سرکس (امریکی ادب سے منتخب افسانہ)

کیتھرین این پورٹر (مترجم: سیدہ نسیم ہمدانی)

لکڑی کے ستونوں پر رکھے ہوئے لمبے تختے پہاڑ کی طرح اوپر اٹھتے چلے گئے تھے، اور بیضوی شکل میں چاروں طرف اس طرح پھیلے ہوئے تھے کہ دیکھ کر بندہ چکرا جائے۔ لوگ ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے تھے۔ ڈائسی نے کہا ”یوں قریب قریب بیٹھے ہیں، جیسے کتے کے کان پر جوئیں۔“

اس نے مرانڈا کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا اور اپنے اردگرد بڑی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ ایک بہت ہی بڑا ٹاٹ کا شامیانہ سروں پر جھول رہا تھا، جس کے تین کھمبے مرکز سے متوازی فاصلے پر تھے۔ ان کا سارا خاندان بیٹھا تو ایک طرف کا حصہ تقریباً پورا بھر گیا۔
ان کے ایک طرف لمبی سی قطار میں ابا، بہن میرایا، بھائی پال، دادی اماں، دادی کی بہن کیرایا، پھوپھی کیزیا اور ان کی چھوٹی بہن بیٹھی تھیں۔ جو ابھی کپنٹکی سے ملنے آئے تھے، پھر چچا چارلز براؤن کے بیٹے اور چچی، ماری این برو تھیں۔ دوسری طرف چچا زاد بہن لوسی برو، ایک اور چچا کا بڑا لڑکا پال گے، اس کی دادی سیلی گے (جو نسوار لیتی تھیں اور یوں خاندان کا نام ڈبوتی تھیں)، پھر دو اجنبی انتہائی خوبصورت جوان لڑکے تھے، جو شاید رشتے میں بھائی تھے لیکن بہرحال ان دونوں کو مرانڈا سے محبت تھی اور ان کے بعد مرانڈا خود بیٹھی تھی۔

وہ بڑی خوبصورت جوان سی لڑکی تھی اور کلفدار ریشمی گھیر والے کوئی آدھی درجن گھاگرے ایک ساتھ پہن رکھتے تھے۔ عطر بھی بہت اچھا لگایا تھا۔ اس کی بڑی بڑی حسین بھوری آنکھوں پر سیاہ گھنگریالے بال پھیلے ہوئے تھے۔ ابا کہتے تھے ”اس کی آنکھیں بجھیرے جیسی ہیں۔“ ننھی مرانڈا سوچتی تھی کہ میں بھی بڑی ہو کے اس جیسی بنوں گی۔ ڈائسی کا ہاتھ پکڑے پکڑے اس نے آگے کو جھک کے بہن مرانڈا کی طرف ہاتھ ہلایا، جس نے مسکراتے ہوئے اس کا جواب دیا۔ ان دونوں نے بھی اپنے ہاتھ ہلائے۔ مرانڈا سرکس دیکھنے کے شوق میں مری جا رہی تھی، کیونکہ وہ پہلی بار سرکس دیکھنے آئی تھی اور ممکن ہے کہ آخری دفعہ آئی ہو، کیونکہ گھر بھر کے سب لوگوں نے مل کر دادی اماں سے اسے ساتھ لانے کی بڑی مشکل سے اجازت حاصل کی تھی اور دادی اماں نے کہا تھا، ”بہت اچھا، اس بار لے جاؤ کیونکہ خاندان کے سب لوگ اکٹھے ہیں۔“

اس بار! اس بار! وہ ہر چیز کو جی بھر کے دیکھ بھی تو نہ سکتی تھی۔ اس نے تو اوپر نیچے جمائے ہوئے تختوں سے بنی ہوئی نشستوں کے بیچ میں چھٹے ہوئے چوڑے جھروکوں میں سے بھی جھک کے نیچے دیکھا، جہاں سے عجیب و غریب صورت کے بچے پھٹے پرانے کپڑے پہنے نیچے مٹی میں سے اوپر کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس نے ایک بچے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تو اس نے جواب میں ایسی عجیب نظروں سے اس کی طرف گھورا کہ وہ کوشش کے باوجود اس کا مطلب نہ سمجھ سکی۔ یہ ایک بڑی نڈر اور بے باک نظر تھی، جس میں دوستی کا شائبہ تک نہ تھا۔ وہ ایک ننھا منا سا گندا لڑکا تھا، جس نے اپنے گرد سے اٹے ہوئے بالوں اور مڑے تڑے لال کانوں پر پرانی چار خانے دار ٹوپی پہن رکھی تھی۔ وہ دیکھ ہی رہی تھی کہ اس لڑکے نے اپنے برابر والے لڑکے کو کہنی ماری اور آہستہ سے کچھ کہا، جسے سن کر وہ دوسرا لڑکا بھی اس کی طرف دیکھنے لگا۔ یہ بڑی زیادتی تھی۔ مرانڈا نے ڈائسی کی آستین کھینچتے ہوئے پوچھا، ”ڈائسی، نیچے وہ چھوٹے چھوٹے لڑکے کیا کر رہے ہیں؟“

ڈائسی نے کہا، ”نیچے کہاں؟“ لیکن معلوم ہوتا تھا وہ خود ہی سمجھ گئی۔ کیونکہ اس نے جھک کے جھروکے میں سے دیکھ لیا۔ اپنے گھٹنے چھوڑ کے فراک کا گھیرا اپنے گرد لپیٹ کر وہ سخت لہجے میں کہنے لگی، ”تم سیدھی ہو کے بیٹھو اور اپنی ٹانگیں نہ ہلاؤ۔ تم ادھر کی پروا نہ کرو۔ یہاں سامنے بہت سے بندر موجود ہیں، پھر تم ان چھوکروں کو کیوں دیکھ رہی ہو۔“

مرانڈا کو اچانک ایسا لگا، جیسے پیتل کا بڑا بینڈ عین اس کے کانوں میں بج اٹھا ہو۔ وہ اچھل پڑی، کانپ اٹھی، اس کے بدن میں سنسناہٹ پھیل گئی اور جب آوازیں، رنگ اور خوشبوئیں اس کی طرف لپکیں، اس کی کھال اور بالوں میں اتر گئیں، اس کے سر میں ہاتھ پیروں میں اور پیٹ میں تڑپنے لگیں تو وہ سانس لینا تک بھول گئی۔

”اوہ!“ وہ گھبرا کے چیخ پڑی، اس نے اپنی آنکھیں بند کر کے ڈائسی کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا۔ تیز روشنیاں اس کے پپوٹوں کو جلاتی معلوم ہونے لگیں، شہنائیوں اور نقاروں کی مستقل گونج قہقہوں کے طوفان میں ڈوب کر رہ گئی۔ اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔۔۔۔

اتنے میں ایک آدمی ڈھیلا ڈھالا سفید چغہ پہنے آیا، جس کی گردن اور ٹخنوں پر جھالریں لگی تھیں، سفید ہڈی کی سی کھوپڑی، کھرپا کا سا چہرہ، پیشانی کے بیچوں بیچ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر جھاڑ کی سی بھویں، نُکیلے زاویوں کے سیاہ پپوٹے، پچکے ہوئے گالوں تک پھیلا ہوا چوڑا سرخ دہانہ، کنارے اوپر کو مڑے ہوئے، جس سے مسکراہٹ نہیں بلکہ شدید اذیت اور حیرانی کا احساس ہوتا تھا۔ وہ بیچ میں تنے ہوئے ایک تار پر ایک پتلے سے لمبے بانس کو ٹیک ٹیک کے اکڑتا ہوا چل رہا تھا۔ اس ڈنڈے کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے پہیے لگے ہوئے تھے۔ پہلے تو مرانڈا نے سوچا کہ وہ ہوا میں چل یا اڑ رہا ہے اور اس بات پر اسے کوئی تعجب نہ ہوا لیکن جب اس کی نظر تار پر پڑی تو وہ ڈر گئی۔ یہ عجیب و غریب آدمی ان کے سروں سے بہت اوپر ناچ رہا تھا اور ساتھ ساتھ وہ چھوٹے چھوٹے پہیے گھما رہا تھا۔ وہ رک جاتا، پھر پھیلنے لگتا، سفید ٹانگ کو ادھر ادھر ہلاتا، لڑکھڑاتا، جھومتا جھومتا، پھر ایک طرف کو پھسلتا، اچھلتا اور اپنے تڑپتے ہوئے گھٹنے سے تار کو چھولیتا، کبھی تار پر الٹا لٹک جاتا اور دوسری ٹانگ سر سے اوپر کر کے ہلانے لگتا، پھر پھسلتا اور ایڑی اٹکا کر یوں اِدھر اُدھر جھولنے لگتا، جیسے چادر ہو۔۔۔

سارے تماشائی خوشی سے چیخنے چلانے اور قہقہے لگانے لگے، جیسے شیطانوں کو عذاب میں بھی لطف آرہا ہو۔۔۔ مرانڈا سچ مچ کی تکلیف سے چیخ اٹھی اور اپنے گھٹنے سکیڑ کے پیٹ کو بھیجچ لیا۔ تار پہ چپکا ہوا آدمی پیر کے بل لٹکا اپنا سر مچھلی کی طرح ادھر ادھر گھما کے اپنے بے رحم منہ سے بڑے استہزائیہ انداز میں بوسے اڑا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مرانڈا نے اپنا منہ ڈھانپ لیا اور چیخنے لگی۔ آنسو اس کی ٹھوڑی اور رخساروں پر بہنے لگے۔

”اسے گھر لے جاؤ۔“ اس کے باپ نے کہا، ”اسے یہاں سے فوراً نکالو۔“ لیکن ابا کے چہرے پر ہنسی کی علامتیں اب تک باقی تھیں۔ انہوں نے بس مرانڈا کی طرف ایک نگاہ ڈالی اور پھر کھیل کی طرف متوجہ ہوگئے۔

”ڈائسی، اسے یہاں سے لے جاؤ۔“ دادی اماں نے اپنے آدھے اوپر اٹھے ہوئے ریشمی نقاب میں سے کہا۔

ڈائسی چارونا چار چڑ چڑے پن سے آہستہ آہستہ اٹھی۔ اس کی نظریں اب تک تار پہ جھولتے ہوئے سفید سائے پر گڑی ہوئی تھیں۔ اس نے لنگڑاتی ہوئی ڈری سی گھٹڑی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑا اور بڑی مشکل سے بھیڑ میں سے ہوتی ہوئی تختے کی سیڑھیوں سے نیچے اتری اور ریتیلے میدان میں سے ہوتی ہوئی خیمے کا ایک پردہ اٹھا کے باہر نکل آئی۔ مرانڈا برابر روئے جا رہی تھی۔ اسے کسی کسی وقت ایک آدھ ہچکی بھی آجاتی تھی۔ دروازے پر ایک بونا کھڑا تھا۔ اس نے چھوٹی اون کیس سی ڈاڑھی لگا رکھی تھی، وہ نکیلی سی ٹوپی، بڑی چست برجس اور لمبے لمبے بوٹ پہنے تھا، جن کا سامنے کا حصہ اوپر کو مڑا ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ میں پتلا سا سفید ڈنڈا پکڑ رکھا تھا۔ اس سے پیشتر کہ مرانڈا کی اس پر نظر پڑتی وہ قریب قریب اس کے چھو گئی۔ اس وقت مرانڈا کا چہرہ عجیب سا ہو رہا تھا، یعنی اس کا منہ کھلا تھا اور رخساروں پر آنسو چمک رہے تھے۔ اس کا چہرہ بالکل بونے کے مقابل آ گیا تھا۔ بونے نے آگے جھک کے بڑی شفقت کے ساتھ لیکن غیر انسانی قسم کی سنہری آنکھوں سے مرانڈا کو دیکھا جیسے کوئی کمزور آنکھوں والا کتا دیکھتا ہے اور پھر عجیب ڈراؤنی صورت بنائی، جیسی اس وقت بچی کی ہو رہی تھی۔ مرانڈا نے جل کے چیخ ماری اور بونے کے ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ ڈائسی نے جلدی سے اسے پرے گھسیٹ لیا لیکن اس وقت اچانک مرانڈا کی نظر بونے کے چہرے پر پڑ گئی، جہاں ایک بزرگانہ قسم کی اکڑ اور ہلکی خفگی جھلک رہی تھی۔ مرانڈا اس انداز سے اچھی طرح واقف تھی۔ اب اس کا دل ایک نئے خوف سے کانپ اٹھا۔ اس وقت تک اسے یقین نہ آیا تھا کہ وہ جیتا جاگتا انسان ہے۔

جیسے ہی وہ دونوں گزریں، ایک نہایت ہی بدصورت آدمی نے ان سے کہا، ”واپسی کا ٹکٹ تو لے لو!“

ڈائسی اس وقت خود روہانسی ہو رہی تھی، وہ پلٹ کے بولی، ”مسٹر، دیکھئے نا، بھلا میں واپس کیسے آ سکتی ہوں۔۔ مجھے اس بچی کا خیال ہے۔۔۔ مجھے اس چھوٹے سے کاغذ کے پرزے سے کیا فائدہ؟”

راستہ بھر وہ بہت غصے میں رہی اور ہولے ہولے بڑبڑاتی گئی، ’ڈرپوک۔۔۔ رونی۔۔۔۔ اتنی بڑی ہوگئی ہو۔۔۔۔۔ اب کبھی کہیں لے کر نہ جائیں گے۔۔۔ کوئی تماشا نہ دکھایا کریں گے۔۔۔ چلو آؤ اب، جلدی کرو۔۔۔ ہمیشہ رنگ میں بھنگ ڈالتی ہو۔۔۔ دوسروں کو ایک منٹ بھی چین نہیں لینے دیتیں۔ کسی کو بھی تو لطف نہیں اٹھانے دیتیں۔۔۔ اب چلو بھی، تم گھر ہی تو جانا چاہتی تھیں اور وہیں تو چل رہے ہیں۔۔۔‘

وہ مرانڈا کو گھسیٹے لیے جا رہی تھی، لیکن چڑچڑے پن کے باوجود بڑی احتیاط برت رہی تھی کہ کہیں مرانڈا اس کی شکایت نہ کرے کہ ڈائسی نے مجھے یہ کہا اور وہ کہا۔۔۔ ڈائسی کے برا بھلا کہہ لینے کی بھی ایک حد مقرر تھی۔

خاندان کے دوسرے افراد اندھیرا ہونے سے ذرا ہی پہلے گھر لوٹے اور ادھر ادھر پھیل گئے۔ ہر کمرے سے باتیں کرنے اور ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ دوسرے بچوں نے مرانڈا کو بتایا کہ اس نے اٹھ کر آنے میں بڑی غلطی کی۔ وہاں بڑے عجیب چھوٹے چھوٹے خچر تھے، جن کی زینوں پر رنگ برنگے پر اور گھنٹیاں لگی تھیں اور ان پر چھوٹے چھوٹے اور پیارے پیارے بند مخمل کی واسکٹیں پہنے اور نوکدار ٹوپیاں اوڑھے بیٹھے تھے۔۔۔ پھر سدھی ہوئی سفید بکریاں تھیں، جو ناچ سکتی تھیں۔۔۔ ایک ہاتھ کا منا سا بچہ تھا، جو اپنے اگلے پیروں کو ایک دوسرے پر رکھے اپنے پنجرے سے لگا منہ کھول دیتا تھا کہ اسے کچھ کھلایا جائے۔ اتنا پیارا بچہ تھا وہ۔۔۔! بہت سے مسخرے بھی تھے۔ انہوں نے چست چست سفید ریشمی کپڑے پہن رکھے تھے اور لال ساٹن کی پیٹیاں کسے ہوئے تھیں۔ انہوں نے سفید چھت سے لٹکتی ڈوریوں پر بڑے بڑے کرتب دکھائے، وہ بھی ان پر پیر کی انگلیوں کے سہارے لٹک جاتی تھیں لیکن اتنی ہلکی پھلکی اور نازک معلوم ہوتی تھیں، جیسے چڑیاں اڑ رہی ہوں! بہت بڑے بڑے سفید گھوڑے دائرے میں ادھر ادھر اچھلتے کودتے پھر رہے تھے اور ان پر عورتیں اور مرد ناچ رہے تھے۔۔ ایک آدمی تو خیمے کی چھت کو دانتوں سے پکڑے جھولنے لگا تھا۔۔۔ اور وہاں ایک دوسرا آدمی تھا، وہ تو اپنا سر شیر کے منہ میں ڈال دیتا تھا۔۔ افوہ! تم تو اتنی بہت سی باتیں دیکھے بغیر ہی چلی آئیں۔ ہم سب نے خوب لطف اٹھایا اور تم اپنا پہلا ہی سرکس چھوڑ کے اٹھ آئیں اور ڈائسی کا دن بھی خراب کیا۔ بیچاری ڈائسی؟ کتنی اچھی ہے ڈائسی!

دوسرے بچوں کو اب تک ڈائسی کا خیال ہی نہ آیا تھا، اس لیے اب ڈائسی کے لیے بھی ان کا دل بہت برا ہو رہا تھا اور وہ قدرے غصے سے مرانڈا کو گھور رہے تھے، جو اس وقت بے چین ہوئی جا رہی تھی۔ ڈائسی غریب تو کئی ہفتوں سے اس دن کا انتظار کر رہی تھی اور پھر ایسے وقت میں مرانڈا کا ڈر جانا۔۔۔۔ ’کیسی عجیب بات ہے کہ یہ اس بڈھے مسخرے سے ڈر گئی؟‘ بچے یہ باتیں کر رہے تھے اور سب کے سب مرانڈا کو بڑی ہمدردی سے دیکھ کر مسکرارہے تھے۔

پھر یہ موقع ایک اور لحاظ سے بھی بڑا اہم تھا، وہ اس لیے کہ دادی اماں پہلی بار اس بات پر راضی ہو گئی تھیں کہ مرانڈا کو سرکس لے جایا جائے، ان کی باتوں سے یہ پتا نہ چل سکا تھا کہ جب وہ چھوٹی تھی تو ان کے زمانے میں سرکس ہوا کرتے تھے یا نہیں، یا اگر ہوتے بھی تو ان کا دیکھنا اچھا سمجھا جاتا تھا یا برا۔ بہر حال دادی اماں کو کبھی سرکس پسند نہ آتے تھے، گو انہیں اس سے انکار نہ تھا کہ وہ یہ سرکس دیکھ کر کافی خوش ہوئی ہیں لیکن بعض باتیں اس میں ایسی تھیں، جن سے چھوٹے بچوں کو کچھ اچھا سبق نہ ملتا تھا۔

ان کے بیٹے ہیری اس وقت اندر آئے، جب بچے معمول سے کچھ پہلے ہی کھانا کھانے بیٹھ چکے تھے۔ انہوں نے سب کے کھلے ہوئے چہروں کو دیکھا، سب بہن بھائیوں اور باہر سے ملنے کے لیے آنے والے عزیزوں کی طرف نظر کی اور بولے، ”اس ننھی ٹولی کو تو غالباً اس سرکس سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔“

اور ان کی اماں بولیں، ”حال کی باتوں کا اثر تو کئی سال بعد ان کے مستقبل پر پڑے گا اور ہم میں سے تو شاید اس وقت کوئی یہ دیکھنے کے لیے بھی زندہ نہ ہوگا کہ انہیں کوئی نقصان پہنچا ہے یا نہیں۔ یہی تو ان باتوں میں خرابی ہے۔“ اور پھر وہ بچوں کے مکھن لگے توسوں پر گرم گرم دودھ انڈیلنے لگیں۔

مرانڈا بالکل خاموش نچلا ہونٹ لٹکائے بیٹھی تھی۔ ابا اسے دیکھ کر مسکرانے لگے اور آہستہ سے بولے، ”بےبی، تم اتنے اچھے اچھے کرتب چھوڑ کے چلی آئیں، بھلا تمہیں اس سے کیا فائدہ ہوا؟“

مرانڈا بھی آنسو بہانے لگی اور آخر اسے میز سے اٹھا کے کمرے میں لے جانا پڑا اور وہیں اس کا کھانا پہنچا دیا گیا۔ ڈائسی بڑی خاموش منہ بسورے بیٹھی تھی۔ مرانڈا کچھ نہ کھا سکی۔ اس نے کچھ اس طرح سوچنے کی کوشش کی، جیسے واقعی اس نے ان سفید ساٹن کے اور لال پٹیاں باندھنے والیوں کو لٹکتے اور جھولوں پر ناچتے اور اچھلتے کودتے دیکھا ہو۔ اسے ان چھوٹے خوبصورت نرم نرم خچروں کا خیال آیا، جن پر عجیب عجیب کپڑے پہننے والے پالتو اور پیارے پیارے بندر سوار تھے۔ یونہی سوچتے سوچتے اسے نیند آ گئی اور اب ان خیالی یادوں کے بجائے حقیقت میں اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے چہرے اسے نظر آنے لگے۔ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننے والے آدمی کا وہ تلخ اور ڈرا ہوا سا چہرہ، جو گر کے مر جانے والا تھا۔۔۔۔ اوہ، کیسا بے رحم سا کھیل تھا۔۔۔! اور اس نہ مسکرانے والے بونے کی وہ خوفناک صورت! وہ چیخ مار کے نیند سے اٹھ بیٹھی اور اس ڈر سے نجات دلائے جانے کے لیے زور زور سے رونے لگی۔

ڈائسی اپنی غصے اور نیند سے بھری ہوئی آنکھوں کو مشکل سے کھولے بڑے بڑے ہونٹ لٹکائے، موٹے موٹے ننگے پیر فرش پر دھپ دھپاتی اس کے پاس آئی اور غصے سے بھراائی ہوئی آواز میں آہستہ سے بولی ”خدا کی مار! کیا ہوگیا ہے تجھے؟ خدا کی قسم، تجھے تو خوب ٹھونکنا چاہیے! سب کی نیند یوں خراب کر دیتی ہے۔۔۔۔“

مرانڈا پر خوف نے بری طرح غلبہ پا لیا تھا، وہ ڈائسی کو ہمیشہ پلٹ کر جواب دینے کی عادی تھی۔ وہ کہتی ’ارے ڈائسی، چپ بھی رہو۔‘ یا وہ کہتی ’مجھے تمہاری کوئی پروا نہیں، مجھے سوائے دادی اماں کے اور کسی کی پروا نہیں۔‘ اور یہ بات واقعی بالکل صحیح تھی اور کبھی کبھی وہ کہنے لگتی، ’تمہیں معلوم بھی ہے، تم کیا کہہ رہی ہو۔‘ لیکن یہ دن گزرنے کے بعد تو اس کی عادت ہی بدل گئی تھی۔ اس وقت تو مرانڈا کسی کو، یہاں تک کہ ڈائسی کو بھی اپنے سے ناراض نہ ہونے دینا چاہتی تھی۔ عام طور پر اسے کبھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ میں اپنے سے بڑے لوگوں کو کتنا ستاتی ہوں اور اب اگر ڈائسی ناراض ہو جاتی، تو اسے کوئی خاص پریشانی تو اب بھی نہ ہوتی لیکن ڈر کی بات اتنی تھی کہ کہیں ڈائسی بتیاں بجھا کے پھر اکیلے اسے اتھاہ اندھیرے کے ان بھتنوں کے حوالے نہ کر جائے، جو آنکھ لگتے ہی پھر اسے آ دبوچیں گے۔

وہ اپنی دونوں باہیں ڈائسی کے گلے میں ڈال کے روتی ہوئی بولی، ”مجھے چھوڑ کے نہ جانا۔ مجھ سے خفا نہ ہونا! میں اکیلی نہیں رہ سکتی!“

ڈائسی ایک لمبی سی آہ کھینچ کر اس کے ساتھ لیٹ گئی۔ اس آہ کا یہ مطلب تھا کہ وہ اپنے غصے کو صبر سے برداشت کرنا چاہتی ہے اور اپنے ذہن میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ میں عیسائی ہوں اور حضرت عیسیٰ کی طرح ہر دکھ تکلیف صبر شکر کے ساتھ برداشت کرنا میرا فرض ہے۔ چنانچہ وہ حسب عادت بڑی گرمجوشی اور نرمی کے ساتھ کہنے لگی۔ ”اچھا۔ اب تم سو جاؤ، بس اپنی آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرو، میں تمہیں اکیلی چھوڑ کے کہیں نہ جاؤں گی۔ ڈائسی کسی سے خفا نہیں ہے۔۔۔۔۔ دنیا بھر میں کسی سے بھی خفا نہیں۔۔۔۔۔“

Original Title: “The Circus” (1935)
Written by:
Katherine Anne Porter

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close