یوں تو صوبائی دارالحکومت کراچی میں حکومتِ سندھ اور فلاحی اداروں کی بےشمار ایمبولینسز سڑکوں پر سائرن بجاتی دوڑتی نظر آتی ہیں لیکن ان میں سے کتنی ایسی ہیں جو جدید یا جان بچانے والی ایمبولینسز کہلاتی ہیں کیونکہ زیادہ تر ایمبولینسز محض کوفن کیرئیر یا پیشنٹ ٹرانسپورٹر کیرئیرز ہیں جن میں تربیت یافتہ عملہ موجود نہیں ہوتا
لیکن صوبائی دارالحکومت میں جدید سہولیات سے آراستہ نہ سہی، پھر بھی بڑی حد تک ایمبولینس سروس میسر تو ہے، جبکہ سندھ کے دیگر کئی چھوٹے بڑے شہروں میں تو یہ سرے سے ہی ناپید ہے، جس کی وجہ سے اکثر اوقات اموات کے دردناک واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں
عالمی ادارہ صحت کے مطابق 51 ہزار شہریوں کے لیے ایک ایمبولینس ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو 51 ہزار شہریوں کے لیے ایک ایمبولینس ہے، لیکن پاکستان جیسے ممالک میں کم از کم ایک لاکھ شہریوں کے لیے ایک ایمبولینس تو ہونی چاہیے۔ آبادی کے لحاظ سے صرف کراچی کے لیے 200 اور صوبے بھر کے لیے 500 سے زائد ایمبولینسز درکار ہونگی
رواں ماہِ جون کے آغاز سے سندھ حکومت نے ریسکیو 1122 سروس کا افتتاح صوبائی دارالحکومت کراچی میں پچاس جدید ایمبولینس سے کر دیا ہے، جبکہ کراچی میں کُل 320 ایمبولینس آنی ہیں
سندھ ریسکیو 1122 کو چلانے والی تھرڈ پارٹی تنظیم ‘سندھ انٹیگریٹیڈ ایمرجنسی اینڈ ہیلتھ سروسز’ کی چیف ایگزیکٹو آفیسر شازینہ مسعود ہیں، ان کا کہنا ہے ”یہ منصوبہ صرف صوبائی دارالحکومت کراچی تک محدود نہیں، بلکہ صوبے کے تمام اضلاع میں پھیلایا جائے گا“
شازینہ مسعود نے بتایا ”ریسکیو کا یہ منصوبہ اصلی ایمرجنسی ایمبولینس والا منصوبہ ہے۔ جو کسی حادثے میں زخمی ہوجانے والے افراد یا کسی میڈیکل ایمرجنسی جیسا کہ کسی کو دل کا دورہ پڑا ہے یا کوئی ایمرجنسی ہے، تو انہیں ہسپتال پہنچایا جاسکے۔ یہ ایمبولینس ورلڈ بینک کی جانب سے مہیا کی گئی ہیں“
سندھ ریسکیو 1122 کو بلانے کا طریقہ
شازینہ مسعود کے مطابق ”اگر کوئی گھر پر ہے اور بیمار ہے۔ کوئی میڈیکل ایمرجنسی ہے۔ وہ ہمیں 1122 پر کال کریں گے۔ ہم فون پر ہی یہ دو، تین سوالات پوچھ کر یہ جان جاتے ہیں کہ ایمرجنسی کس نوعیت کی ہے۔ کس قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔ ہم فون پر ان کو کچھ ہدایت دیتے ہیں کہ مریض کے ساتھ یہ کیا جائے وہ کیا جائے۔ ساتھ میں ایمبولنس بھی پہنچ جاتی ہے“
انہوں نے کہا ”اس کے علاوہ ہم مریضوں کو ہسپتال سے دوسرے ہسپتال بھی منتقل کریں گے۔ مثال کے طور پر ایک مریض کسی ہسپتال میں ہے اور اس ہسپتال میں ان کے علاج کی سہولیات نہیں ہیں تو ہم انہیں دوسرے ہسپتال پہنچائیں گے“
شازینہ مسعود کے مطابق ”تیسری انتہائی اہم سروس ہے روڈ ایکسیڈنٹ۔ اگر کہیں راستے پر حادثا ہوجائے اور کوئی ہمیں فون کرے تو ہم فوری طور پر وہاں پہنچ کر ہسپتال پہنچائیں گے۔ یہ تمام سہولیات بلکل مفت ہیں اور اس کی کوئی فیس نہیں ہے۔ 1122 نمبر پر ٹیلی فون بھی مفت ہے“
ان کا کہنا تھا ”ایک اہم بات یہ کہ ہم صرف زخمیوں اور مریضوں کو یہ سروس دیتے ہیں۔ ہماری سروس لاش منتقلی کے لیے نہیں ہے۔ اگر کسی کو کوئی لاش منتقل کرنا ہو تو کسی اور سروس کو کال کی جائے۔ لاش منتقلی کے لیے ریسکیو 1122 کو کال نہیں کی جائے“
شازینہ مسعود نے عوام الناس سے اپیل کی ایمبولینس ایک ایمرجنسی سروس ہوتی ہے، اس لیے لوگ جب بھی ایمبولنس کو دیکھیں تو ہمیشہ جگہ دیں، چاہیے وہ ایمبولینس خالی کیوں نہ ہو
قبل ازیں رواں ماہ کے آغاز میں اس کے افتتاح کے وقت پروجیکٹ کی چیف ایگزیکٹو آفیسر شازینہ مسعود نے بتایا تھا کہ یہ منصوبہ تھرڈ پارٹی سندھ انٹیگریٹیڈ ایمرجنسی اینڈ ہیلتھ سروسز کے تحت چلایا جائے گا جس کے لیے فنڈنگ عالمی ادارہ صحت نے فراہم کی ہیں، جس کا مقصد ایمرجنسی ایمبولینس سروسز کو صوبے بھر میں پھیلانا ہے
بورڈ کی سربراہ وزیر صحت سندھ ہوں گی، بورڈ میں حکومت سندھ کے دیگر افسران بھی شامل ہوں گے۔ گزشتہ دس سال سے امن ہیلتھ سروس سندھ میں اپنی ایمبولینس سروس چلا رہا ہے، گزشتہ سال حکومت سندھ نے ایک نئی کمپنی سندھ انٹیگریٹیڈ ایمرجنسی اینڈ ہیلتھ سروسز قائم کی ہے
شازینہ مسعود کا کہنا تھا کہ منصوبے کے تحت مزید 230 نئی ایمبولینسز آئیں گی جنہیں پورے سندھ میں پھیلایا جائے گا، یہ کام مختلف مراحل میں ہوگا، پہلے مرحلے میں لاڑکانہ، حیدرآباد، بدین، جامشورو، ٹنڈو محمد خان دادو اور تھرپارکر پہلے فیز میں شامل ہیں
انہوں نے بتایا کہ یہاں اپنے دفاتر قائم اور عملہ تعینات کیا جائے گا، ان کی تربیت کی جائے گی، ایک ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کراچی میں ہے، جبکہ دوسرا حیدرآباد میں بنائیں گے، حیدرآباد میں کماننڈ اینڈ کنٹرول سینٹربھی بنائیں گے
دوسرے مرحلے میں ٹنڈوالہیار، ٹنڈو محمد خان، مٹیاری اور میرپور خاص میں 30 ایمبولینسز آئیں گی، تیسرے مرحلے میں عمر کوٹ، شہید بے نظیر آباد، سانگھڑ، نوشہروفیروز، سکھر ، گھوٹکی، خیرپور، جیکب آباد، کشمور اور آخر میں قمبر شہداد کوٹ اور شکارپور میں ریسکیو 1122 سروس شروع ہوگی اور کراچی میں ایمبولینسز کی تعداد بڑھائی جائے گی
واضح رہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں یہ سروس کافی عرصہ پہلے ہی سے بڑے پیمانے پر دی جا رہی ہے، جہاں بیماروں اور زخمیوں کی ہسپتال منتقلی کے علاوہ مختلف حادثات میں امدادی کارروائیاں بھی اس سروس کے تحت کی جاتی ہیں۔