
رات ابھی پوری طرح ڈھلی بھی نہ تھی کہ بونیر کی وادیوں میں اچانک آسمان سے ایک ایسا شور اٹھا جیسے کسی نے پانی کا سمندر اوپر سے انڈیل دیا ہو۔ لمحوں میں بستیاں ڈوب گئیں، مکانات زمین میں دھنس گئے اور پہاڑوں سے بھاری پتھر لڑھکتے ہوئے گھروں پر گرنے لگے۔ گاؤں کے گاؤں ملبے میں دفن ہو گئے۔
اسی بونیر کے قادر نگر گاؤں میں ایک ہی خاندان خوشی کے دنوں کی تیاریوں میں تھا۔ شادی سے ایک روز پہلے پورے گھر میں گہما گہمی تھی، لیکن رات ڈھلتے ہی سیلابی پانی نے گھر کی دہلیز پار کی اور لمحوں میں 24 زندگیاں بہا لے گیا۔ صرف خاندان کے سربراہ عمر خان زندہ بچے، کیونکہ وہ اس وقت باہر تھے۔ آج وہ روتے ہوئے کہتے ہیں، ”میری آنکھوں کے سامنے سب کچھ بہہ گیا… چار عزیزوں کی لاشیں اب تک نہیں ملیں۔“
یہ کوئی فلمی منظر نہیں بلکہ حقیقت ہے جو پاکستان اور انڈیا کے پہاڑی خطوں میں بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ لمحوں میں بستیاں اجڑ جاتی ہیں، گھر ملبے کا ڈھیر بن جاتے ہیں اور زمین پر انسانی زندگی کی ساری منصوبہ بندی پانی کے ایک سیلابی جھٹکے کے آگے ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔
یہ داستان صرف پاکستان کی نہیں۔ شمالی انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ میں بھی اسی ماہ پہاڑوں سے سیلابی ریلا اترا اور دھرالی گاؤں کو نگل گیا۔ مقامی ٹی وی پر وہ مناظر دکھائے گئے، جن میں پانی پہاڑ سے گرتا ہوا ایک خوفناک دیو کی طرح بستیوں پر جھپٹ رہا تھا۔ لوگ یاد کرنے لگے کہ یہی وہ سرزمین ہے جہاں 2013 میں بادل پھٹنے سے چھ ہزار انسان جان سے گئے تھے۔
بادل پھٹنا دراصل ہے کیا؟
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عام بارش اور بادل پھٹنے میں فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ بادل پھٹنا بارش نہیں، ایک دھماکہ ہے۔ سائنسی زبان میں یہ وہ کیفیت ہے جب ایک گھنٹے کے اندر سو ملی میٹر سے زائد بارش صرف ایک چھوٹے سے علاقے پر ہو۔ یعنی آسمان جیسے برسوں کا بوجھ ایک ہی لمحے میں زمین پر انڈیل دے۔
یہ کیسے ہوتا ہے؟ ہوا میں نمی پہاڑوں سے ٹکرا کر اوپر اٹھتی ہے، ٹھنڈی ہو کر بھاری بادل بناتی ہے، پھر وہ بادل ایک ہی مقام پر رکے رہتے ہیں۔ اوپر سے اوپر ہوا انہیں مزید بھاری کرتی جاتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب بادل اپنی نمی کو تھام نہیں پاتے اور یوں لگتا ہے جیسے بارش کا بم پھٹ گیا ہو۔
انڈیا اور پاکستان کیوں ہیں سب سے زیادہ خطرے میں؟
بادل پھٹنے کے تین بنیادی اجزاء ہیں: نمی، مون سون، پہاڑ۔۔ اور یہ تینوں عناصر پاکستان اور انڈیا کے پاس کثرت سے موجود ہیں۔ ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کی فلک بوس چوٹیوں پر مون سون کی ہوائیں ٹکرا کر بادلوں کو قید کر لیتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بارشوں کے دونوں موسم، جون تا ستمبر اور اکتوبر تا دسمبر، اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے انہیں بگاڑ دیا ہے۔ کبھی ہفتوں خشک سالی، کبھی لمحوں میں ہولناک بارش۔
کیا ان کی پیش گوئی ممکن ہے؟
یہی وہ سوال ہے جس پر سائنس بھی خاموش ہے۔ کسی بھی ملک کے پاس ایسا نظام موجود نہیں جو یہ بتا سکے کہ فلاں گھنٹے اور فلاں مقام پر بادل پھٹے گا۔ بونیر میں وارننگ سسٹم موجود تھا مگر بارش اتنی اچانک اور شدید تھی کہ خبر دینے کا موقع ہی نہ مل سکا۔
البتہ احتیاطی تدابیر ضرور ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں: دریا اور وادیوں کے کنارے مکانات نہ بنائیں۔ بارش کی پیش گوئی کے دوران پہاڑی علاقوں کا سفر مؤخر کریں۔ رات کے وقت پہاڑی سڑکوں پر سفر سے پرہیز کریں۔ شجرکاری کریں تاکہ زمین پانی جذب کر سکے۔
یہ سب باتیں سننے میں آسان ہیں، مگر پہاڑوں کے دامن میں رہنے والے لوگ جانتے ہیں کہ ان پر عمل کرنا کتنا مشکل ہے۔
موسمیاتی تبدیلی: ذمہ دار لیکن اصل مجرم کون؟
اب ذرا ایک لمحے کے لیے رک کر سوچیں۔ آخر یہ واقعات پہلے کیوں کم تھے اور اب کیوں بڑھ گئے ہیں؟ ماہرین کہتے ہیں کہ جواب صرف ایک ہے: موسمیاتی تبدیلی۔ اور اس تبدیلی کے پیچھے انسان کی ماحول دوست سرگرمیوں کا کلیدی اور اہم کردار ہے۔
ہر ایک ڈگری بڑھتے درجہ حرارت کے ساتھ ہوا مزید نمی جذب کر لیتی ہے۔ سمندروں کا پانی گرم ہو کر فضا میں زیادہ بخارات بھیجتا ہے۔ گلیشیئر پگھل کر پہاڑوں کو غیر مستحکم کر دیتے ہیں۔ زمین جنگلات سے خالی ہو گئی ہے، دلدلی علاقے ختم ہو گئے ہیں، اس لیے بارش کا پانی زمین کے اندر جذب ہونے کے بجائے فوراً بہہ جاتا ہے۔
پاکستان کے ماہر ماحولیات خالد خان کے مطابق: ”گرمی نے آبی چکر کو اتنا تیز کر دیا ہے کہ اب بارشیں نہ صرف زیادہ شدید ہیں بلکہ زیادہ غیر متوقع بھی۔ ہمارے شمالی علاقے اس تبدیلی کی سب سے زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔“
بادل پھٹنے کے یہ واقعات صرف اعدادوشمار نہیں۔ یہ ہر اس بچے کی چیخ ہیں جو پانی میں بہہ گیا، ہر اس ماں کا نوحہ ہیں جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے خاندان کو کھو دیا۔ یہ صرف بارش نہیں بلکہ آسمان سے ٹپکتی ایک وحشت ہے، جسے موسمیاتی تبدیلی نے اور زیادہ بے قابو بنا دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس آسمانی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں یا اگلے برس پھر یہی مناظر ہماری زمین پر بکھرتے رہیں گے؟
ایک ترک کہاوت ہے کہ ”دریا ایک سانپ ہے اور پتھر اس کے انڈے۔ یہ سو سال بعد بھی اپنے انڈوں کو سینکنے آ سکتا ہے۔“ اس کہاوت میں ایک تلخ مگر اٹل حقیقت چھپی ہے۔ دریا کی حدود وہیں تک ہیں جہاں تک اس کے کنارے اور پتھر بکھرے ہیں، مگر ہم نے اپنی کوتاہیوں میں انہی حدود پر قبضہ کر لیا۔ گھروں اور سڑکوں نے دریا کے پرانے راستوں کو نگل لیا اور ہمیں لگا کہ ہم نے فطرت کو شکست دے دی ہے، مگر جب بادل پھٹتے ہیں تو دریا اپنی پرانی راہیں ڈھونڈ لیتا ہے۔ گاؤں اجڑتے ہیں، بستیاں بہہ جاتی ہیں، اور یوں صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ قصور بارش یا دریا کا نہیں، ہماری اپنی مداخلت کا بھی ہے جو فطرت کے صدیوں پرانے نظام کے خلاف کھڑی ہوئی۔