”معذوری کی وجہ سے ہم بہن بھائیوں نے طعنے اور طنز ہی برداشت نہیں کیے بلکہ بہتر مستقبل کی دوڑ میں رکاوٹیں بھی آتی رہیں اور ابھی تک آ رہی ہیں۔ مجھے کہا گیا کہ میں ڈاکٹر بن ہی نہیں سکتی اور جب ڈاکٹر بن گئی تو کہا گیا کہ پریکٹس نہیں کر سکتی۔ پریکٹس کر رہی ہوں تو اب اسپیشلائزیشن کی راہ میں رکاوٹیں ہیں مگر اس سب کے باوجود اب میں پریکٹس کر کے دکھی انسانیت کی خدمت کر رہی ہوں اور یہ ہی میری زندگی کا مشن اور مقصد ہے“
یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ’فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال‘ میں خدمات سر انجام دینے والی ڈاکٹر مہوش شریف کا، جو 80 فیصد سے زائد بہرے پن کا شکار ہیں اور سننے کے لیے آلہ سماعت کا استعمال کرتی ہیں
بلوچستان کے ضلع کچھی سے تعلق رکھنے والی مہوش شریف چار سال کی عمر میں کان کے پردے خراب ہونے کی وجہ سے سننے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی تھیں
ڈاکٹر مہوش شریف کے تین بھائی ہیں اور وہ تینوں سے چھوٹی ہیں۔ ان کے دو بڑے بھائی بھی بہرے پن کا شکار ہیں۔ قوت سماعت سے محروم ان کے ایک بڑے بھائی یاسر شریف کمپیوٹر آپریٹر جبکہ سب سے بڑے بھائی ناصر شریف اسکول کے بچوں کے لیے وین سروس چلاتے ہیں۔ ان کے ایک بھائی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں
وہ بچپن سے ہی ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں لیکن اپنے اس خواب کو پورا کرنے میں انہیں منفی اور عصبیت پر مبنی رویوں کا سامنا کرنا پڑا
ڈاکٹر مہوش شریف کہتی ہیں ”مجھے اپنے چچا کو دیکھ کر ڈاکٹر بننے کا شوق ہوا۔ مجھے سفید گاؤن اور اسٹتھیا سکوپ اچھے لگتے تھے۔ ان کو دیکھ کر میں نے بھی ڈاکٹر بننے کی ٹھان لی۔ جس کے لیے دن رات محنت کی“
ڈاکٹر مہوش شریف کی ڈاکٹر بننے کی کہانی انتہائی جرأت اور حوصلے کی کہانی ہے، جس میں ان کا اپنا کردار تو شامل ہے ہی مگر ان کے والدین بالخصوص ایک روایتی گھرانے کی بلوچ والدہ اور بھائیوں کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر مجھے میرے بھائی، والدین خاص کر والدہ حوصلہ نہ دیتے تو شاید میں پڑھ بھی نہ سکتی۔ میں اپنی والدہ جیسی بہادر بننا چاہتی ہوں۔‘
مہوش نے تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کو عبور کرکے نہ صرف اپنا خواب پورا کرلیا بلکہ پاکستان کی پہلی سماعت سے محروم لیڈی ڈاکٹر بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا
کوئٹہ کے فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر مہوش تپ دق، سینے اور سانس کی بیماریوں کا علاج کرتی ہیں۔ انہیں سننے کے لیے اپنے دونوں کانوں میں سماعت کے آلات لگانا پڑتے ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ، ساتھی ڈاکٹرز اورنرس ہی نہیں مریض بھی ان کے کام سے مطمئن اور رویے کی تعریف کرتے ہیں
ڈاکٹر مہوش نے بتایا کہ وہ پیدائشی طور پر ٹھیک تھی تاہم چار سال کی عمر میں بیمار ہونے کے بعد ان کی سماعت متاثر ہوئی اور سننے کے لیے ہیئرنگ ایڈ گیئرز (آلہ سماعت) لگانا پڑے
انہوں نے بتایا کہ ’سننے میں مشکل کے باوجود والدہ نے مجھے عام اسکول میں داخل کرایا جہاں ٹیچرز کو اکثر شکایت ہوتی تھی کہ یہ ٹھیک سے سنتی نہیں اور بچے بھی مجھے بار بار تنگ کرتے تھے کہ آپ نے کانوں میں کیا لگا رکھا ہے‘
ان کے بقول ’حتیٰ کہ میں کوئی کھیل بھی نہیں کھیل سکتی تھی کہ میری ہیئرنگ گیئرز نہ گر جائیں۔ اس کے باوجود میں نے 2007 میں میٹرک میں اپنے اسکول میں ٹاپ کیا۔‘
مہوش نے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کا شوق تھا اس لیے کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج میں داخلہ ٹیسٹ دیا جہاں ضلع کے ساتھ ساتھ معذوروں کے لیے مختص کوٹہ پر بھی سیٹ مل گئی لیکن انہوں نے معذوروں کے لیے مخصوص کوٹہ کی سیٹ چھوڑ کر اپنے ضلعے کے اوپن میرٹ پر حاصل ہونے والی سیٹ پر پڑھنے کا فیصلہ کیا
مڈاکٹر مہوش کہتی ہیں ”میرٹ پر داخلہ لے کر اتنی خوش تھی کہ بتا نہیں سکتی۔ مجھے اس وقت لگا کہ اب میں بھی سفید گاؤن پہن کر لوگوں کی خدمت کر سکوں گی مگر جب میڈیکل کالج میں کلاسسز شروع ہوئیں تو میرے خواب ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگے تھے۔ مجھے بار بار یاد دلایا جاتا کہ میں سن نہیں سکتی۔ میں پروفیسروں سے کہتی کہ سر تھوڑا اونچا بولیں یا مجھے آگے بٹھا دیں۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ میں ان کے لیکچر کو اچھے سے سن کر سمجھ سکوں مگر وہ کہتے تھے کہ میں اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر مہوش ڈیس ایبل لگا دوں، جس پر مجھے بہت اذیت ہوتی۔ میرے ساتھ زیادہ لوگوں نے تعاون نہیں کیا لیکن کچھ پروفسرز مجھے بعد میں وقت دے کر لیکچر دیا کرتے تھے۔ جن کی بدولت ہی میں ڈاکٹر بننے میں کامیاب ہوئی۔ مجھے تو اپنے ساتھی طالب علموں کی جانب سے بھی مسائل کا سامنا رہا۔ یہاں تک کہ ساتھی طالب علموں کے ایک گروپ ڈسکشن کے دوران جب میں نے کہا کہ تھوڑا اونچا بولیں تو مجھے کہا گیا کہ میں دوسرے گروپ میں جا سکتی ہوں“
انہوں نے بتایا کہ ’وائیوا (زبانی امتحان) میں جب میں اساتذہ کو کہتی تھی کہ مجھے سوال لکھ کر دے دیں وہ مجھے لکھ کر ہی نہیں دیتے تھے اور پھر وہی ایک بات کہتے تھے کہ آپ کو جب مسئلہ ہے تو آپ اس پیشے میں آئی کیوں ہیں؟‘
ڈاکٹر مہوش شریف کہتی ہیں ”میں نے میڈیکل کالج میں سیٹ میرٹ پر لی تھی اور میں وہ سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں جو نارمل بندہ کر سکتا ہے۔ لیکن مجھے کہا جاتا کہ میڈیکل کا پیشہ میرے لیے نہیں۔ میں کیوں یہاں پڑھ رہی ہوں۔ مجھے کہیں اور جانا چاہیے۔ میں کہتی تھی کہ میں کہیں اور نہیں جاؤں گی بلکہ ڈاکٹر ہی بن کر دکھاؤں گی۔ یہی نہیں بلکہ امتحانات میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا“
ان کا کہنا تھا کہ انہیں انتظامیہ کی طرف سے سماعت کے آلات استعمال کرنے کی اجازت بھی بہت مشکل سے ملتی تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ہیڈ فون ہیں۔ اس کے لیے خصوصی اجازت نامہ لینا پڑتا تھا جب بھائی اجازت نامہ لینے جاتے تو انہیں کافی باتیں سننی پڑتیں کہ آپ کی بہن ڈاکٹر بن کر کون سا کارنامہ سرانجام دیں گی
’آخری امتحان میں بھی ایک پروفیسر نے صرف اس بات پر فیل کردیا کہ میں نے ہیئرنگ گیئرز کیوں استعمال کیے۔ پروفیسر نے مجھ سے نام، والد اور خاندان کے بارے میں پوچھا اور پھر سرجری سے متعلق مشکل سوالات کیے، میں نے سب کے جوابات دیے۔ اس کے باوجود انہوں نے فیل کردیا کہ آپ جھوٹ بولتی ہیں کیونکہ آپ سن سکتی ہیں۔‘
مہوش کے مطابق ان کے ذہن میں تھا کہ جو بندہ سننے سے محروم ہے وہ بول بھی نہیں سکتا۔ ’انہوں نے یہی سوچا کہ یہ ہینڈ فری یوز کر رہی ہیں تو مجھے فیل کر دیا۔ میں کافی دلبرداشتہ ہوگئی کہ سب چھوڑ دیا۔ پھر میرے بھائیوں اور میرے والدین نے ہمت دی اور مجھے دوبارہ امتحان کے لیے راضی کیا میں نے دوبارہ امتحان دیا اور الحمداللہ 2017 میں ایم بی بی ایس پاس کر لیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہاؤس جاب کے دوران بھی کافی مشکلات پیش آئیں۔ ’مریض بات نہیں دہراتے تھے، مجھے ایک سوال دس دس بار پوچھنا پڑتا تھا۔ اس دوران والد کو خون کے کینسر کی تشخیص ہوئی تو پوری فیملی والد کے علاج کے لیے کراچی چلی گئی، میں اکیلی رہ گئی۔‘
ڈاکٹر مہوش کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے ذہن میں ایک بات ڈال لی تھی کہ آپ نے یہ سب جنگیں اکیلے لڑنی ہیں۔ اس لیے میں نے تمام رکاوٹوں کے باوجود نہ صرف میڈیکل کی تعلیم حاصل کی بلکہ کوئٹہ کے ایک اور میڈیکل کالج میں ڈیڑھ سال تک بطور استاد اٹانومی کا مضمون پڑھایا اور 2021 میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے کوئٹہ کے فاطمہ جناح ہسپتال میں لیڈی میڈیکل افسر تعینات ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج یہی ہیئرنگ گیئرز میرا فخر بن گئے ہیں جس کی وجہ سے کبھی مجھے تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ آج میں عام لوگوں سے بڑھ کر ایک بہترین زندگی گزار رہی ہوں اور لوگوں کی خدمت کررہی ہوں۔‘
’میں سب کو بھی یہی کہتی ہوں کہ زندگی میں کسی مقام تک پہنچنے کے لیے پہلے آپ کو خود پر یقین کرنا ہوگا۔‘
ڈاکٹر بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے مہوش کی جدوجہد کے حوالے سے ان کے بھائی شاکر شریف ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ان کی بہن سرجری کے پرچے کا انٹرویو دے کر آئیں تو ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور فوراً ہی اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گئیں تھی لیکن یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا بلکہ میڈیکل کی تعلیم کے دوران بار بار وہ اس صدمے اور غم سے گزریں
شاکر شریف ایڈووکیٹ نے کہا ”ہم سب سمجھ گئے کہ پھر کسی نے جانے انجانے میں مہوش کو کچھ کہہ دیا ہے. جب میری والدہ نے مہوش سے سرجری کے انٹرویو کا پوچھا تو وہ سارا واقعہ بتا کر زاروقطار روتی جا رہی تھی اور کہتی جارہی تھی کہ اب وہ امتحان نہیں دیں گی۔ اس موقع پر امی نے ان کو سنبھالا۔‘
شاکر شریف کہتے ہیں ”والدہ نے مہوش کا حوصلہ بڑھایا اور کہا کہ یہ لڑائی تو ساری زندگی لڑنی ہے. اس کے بعد مہوش نے نہ صرف سرجری میں فیل ہونے کو قبول کر لیا بلکہ دوبارہ تیاری کر کے امتحان دیا اور پاس بھی ہو گئیں“
شاکر شریف ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ صرف مہوش ہی کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے بھائیوں یاسر اور ناصر کے ساتھ بھی اکثر ایسا ہوتا۔ ’ابو تو ملازمت کے سلسلے میں گھر ہوتے نہیں تھے تو امی ہی ہم سب کو سنبھالتی تھیں۔ میری امی گریجویٹ ہیں اور انھوں نے اس وقت تعلیم حاصل کی، جب بلوچ معاشرے میں خواتین کی تعلیم کا تصور بھی موجود نہیں تھا۔‘
شاکر شریف ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ نے اپنے تینوں خصوصی بچوں کے مستقبل کے لیے اپنی معمول کی زندگی، رشتہ داروں سے ملنا اور نانا کے گھر تک جانا سب کچھ ترک کر دیا تھا۔
مہوش شریف کے والد محمد شریف ناز بلوچستان کے محکمہ کمیونیکشن اینڈ ورکس سے سپرینڈنٹ انجینئیر ریٹائرڈ ہیں۔ وہ بلڈ کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں اور اس وقت کراچی میں زیر علاج ہیں۔
شاکر شریف ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ جب پتا چلا کہ ہمارے والد کو بلڈ کینسر ہے تو میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔
’اس موقع پر بھی یہ ہماری امی ہی تھیں، جنھوں نے مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو حوصلہ دیا۔ آج میرے والد پہلے سے بہتر ہیں تو یہ بھی میری والدہ کی ہمت کا نتیجہ ہے۔‘
ڈاکٹر مہوش ریڈیالوجی میں اسپیشلائزیشن کرنا چاہتی ہیں۔ ’میں آگے پڑھنا اور اسپیشلائزیشن کرنا چاہتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ریڈیالوجی کا شعبہ میرے لیے بہت اچھا رہے گا۔ میں نے اسپیشلائزیشن کے لیے دو بار امتحان دیا۔ دونوں مرتبہ امتحانی عملے کو لگا کہ مجھے آلہ سماعت کی ضرورت نہیں۔ میرا آلہ سماعت اتروا دیا گیا اور آلہ سماعت اترنے کے بعد میں پرچہ دینے کے قابل نہیں رہی“
ڈاکٹر مہوش شریف کہتی ہیں کہ آلہ سماعت ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے اور اس کے بغیر وہ اور ان کے بھائی ادھورے ہو جاتے ہیں
محکمہ صحت بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر انور قاضی کہتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کالج آف فزیشن اینڈ سرجن سے بات کریں گے
وہ کہتے ہیں کہ ’آلہ سماعت اور ہینڈ سیٹ فری میں فرق ہوتا ہے۔ امید ہے کہ اس کا بہتر حل تلاش کر لیا جائے گا۔‘
ڈاکٹر انور قاضی کہتے ہیں کہ ’ڈاکٹر مہوش شریف ایک رول ماڈل ہیں۔ ایم بی بی ایس میں داخلہ لینا اور پاس کرنا کوئی آسان نہیں۔ انہوں نے جس ہمت، حوصلے اور جرأت سے یہ منزل طے کی، وہ قابل ستائش ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ ملازمت بھی انھوں نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے حاصل کی۔ اس وقت وہ پریکٹس میں بھی شاندار کارگردی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ دنیا بھر میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں مختلف سپیشل لوگوں نے میڈیکل میں شاندار خدمات انجام دی ہیں اور اب امید ہے کہ پاکستان میں بھی یہ سلسلہ شرو ع ہو گا۔‘
فاطمہ جناح ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر صادق بلوچ نے بتایا کہ ’ڈاکٹر مہوش معاشرے کے لیے ایک رول ماڈل ہیں۔ انہوں نے تمام رکاوٹوں کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کبھی کسی مریض یا ان کے ساتھی ڈاکٹر اور عملے نے ڈاکٹر مہوش کی شکایت نہیں کی، وہ ان کے رویے اور کام سے مطمئن ہیں
عزم و ہمت کی پیکر ڈاکٹر مہوش شریف کہتی ہیں ”ایسے والدین، جن کے بچے کسی جسمانی محرومی کا شکار ہیں، وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دیں۔ اچھا ہنر سکھائیں تاکہ وہ کسی کے محتاج نہ بنیں، ایک آزادانہ اور خود مختار زندگی گزاریں اورمعاشرے میں ایک بہترین مثال بنیں“