طالبان کے اقتدار سنبھالنے پر کسی کو بتائے بغیر ملک سے فرار ہونے والے سابق صدر اشرف غنی پر 16 کروڑ اور 80 لاکھ ڈالر بریف کیس میں بھر کر لے جانے کا الزام تھا تاہم اب ایک امریکی رپورٹ میں اس کے برعکس ”تحقیق پر مبنی گواہی“ پیش کی گئی ہے
افغان حکومت اور اس کی فوج کے خاتمے کی تفصیلات پر مبنی امریکی حکومت کے نگران ادارے کی پیر کو جاری ہونے والی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں گذشتہ برس اگست میں طالبان کے قبضے کے دوران افغان حکومت کے بینک اکاؤنٹس سے دسیوں لاکھ ڈالرز غائب ہوئے تھے
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق جہاں افغان صدر پر 16 کروڑ 80 لاکھ ڈالر بریف کیس میں بھر کر ہیلی کاپٹر میں اپنے ہمراہ لے جانے کے الزامات ہیں وہیں صدارتی محل سے 50 لاکھ ڈالر غائب تھے گئے
اسی طرح نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کی والٹ سے دسیوں ملین ڈالر لے لیے گئے تھے اور افغان حکومت کے بینک اکاؤنٹس سے بھی لاکھوں ڈالر غائب تھے
افغان حکومت اور اس کی فوج کے خاتمے کی تفصیلات پر مبنی امریکی حکومت کے نگران ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن یعنی سیگر نے بھی اپنی عبوری رپورٹ میں ان گمشدہ رقموں کی تصدیق کی ہے
جس سے لگتا ہے کہ یہ رقم سابق افغان صدر اشرف غنی اپنے ہمراہ لے گئے ہو۔ جس کی تحقیقات اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن نے کرلی ہے
سیگر نے اشرف غنی پر لاکھوں ڈالرز چوری کرکے لے جانے کے الزام کی جانچ کی۔ سیگر کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے سینیئر اہلکار نے انکشاف کیا ہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہوتے ہوئے ہیلی کاپٹرز میں کروڑوں ڈالرز نہیں بلکہ 10 لاکھ ڈالرز سے کم رقم لے کر گئے تھے
افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی پر خاص طور پر ان ہیلی کاپٹروں پر لاکھوں ڈالرز لوڈ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا ، جو طالبان جنگجوؤں کے شہر میں داخل ہوتے ہی کابل سے فرار ہو گئے تھے
افغانستان پر طالبان کے اچانک فوجی قبضے کے بعد میڈیا رپورٹس میں یہ الزام لگایا گیا کہ غنی نے 150 ملین ڈالرز سے زیادہ کے سرکاری فنڈز چوری کیے جس نے سابق رہنما کے افغانستان چھوڑنے پر عوامی غصے کو ہوا دی تھی
اشرف غنی کے فرار کو بہت سے لوگ فیصلہ کن واقعے کے طور پر دیکھتے ہیں، جس نے طالبان کی افواج کو کابل میں داخل ہونے اور ملک کا مکمل کنٹرول سنبھالنے کا موقع دیا
سیگر کے مطابق اشرف غنی کی طرف سے لاکھوں کی چوری کا ’امکان کم پایا
بقول سیگر: ”سابق صدر کچھ نقد رقم ضرور لے کر چلے گئے تھے لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ یہ تعداد 10 لاکھ ڈالرز سے زیادہ نہیں تھی اور ہو سکتا ہے کہ یہ پانچ لاکھ ڈالرز کے قریب ہو“
دلچسپ بات یہ ہے کہ رپورٹ ایک سابق سینیئر اہلکار کی گواہی پر منحصر ہے، جو خود اشرف غنی کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر بھاگ گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں ”ہر ایک کی جیب میں پانچ سے دس ہزار ڈالرز تھے۔ کسی کے پاس لاکھوں نہیں تھے“
سیگر کی رپورٹ کے عوامی ورژن میں اہلکار کا نام نہیں لیا گیا ہے
اشرف غنی بار بار بھاری رقم ساتھ لے جانے کے الزامات کی تردید کی ہے
سیگر نے اس تحقیق کی بنیاد گواہوں اور عہدیداروں کے انٹرویوز پر رکھی جنہوں نے سب نے کہا کہ انہیں ہیلی کاپٹروں پر اتنی بڑی مقدار میں نقد رقم کے کوئی آثار نظر نہیں آئے جو پہلے ہی اپنی زندگیوں کو بچانے کے لیے بھاگنے والے لوگوں سے بھرے ہوئے تھے
’100 ڈالر کے بلوں میں 169 ملین ڈالر، تمام رقم بنڈل کی شکل میں، ایک بلاک 7.5 فٹ (2.3 میٹر) لمبا، 3 فٹ چوڑا، اور 3 فٹ طویل ہوگا … اس بلاک کا وزن 3 ہزار 722 پاؤنڈ یا تقریباً دو ٹن ہوتا‘
سیگر نے نوٹ کیا کہ گواہوں نے ہیلی کاپٹروں پر ’کم سے کم سامان‘ کی اطلاع دی، جس میں کوئی کارگو ہولڈ نہیں تھا
لیکن دسیوں لاکھوں ڈالرز کا اتا پتہ نہیں ہے۔ سیگر کو ’صدارتی محل سے لیے گئے پانچ ملین اور (سابق افغان حکومت کی اہم انٹیلیجنس ایجنسی) نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے والٹ سے لیے گئے دسیوں ملین‘ کے شواہد ملے ہیں۔ البتہ تحقیقات میں اس بات کا تعین نہیں ہو سکا ہے کہ آیا یہ رقم سرکاری اہلکاروں نے ملک سے نکالی تھی
واضح رہے کہ سابق افغان صدر اور ان کے بہت سے قریبی ساتھی اب متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں جہاں کی حکومت نے ان کا اور ان کے خاندان کو انسانی بنیادوں پر خوش آمدید کہا
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چوری شدہ افغان اثاثوں کی تحقیقات جاری ہیں
اس طرح عینی شاہدین اور عہدیداروں کی گواہی اپنی جگہ لیکن سیگر کو اپنی تحقیق کے دوران صدارتی ہاؤس، نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی اور افغان بینک سے غائب ہونے والے کروڑوں ڈالرز کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔