پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مائنس، اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے؟

ویب ڈیسک

پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے بعد پاکستان کی معاشی تنزلی کا سفر اب مزید تیز ہو گیا ہے۔ ایک طرف موڈیز کی ماہر اقتصایات نے کہا ہے کہ سال 2023ع کے ابتدائی چھ ماہ میں پاکستان کی افراطِ زر 33 فیصد کی بلند ترین سطح تک جانے کا امکان ہے، تو دوسری جانب بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ‘فچ’ نے پاکستان کی طویل المیعاد فارن کرنسی ایشیور ڈیفالٹ ریٹنگ (آئی ڈی آر) ٹرپل سی پلس سے کم کرکے ٹرپل سی مائنس کر دی ہے

فچ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی غیرملکی کرنسی میں طویل عرصے کا قرض لینے کی ریٹنگ گرا دی گئی ہے۔ فچ کے مطابق ریٹنگ میں تنزلی زرِمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی کے سبب کی گئی ہے

ایک ایسے وقت میں جب عالمی ادارے نے پاکستان کی ریٹنگ کم کی ہے وہیں پاکستان میں جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں ایک فی صد اضافہ کردیا گیا ہے، جس کے بعد عام استعمال کی تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے

مالیاتی اداروں کی ریٹنگز کیا ہیں؟

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے ڈاکٹر جلیل احمد اس حوالے سے ایک مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں ”اگر کسی شخص کی جیب میں کچھ پیسے موجود ہوں اور وہ کسی سے قرض کی درخواست کرے تو اس کے پاس موجود پیسوں کی وجہ سے اسے قرض دینے والا مطمئن ہوگا کہ وہ قرض واپس کر سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص مفلوک الحال ہو اور اس کے پاس کوئی پیسہ موجود نہ ہو تو قرض دینے والا بھی مطمئن نہیں ہوگا۔ بالکل ایسا ہی عالمی معیشت میں ہوتا ہے کہ کسی ملک کے پاس موجود ذخائر کا اندازہ لگانے کے بعد عالمی مالیاتی ایجنسیاں اس ملک کی ریٹنگ جاری کرتی ہیں“

پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر اس وقت کم سطح پر ہیں اور ایسے میں ملک کی ریٹنگ ٹرپل سی منفی ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے

ڈاکٹر جلیل کے مطابق اس ریٹنگ پر کسی ملک کے سیاسی حالات یا کسی اور بات کا اثر نہیں ہوتا بلکہ یہ فیصلہ صرف ملک کے موجود ذخائر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ ہماری معیشت دو چار ارب ڈالر میں چل جاتی ہے۔ اس کا معیار یہ ہے ہمارے کمرشل بینکس کے پاس پانچ سے چھ ارب ڈالر ہیں جبکہ اسٹیٹ بینک کے پاس تین ارب ڈالر ہیں۔ اسی طرح ہمیں آئندہ کچھ عرصے میں سات ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔ ایسے میں ریٹنگ کرنے والے ادارے پاکستان کی صلاحیت کے مطابق ریٹنگ دیتے ہیں کہ آیا ملک قرض واپس کر سکتا ہے یا نہیں؟

ان کے بقول موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کے لیے یہ برے حالات ہیں۔ اگر پاکستان کے پاس دس ارب ڈالر کے ذخائر ہوتے تو پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہوتی۔ لیکن جب آپ کے پاس موجود ہی صرف دو تین ارب ڈالر ہوں تو ریٹنگ گر جانا یقینی بات ہے

تجزیہ کار اور شرمین سیکیورٹی سے منسلک فرحان محمود کا کہنا ہے کہ یہ ریٹنگ ظاہر کرتی ہے کہ ہماری قرض واپس کرنے کی صلاحیت کیسی ہے۔ فچ سے پہلے موڈیز اور دیگر ادارے بھی پاکستان کی ریٹنگ کم کرچکے ہیں۔ اس ریٹنگ کے کم ہونے سے قرض لینے کی کاسٹ بھی بڑھ جاتی ہے

ریٹنگ کم ہونے سے کیا فرق پڑے گا؟

اس بارے میں ڈاکٹر جلیل کہتے ہیں کہ اس پر قرض دینے والے اداروں کو عام طور پر فرق نہیں پڑتا کیوں کہ یہ حکومتوں کے درمیان عام طور پر طے ہوتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ اس سے سب سے زیادہ فرق پاکستان کے سکوک بانڈ خریدنے والوں، پاکستان سرمایہ کاری بانڈ اور فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کرنے والوں کو پڑتا ہے۔ وہ ان ریٹنگز کی بنیاد پر ملک میں سرمایہ کاری سے انکار کر دیتے ہیں

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے برابر ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی ریٹنگز ہیں

دوسری جانب پاکستان میں جی ایس ٹی میں ایک فی صد اضافے کے بعد عام استعمال کی اشیا کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں

فرحان محمود کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت مہنگائی پہلے ہی 27 سے 28 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ ایسے میں جی ایس ٹی میں ایک فی صد اضافے سے مہنگائی ضرور ہوگی

 پاکستان میں افراط زر 33 فیصد تک جاسکتی ہے، ماہر اقتصادیات موڈیز

موڈیز کی ماہرِ اقتصایات نے کہا ہے کہ سال 2023ع کے ابتدائی چھ ماہ میں پاکستان کی افراط زر 33 فیصد کی بلند ترین سطح تک جانے کا امکان ہے

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق موڈیز سے تعلق رکھنے والی ماہر اقتصادیات کترینا ایل نے کہا کہ پاکستان میں سال 2023 کے ابتدائی 6 ماہ میں مہنگائی اوسط 33 فیصد تک جاسکتی ہے اور صرف عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرض سے ملکی معیشت بحال نہیں ہو سکتی

کترینا ایل نے ایک انٹرویو میں کہا ’ہمارا خیال ہے کہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لیے کافی نہیں ہے اور معیشت کو واپس ٹریک پر لانے کے لیے مسلسل اور مضبوط معاشی طریقہ کار کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ آگے بھی ناگزیر سخت حالات کا سامنا ہے اور مالی سال 2024 میں بھی مالیاتی اور معاشی بحران اسی طرح جاری رہنے کا امکان ہے

ماہر اقتصادیات نے کہا کہ اگرچہ معیشت گہری کساد بازاری میں ہے جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے سخت شرائط کے باعث افراط زر ناقابل یقین حد تک زیادہ ہے

انہوں نے کہا کہ ہمیں جو توقع ہے وہ یہ ہے کہ رواں سال کے ابتدائی 6 ماہ میں افراط زر اوسط 33 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے پھر اس کے بعد تھوڑی کمی کا رجحان ہو سکتا ہے

جنوری میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں سالانہ 27.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو کہ اس نصف صدی میں اپنی بلند ترین سطح پر ہے

بلند افراط زر کے نتیجے میں کم آمدنی والے گھرانے شدید دباؤ کا شکار رہیں گے

کترینا ایل کا کہنا تھا کہ اشیا کی قیمتیں اپنی بلند ترین سطح پر ہیں اور کم آمدنی والے گھرانے یہ قیمت ادا کرنے سے گریز نہیں کر سکتے، لہٰذا ہم غربت کی بلند ترین شرح کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ مہنگی خوراک لینے پر بھی مجبور ہوں گے

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے قبل بھی پاکستان کا کوئی اچھا ٹریک ریکارڈ نہیں تھا، لہٰذا اس لیے صرف اضافی فنڈز جمع کرنا بہت کم فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی بہتری کا انتظار ہے تو یہ بہت بتدریج ہوگی کیونکہ راتوں رات کچھ ٹھیک نہیں ہوگا

ماہر اقتصادیات نے کہا کہ مقامی کرنسی کمزور ہونے سے درآمد شدہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ٹیرف میں اضافے کی پشت پر مقامی سطح پر توانائی کی لاگت میں اضافہ اور ابھی تک خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے مہنگائی کی سطح بلند رہنے کا امکان ہے

موڈیز نے 2023 میں معاشی ترقی کی شرح 2.1 فیصد کے گرد ہونے کی توقع ظاہر کی ہے

کترینا ایل نے امکان ظاہر کیا کہ ممکن ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کو مستحکم کرنے کی کوشش میں مزید مالیاتی سختی کا سامنا ہو اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے ساتھ کسی قسم کی مداخلت کر کے استحکام کی کوشش کی جاسکتی ہے، لیکن اس سے بھی کوئی مثبت نتائج نہیں نکلیں گے

گزشتہ ماہ اسٹیٹ بینک پاکستان نے شرح سود میں اضافہ کرکے 16 سے 17 فیصد کردیا تھا، جبکہ بینک نے جنوری 2022 سے شرح سود میں 725 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے

کترینا ایل نے کہا کہ اہم کساد بازاری کے شرائط کے ساتھ آسمان کو چھونی والی بڑھتی ہوئی قیمتیں مقامی سطح پر طلب میں اضافہ کر سکتی ہیں

انہوں نے کہا ’آپ (پاکستان) کو حقیقت میں مستحکم میکرو اکنامک مینجمنٹ پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اور صرف معقول معاونت کے بغیر مزید فنڈز لانے سے وہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے، جن کی آپ تلاش میں ہیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close