بھارت میں اپریل 2020ع کے دوران مسلمانوں کی تبلیغی جماعت کے ایک اجتماع پر کووڈ کی وبا پھیلانے کے الزامات کے بعد ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت یعنی اسلاموفوبیا کی دلدل میں دھنسنے لگا ہے
یاد رہے کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں منعقد ہونے والے مسلمانوں کے تبلیغی اجتماع میں ملک کے اندر اور ملک کے باہر سے آنے والے لاکھوں افراد نے شرکت کی تھی۔ مسلمانوں کی تبلیغی جماعت سو سال پرانی تحریک ہے اور یہ خطے کے دوسرے ملکوں میں بھی سرگرم ہے
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس اجتماع کو ‘سپر سپریڈر’ یا وبا کو انتہائی تیز رفتاری سے پھیلانے والی تقریب قرار دیا
اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر اسلاموفوبیا یا مذہبی منافرت پر مبنی میم اور ہیش ٹیگ کی بھرمار ہو گئی جس میں تبلیغی جماعت کو وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جانے لگا
اس معاملے پر بھارتی ذرائع ابلاغ نے آگ بھڑکانے والی سرخیاں لگانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے تبلیغی اجتماع کو ’کرونا جہاد’ قرار دے کر ملک کو اس سے بچانے کی مہم شروع کر دی
اس اجتماع میں شرکت کرنے والے تقریباً ایک ہزار افراد پر وبا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کا خیال نہ رکھنے پر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم آٹھ ماہ بعد عدالتوں نے ان لوگوں کو بری کرتے ہوئے کہا کہ ان پر مقدمات حکومت کے ایما پر بدنیتی سے بنائے گئے تھے
تبلیغی جماعت کے کئی شرکا کا تعلق انڈونیشیا سے تھا، جو بھارت کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے
انڈونیشیا نے اس معاملے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ انڈونیشیا میں منتخب اراکین نے الزام عائد کیا کہ یہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش ہے
ایک سابق بھارتی سفارت کار نے کہا ”یہ اس بات کی ایک واضح مثال ہے کہ کیسے اندرونی مسئلہ پھیل کر خارجی امور کا مسئلہ بن جاتا ہے“
اب بھارت کی حکمران جماعت کے دو اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے پیغمبر اسلامﷺ کے بارے میں توہین آمیز بیان دیے جانے کے بعد ملک کو خارجی امور میں جس صورتحال کا سامنا ہے، اس کو سنبھالنے کے لیے جو کوششیں کرنی پڑ رہی ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی مودی کی حکومت کو عالمی سطح پر ملک کے اندر ریاستی سرپرستی میں بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا کے حوالے سے تنقید کا سامنا رہا ہے
ویسے تو مودی سرکار آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے لیکن گذشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے بھارت میں بی جے پی کے انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات کی ایک سونامی آئی ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ حکومتی زعماء نے سر عام ملک کے بائیس کروڑ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور انہیں ختم کرنے پر بھی اکسایا
ماضی قریب میں انتہا پسندوں نے مسلمان نوجوانوں پر ہندو لڑکیوں کو ’ورغلا کر شادیاں رچانے‘ کے بے بنیاد الزامات لگا کر ‘لو جہاد’ کا ہوا کھڑا کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی سازش کی
ملک کے مختلف حصوں میں سخت گیر ہندو گروہوں نے گائے کی رکھوالی یا تحفظ کے نام پر درجنوں مسلمانوں کو سر عام قتل کر دیا یا گوشت کے کاروبار کا بائیکاٹ کر دیا
سوشل میڈیا پر مسلمان خواتین اخبار نویسوں کے خلاف زہر انگیز مہم چلائی گئی۔ مسلمان خواتین کے ناموں کی فہرست بنا کر ان کی سوشل میڈیا پر نیلامی شروع کر دی گئی۔ جانبدار ذرائع ابلاغ نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے چینلوں پر ہونے والے مباحثوں اور گفتگو کے پروگرامز میں شرکا کو انتہائی موقف اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ مسلمان خواتین کے حجاب کے حوالے سے ہندوتوا سے جڑے حلقوں کے انتہا پسندانہ خیالات بھی اسلاموفوبیا کی تازہ مثالوں میں سے ایک ہیں
اس بار سفارتی آگ بجھانے کا کام اپنی نوعیت کا پہلا نہیں۔ ماضی میں بھی مودی کی حکومت کو اسلاموفوبیا کی وجہ سے عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے یا تو دانستہ خاموشی اختیار کیے رکھی ہے، جواب دینے میں لیت و لعل سے کام لیا ہے یا اس طرح کی کارروائیوں کے لیے ’کچھ عناصر‘ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے
درحقیقت مودی کے رویے سے عام ہندوؤں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بدنام کریں اور پھر اس کے نتائج سامنے آئے ہیں
2018 میں دبئی کے ہوٹل میں کام کرنے والے ایک مشہور بھارتی نژاد شیف کو اسلام مخالف ٹویٹ پوسٹ کرنے پر برطرف کر دیا گیا۔ جب دبئی میں رہنے والے بھارتیوں نے 2020ع میں تبلیغی جماعت مخالف ٹویٹس پوسٹ کرنا شروع کیں تو حکمران شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک مقامی کاروباری خاتون نے ٹویٹ کیا کہ ’جو بھی متحدہ عرب امارات میں کھلے عام نسل پرست اور امتیازی رویہ اختیار کرے گا اسے جرمانہ کیا جائے گا اور اسے نکال دیا جائے گا‘
لیکن اس بار بی جے پی حکومت کے ذمہ دار تمام حدود پار کر گئے، جس پر دنیا بھر سے زبردست رد عمل سامنے آیا ہے۔ سعودی عرب، پاکستان، ایران اور قطر سمیت پندرہ ممالک نے بھارت سے احتجاج درج کیا ہے۔ ایک سابق بھارت سفارتکار تلمیز احمد کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف توہین آمیز تبصرے کرنا واضح طور پر حد سے تجاوز کرنا تھا
مودی سرکار بہ دل ناخواستہ اپنے ترجمان کو ان کے ریمارکس پر معطل کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ بھارت کے سرکردہ اسکالر پرتاپ بھانو مہتا نے کہا کہ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور سرکاری پشت پناہی کے ساتھ نفرت انگیز تقاریر، بھارت کی عالمی ساکھ پر منفی اثرات مرتب کرے گی
لیکن نجی طور پر، بہت سے ہٹ دھرم بی جے پی لیڈروں کا خیال ہے کہ غصہ جلد ہی ختم ہو جائے گا اور یہ حالات معمول پر آ جائیں گے
خلیج تعاون تنظیم (جی سی سی) سے تعلق رکھنے والے چھ خلیجی ممالک میں تقریباً پچاسی لاکھ بھارتی کام کرتے ہیں، جو پاکستانیوں کی تعداد سے دگنے ہیں اور دوسری سب سے بڑی غیر ملکی افرادی قوت ہے
بھارتی شہری ان ممالک میں سب سے بڑی غیر ملکی آبادی بناتے ہیں۔ وہ ہر سال تقریباً پینتیس ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھارت بھیجتے ہیں جو کہ بھارت میں چار کروڑ خاندانوں کی کفالت کرتی ہے، جن میں سے بیشتر بھارت کی غریب ترین ریاستوں جیسے کہ بی جے پی کی حکمرانی والی اتر پردیش میں ہیں
بھارت اور جی سی سی ممالک کے درمیان تجارت تقریباً 87 ارب ڈالر ہے۔ عراق بھارت کو تیل فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے اور اس کے بعد سعودی عرب ہے، جبکہ بھارت کی قدرتی گیس کا 40 فیصد سے زیادہ قطر سے آتا ہے
یہی وہ صورت حال ہے ، جس کے تناظر میں اشوکا یونیورسٹی میں تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر سری ناتھ راگھون کہتے ہیں ”بھارت کو اس بارے میں کسی غفلت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس طرح کی نفرت انگیز گفتگو جاری رہتی ہے، تو خلیج میں آجر خاموشی سے بھارتی شہریوں کو ملازمت دینے سے دور ہٹنا شروع ہو سکتے ہیں۔ وہ انتہا پسندوں کو نوکری دینا کا خطرہ کیوں اٹھائیں گے؟“