہ لوگ ’تاکت سوبو کارڈیومایوپیتھی‘ کا حملہ ہونے پر اسے دل کا دورہ ہی سمجھتے ہیں
بڑی علامات میں سینے میں اچانک، شدید درد اور دم گھٹنا شامل ہے۔ برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے مطابق بعض لوگوں کو دوسری علامات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جیسا کہ دل کی دھڑکن میں اضافہ، بیماری محسوس کرنا یا بیمار ہونا
اس کیفیت کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے، جب طبی ٹیسٹ دل کے دورے اور دل سے تعلق نہ رکھنے والے مسائل کو مسترد کر دیں اور اگر دل کے بائیں خانے کی شکل تبدیل ہو جائے، جس سے دل کا پٹھا کمزور دکھائی دینے لگے یا خون کو مناسب انداز میں پمپ کرنے کے قابل نہ رہے، تو یہ ’تاکت سوبو کارڈیومایوپیتھی‘ ہو سکتی ہے
ان ٹیسٹوں میں الیکٹروکارڈیوگرام (ای سی جی)، خون کا ٹیسٹ، ایکوکارڈیوگرام، کارڈیئک میگنیٹک ریزوننس امیجنگ (ایم آر آئی) یا ایجیوگرام شامل ہو سکتے ہیں
’تاکت سوبو کارڈیومایوپیتھی‘ عام طور پر عارضی حالت ہوتی ہے اور چند ہفتوں میں صورت حال معمول پر آ جاتی ہے۔ ڈاکٹر مریضوں کو اس وقت تک ہسپتال میں رکھنے کو ترجیح دے سکتے ہیں جب تک کہ وہ صحتیاب ہونا شروع ہو نہ ہو جائیں
تاہم امریکہ کے مشہور طبی ادارے میو کلینک کا کہنا ہے کہ دل کے ٹوٹنے کا یہ سنڈروم شاذ و نادر کیسز میں موت کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسرے لوگوں نے قیاس کیا ہے کہ کسی عزیز ہستی سے محروم ہو جانے یا بری خبر ملنے کے بعد دل ٹوٹنے سے کسی کی موت واقع ہو سکتی ہے
اس سلسلے میں ایک مشہور مثال ہالی ووڈ کے بڑے نام ڈیبی رینلڈز کی ہے، جو 2016ع میں چوراسی سال کی عمر میں چل بسی تھیں
ڈیبی رینلڈز کی بیٹی کیری فشر کا دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو گئی تھی، جس کے ایک دن بعد رینلڈز کو جان لیوا دورہ پڑا۔ مرنے سے پہلے رینلڈز نے بیٹے ٹوڈفشر کو بتایا تھا ”وہ کیری کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں“
2003ع میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا کہ دل کے ٹوٹ جانے نے دنیائےموسیقی کے لیجنڈ جونی کیش کی موت میں بھی کردار ادا کیا
مئی 2003ع میں دل کے آپریشن کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنی بیوی جون کارٹر کی موت کے چار ماہ بعد کیش چل بسے تھے۔ اگرچہ کیش کی موت شوگر کی بیماری کے سبب پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے ہوئی، اس جوڑے نے شادی شدہ زندگی کے پینتیس سال گزارے تھے
کیش کا کہنا تھا ”بیوی کے موت کے بعد اس کے جانے کا درد اتنا زیادہ ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکتا“