پاکستان میں منی بجٹ کی بازگشت، کم ہوتے مالیاتی ذخائر کے باوجود لگژری گاڑیوں کی درآمد جاری!

ویب ڈیسک

مسلم لیگ نون کی زیرِ قیادت پی ڈی ایم حکومت کے قیام کے بعد جہاں ایک جانب بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ابتر معاشی صورتِ حال کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں، اسٹیٹ بینک کے ذخائر محض 4 ارب 34 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔ گزشتہ روز پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے دوران مسلسل دوسرے دن حصص کی قیمتوں میں کمی آئی اور مارکیٹ کریش کر گئی، ان حالات میں اطلاعات ہیں کہ حکومت عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط پوری کرنے کے لیے منی بجٹ لا رہی ہے

دریں اثنا اسٹیٹ بینک کے ذخائر 4 ارب 34 کروڑ ڈالر تک گرنے کے بعد ملک کی غیر ملکی زرمبادلہ کی صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے جو کہ فروری 2014 کے بعد کم ترین ہے

ملک کو ڈالر کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کے سبب خوراک اور صنعتی خام مال کی درآمدات بھی محدود ہو رہی ہیں

زرمبادلہ کے ذخائر کی تازہ ترین صورتحال اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ پاکستان کے پاس موجود ڈالرز ایک ماہ کی اوسط درآمدات کے لیے بھی ناکافی ہیں

لیکن بدترین بات یہ ہے کہ اس اقتصادی ہلچل کے درمیان حکومت لگژری گاڑیوں کی درآمد جاری رکھے ہوئے ہے

جب ملک معاشی بدحالیوں کی کھائی میں گر رہا ہے، ایک بڑی تباہی نے صنعتی شعبے کی برآمدات کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ غیر ملکی ذخائر ختم ہو رہے ہیں، اور مقامی اسمبلرز اپنی پیداوار بند کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے پاس حاصل کرنے کے لیے لگژری بی ایم ڈبلیو کاریں درآمد کرنے کے لیے ایک قابل ذکر رقم خرچ کرنے جیسے چونچلے ہیں

علی خضر نے اپنی ٹویٹ میں تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ پہلی کھیپ کے لیے 65 کاروں کی تصدیق کی گئی ہے۔ 45 کاروں کے ایل سی کھولے گئے ہیں، اور باقی 20 پر کارروائی جاری ہے

انہوں نے مزید بتایا کہ دوسرے بیچ میں مزید ایک سو کاریں بک ہیں۔ اور کمپنی بے تابی سے مزید بکنگ لے رہی ہے۔ وزارت صنعت و پیداوار نے بتایا کہ لگژری گاڑیوں کی بکنگ کے لیے نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ صرف لگژری بی ایم ڈبلیو کاروں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے 160 مرسڈیز بینز لگژری کاروں کی درآمد کی بھی اجازت دے دی ہے۔ اور جب مقامی کار اسمبلرز اور آٹو پارٹس بنانے والوں کو خام مال کے لیے بند ایل سیز کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، نو ملین سے زائد مالیت کے لیے کھولے گئے ایل سی ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتی ہیں

اب منی بجٹ کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت حکومت اضافی ٹیکسز اور لیوی عائد کر کے 200 ارب روپے جمع کرنا چاہتی ہے، جس کا لامحالہ اثر عام آدمی پر ہی پڑے گا

یہ اطلاعات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں، جب حال ہی میں پاکستان میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس کی قیمتوں میں 74 فی صد اضافے کی سفارش کر رکھی ہے، جس پر وفاقی حکومت کی منظوری نہ ملنے کی صورت میں بھی یہ فیصلہ 40 روز بعد لاگو ہو جائے گا۔ جبکہ وفاقی وزیر مصدق ملک نے اضافے میں سفارش کی حمایت کی ہے

معاشی ماہرین کے مطابق بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور نئے ٹیکسز عائد کرنے کے معاملے پر حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات چل رہے ہیں

آئی ایم ایف جائزہ کمیشن کا دورۂ پاکستان آئندہ ماہ متوقع ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی حتمی تاریخ سامنے نہیں آ سکی

پاکستان کو اسٹاف لیول ایگریمنٹ کی صورت میں مزید ایک ارب ڈالر کی نئی قسط جاری ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی اور اسی صورت میں دیگر ممالک اور مالیاتی اداروں کی طرف سے بھی پاکستان کو قرض مل سکے گا

سیاسی صورتِ حال کے باعث پاکستان نے آئی ایم ایف کو کرائی گئی یقین دہانیاں پوری نہیں کی تھیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کا منی بجٹ لانے کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے

آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کے لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ درآمدات پر کم از کم ایک سے تین فی صد فلڈ لیوی اور بینکوں کی زرِمبادلہ سے متعلق آمدن پر ٹیکس میں اضافہ کیا جائے گا۔ ان نئے ٹیکسز کا اطلاق فروری کے پہلے ہفتے سے ہوگا

اس کے نتیجے میں پاکستان میں مہنگائی میں 35 سے 40 فی صد اضافہ ہو سکتا ہے

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے ڈاکٹر جلیل احمد کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو اپنا ایجنڈا دیا ہے کہ جس پر وہ عمل درآمد کرانا چاہتا ہے

اُن کے بقول مالیاتی خسارہ کم کرنے کا شارٹ کٹ یہ ہے کہ اگر اخراجات کم نہیں کیے جا سکتے تو فوری طور پر نئے ٹیکسز عائد کیے جائیں

حالیہ حکومتی اقدامات کے بارے میں ڈاکٹر جلیل نے کہا کہ آئندہ چند دنوں میں بجلی کے بلوں میں فلڈ لیوی کے نام سے نیا ٹیکس شامل کر دیا جائے گا، جس کے بعد بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ ہوجائے گا

معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے پاس وقت بہت کم ہے اور اب بات مہنیوں کی نہیں بلکہ ہفتوں تک آگئی ہے، جن میں پاکستان کو عملی اقدام کرنے ہیں

ڈاکٹر جلیل کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے مطالبات میں سے ایک روپے کی قدر کو مارکیٹ کرنا بھی ہے۔ اس وقت آپ روپے کی قدر کو بہتر رکھنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے پیسے دے رہے ہیں۔ اس سے دو نقصان ہو رہے ہیں کہ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر 10 سے 12 فی صد تک گر چکے ہیں

ڈاکٹر جلیل کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کتنی دیر تک اس صورتِ حال کو سنبھال سکتا ہے، یہ بالکل معیشت کے وینٹی لیٹر پر ہونے کی طرح ہیں۔ آپ جب جب وینٹی لیٹر سے اتاریں گے اس وقت اس کی موت ہوگی لیکن اسے اتارے بغیر بھی آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے

◼️روپے کی قدر میں گراوٹ کے باعث معیشت سے متعلق خدشات میں اضافہ

روپے کی قدر میں مارکیٹ کی توقعات سے بھی زیادہ تیز رفتار گراوٹ اور کمی کے باعث ملک کی معاشی صورتحال سے متعلق خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے اور آنے والے ہفتوں کے دوران ضروری اشیا کے درآمدی بل کی ادائیگی کی صلاحیت پر شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں

زر مبادلہ کے ریٹ بنیادی طور پر مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں کمی کی وجہ سے سخت متاثر ہوئے جو کہ سکڑ کر تقریباً 9 سال کی کم ترین سطح 4 ارب 34 کروڑ ڈالر پر آ گئے ہیں

اسٹاک مارکیٹ بھی سیاسی بے یقینی اور تشویشناک معاشی اشاریوں کے باعث شدید گراوٹ اور مندی کا شکار ہے اور منگل کے روز یہ 3.5 فیصد کمی کے بعد 38 ہزار 342 پوائنٹس پر بند ہوئی

کرنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے روپے کو کنٹرول کیے جانے کے باوجود اس کی قدر میں کمی ہو رہی ہے، منگل کو روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 228 روپے 66 پیسے پر بند ہوا

ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں آخری بار یکم دسمبر کواضافہ ہوا تھا جب یہ 0.12 فیصد بڑھ کر 223 روپے 69 پسے پر بند ہوا، روپے کی گراوٹ میں حالیہ دنوں میں تیزی آگئی جب کہ گزشتہ 6 سیشنز کے دوران اس کی قدر میں ایک روپیہ 25 پیسے تک کمی دیکھی گئی

ڈالر کی قلت کے دوران انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں اس کے ریٹ میں بہت زیادہ فرق پیدا ہوگیا جس سے معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے، اس نمایاں فرق کے باعث لیگل بینکنگ چینل سے آنے والی ترسیلات زر کو گرے مارکیٹ کی جانب موڑ دیا گیا ہے

اس صورتحال پر ایک سینئر بینکر کا کہنا ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بڑی کمی نے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور کاروباری اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے

بینکرز سمجھتے ہیں کہ ملک میں جلد ہی بنیادی اشیائے خور ونوش کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی بھی قلت محسوس ہوگی

انٹربینک مارکیٹ میں کرنسی امور کے ماہر عاطف احمد نے کہا کہ جون کے مہینے میں چین نے 2 ارب 50 کروڑ ڈالر فراہم کیے تھے اس کے بعد سے ڈالر کا کوئی خاص انفلو نہیں ہوا، ہم کم درآمدات اور ماہانہ اوسطاً 2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر کے باوجود آؤٹ فلو اور ڈالر کا ملک سے اخراج ہی دیکھ رہے ہیں

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے پاس صرف 4 ارب 34 کروڑ ڈالر زر مبادلہ ذخائر ملک کے لیے سنگین خطرہ ہیں جب کہ موجودہ سیاسی بے یقینی نے ملک کی کسی دوسرے ملک اور ڈونر ایجنسی سے تعاون حاصل کرنے کی صلاحیت کو تباہ کر دیا ہے

وزارت خزانہ نے برآمد کنندگان کو درآمدات کی اجازت دینے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن کرنسی ماہرین اب بھی بہتر فیصلوں کے منتظر ہیں، ایک کرنسی ڈیلر نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ملک کو ڈیفالٹ اور سری لنکا جیسی صورتحال سے بچانے کے لیے فوری مدد کی ضرورت ہے

تاہم برآمد کنندگان کس اس فیصلے پر کہنا ہے کہ بہت دیر ہو چکی ہے جبکہ وہ عالمی منڈی میں خاص طور پر ٹیکسٹائل میں نمایاں حصہ کھو چکے ہیں جہاں بنگلہ دیش نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران اپنی برتری کو بڑھایا ہے۔

مقامی ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ اینڈ ایکسپورٹنگ یونٹ کے ڈائریکٹر شکیل کاکوی کا کہنا ہے کہ ہمیں بیرون ملک سے کچھ آرڈرز موصول ہوئے لیکن آرڈرز کی کمی اور گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہم پہلے ہی کئی فیکٹریاں بند کر چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ تمام برآمد کنندگان کو آرڈر موصول نہیں ہو رہے

کچھ ماہرین نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ ڈالر کی قلت آئندہ دو سے تین ماہ میں پیٹرول اور ڈیزل کی راشننگ کا سبب بن سکتی ہے، جس سے تجارت، صنعت اور زرعی شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچے گا جب کہ فصل کے کٹائی کے سیزن میں ڈیزل کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے

◼️بڑی صنعتوں کی پیداوار میں مسلسل تیسرے مہینے کمی

دوسری جانب پاکستان کی بڑی صنعتوں کی پیداوار میں مسلسل تیسرے مہینے کمی ریکارڈ کی گئی، نومبر 2022 میں پچھلے سال کے مقابلے میں 5.49 فیصد کمی ہوئی

پاکستان ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق رواں مال سال میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں مسلسل تیسرے مہینے تنزلی ہوئی، جس سے خاص طور پر ٹیکسٹائل سیکٹر میں ملازمتیں ختم ہونے کے حوالے سے خدشات جنم لے رہے ہیں

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صنعتی پیداوار میں کمی اس جانب اشارہ ہے کہ اگلی سہ ماہی میں معاشی شرح نمو میں مزید کمی ہوسکتی ہے، صنعتوں کو سردیوں میں گیس کی فراہمی معطل نہ ہونے کی وجہ سے بھی دوسری سہ ماہی کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2022 میں 7.7 فیصد اور ستمبر 2022 میں 2.27 فیصد کی منفی نمو ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ جولائی میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 1.67 فیصد کمی کے بعد اگست 2022 میں 0.30 فیصد کا معمولی اضافہ ہوا تھا، رواں مالی سال میں جولائی سے نومبر کے دوران بڑی صنعتوں کی پیداوار میں سالانہ بنیادوں پر 3.58 فیصد کمی ہوئی تھی تاہم اکتوبر 2022 کے مقابلے میں پیداوار میں 3.55 فیصد کا اضافہ ہوا

خام مال اور توانائی کی ریکارڈ قیمتوں کی وجہ سے ماہرین معاشی سرگرمیوں میں سست روی کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں، مزید براں، برآمدی صنعتیں پہلے ہی توانائی اور دیگر خام مال کی لاگت میں اضافے سے پیداوار میں کمی کا اشارہ دے رہی ہیں، 15 شعبوں کی پیداوار میں کمی ہوئی اور صرف 7 شعبوں میں معمولی اضافہ دیکھا گیا

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سست روی کا آغاز جون میں ہو گیا تھا جب مینوفیکچرنگ میں پچھلے مہینے کے مقابلے میں صرف 0.20 فیصد کا اضافہ ہوا تھا

گزشتہ برس سالانہ بنیادوں پر بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 11.7 فیصد کا اضافہ ہوا تھا، بڑی صنعتوں کے لیے پیداوار کا تخمینہ سال 16-2015 کے نئے بنیادی سال کا استعمال کرتے ہوئے لگایا گیا۔

مالی سال 22-2021 کے دوارن بڑی صنعتوں کا خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں 9.2 فیصد کا حصہ تھا جبکہ مجموعی صنعتی شعبے میں اس کا حصہ 74.3 فیصد ہے، اس کے علاوہ چھوٹی صنعتیں 15.9 فیصد یا جی ڈی پی میں 2 فیصد حصہ ڈالتی ہیں۔

نومبر 2022 میں ٹیکسٹائل سیکٹر میں پچھلے سال کے مقابلے میں 22.04 فیصد کمی ہوئی، یارن کی منفی گروتھ 27.98 فیصد، کپڑے کی 13.80 فیصد اور کمبلوں کی پیداوار میں 59.11 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی

اسی طرح نومبر کے دوران آٹو سیکٹر کی پیدوار میں بھی 18.97 فیصد کمی ہوئی، ڈیزل اور بسوں کے انجن کے علاوہ تقریباً تمام قسم کی گاڑیوں کی پیداوار میں کمی ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق پچھلے سال کے مقابلے میں نومبر میں اسٹیل کی پیداوار میں 8.7 فیصد کمی ہوئی، غیر دھاتی معدنی مصنوعات میں 13.07 فیصد اور کیمیکل مصنوعات میں 7.06 فیصد کمی دیکھی گئی، فارماسیوٹیکل مصنوعات میں 8.34 فیصد اور ربر مصنوعات میں 9.30 فیصد کی کمی ہوئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close