ہپناسس: درد سے نجات کے سائنسی شواہد کے باوجود اس کا طبی استعمال کم کیوں؟

ویب ڈیسک

ہپناسِس تنویم میڈیکل سائنس یا جادو ٹونا
تنویم (یعنی مصنوعی طریقے سے لائی ہوئی نیند) اس وقت درد، اعصابی دباؤ، صدمے کے بعد کی کیفیت اور کئی اس جیسی جسمانی اور نفسیاتی تکلیفوں پر قابو پانے کے لیے ایک طبی طریقہِ علاج کے طور پر مقبولیت حاصل کر رہا ہے

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقہِ علاج پر لگے جادو ٹونا یا توہم پرستی جیسے الزامات کے داغ دھل سکتے ہیں؟

جب ڈیوڈ اسپیگل کو بتایا گیا کہ اُن کا اگلا مریض اُن کا انتظار کر رہا ہے، تو انہیں کمرے کا نمبر پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ ہال کے آدھے راستے سے مریض کے سانسوں کی تیز آواز سُن سکتے تھے

ڈیوڈ اسپیگل کے زیر علاج مریضہ ایک سُرخ بالوں والی سولہ سالہ لڑکی تھی، جس کو اُس وقت دمے کا دورہ پڑا تھا اور وہ بستر پر چت لیٹی ہوئی تھی۔ اس کی انگلیوں ک لا رنگ سفید ہو رہا تھا۔ اُس کے سرہانے اس کی والدہ کھڑی رو رہی تھیں۔ گذشتہ مہینوں کے دوران یہ تیسرا موقع تھا کہ لڑکی دمے کے دورے کی وجہ سے ہسپتال لائی گئی تھ

ڈیوڈ اسپیگل سنہ 1970ع میں امریکی ریاست میساچوسٹس کے بوسٹن چلڈرن ہسپتال میں ایک میڈیکل کے طالب علم کی حیثیت سے وہاں موجود تھے۔ اپنی تربیت کے حصے کے طور پر وہ کلینیکل ہپناسِس (طبی تنویم) کی کلاس بھی لے رہے تھے

نوجوان مریضہ کے کمرے میں موجود ڈاکٹروں اور معاونین کی ٹیم پہلے ہی ’ایڈرینالین‘ نامی انجیکشن لگا کر اُن کی سانس کی نالیوں کو کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ دو مرتبہ انجیکشن لگنے کے بعد بھی لڑکی کی حالت سنبھل نہیں پا رہی تھی۔ اسپیگل کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مزید کیا کرنا چاہئے، تبھی انہوں نے مریضہ سے پوچھا ”کیا آپ سانس لینے کی مشق سیکھنا چاہتی ہیں؟“

مریضہ نے اثبات میں سر ہلایا اور اس طرح اسپیگل نے اپنے پہلے مریض کو ہپناٹائز کیا۔ اس عمل کے بعد ایک بار جب لڑکی مصنوعی نیند جیسی حالت میں داخل ہو گئی تو اسپیگل نے مریضہ کو ’تجویز‘ دینے کے لیے خود کو تیار کیا

ہپناٹائز کیے ہوئے مریض کو تجویز دینا اس طریقہ علاج کا ’فعال جزو‘ ہے، جو عام طور پر احتیاط سے تیار کیا گیا ایک بیان ہوتا ہے ،جو ایک غیر ارادی ردعمل پیدا کرتا ہے

ہپناٹائز (مصنوعی طور پر لائی گئی نیند کی کیفیت) ہونے کے بعد لڑکی پُرسکون ہو گئی اور توجہ مرکوز کیے ہوئے بستر پر بیٹھی، تو اسپیگل سوچنے لگا کہ اس مریضہ کو کیا تجویز دینی چاہیے، کیونکہ انہیں ابھی تک کسی دمے کا شکار مریض سے نمٹنے کا تجربہ نہیں ہوا تھا

بعد ازاں اسپیگل نے اس کیس کو یاد کرتے ہوئے بتایا: چنانچہ میں نے ایک پلان بنایا۔ میں نے مریضہ سے کہا ’آپ کی ہر سانس تھوڑی گہری اور قدرے آسان ہوگی‘

اس کوشش نے کام کیا۔ پانچ منٹ کے اندر مریضہ کی گھرگھراہٹ بند ہو گئی تھی اور جب وہ آرام سے سانس لینے کے قابل ہو گئی تو اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ اس کی ماں نے اس کی حالت بہتر دیکھ کر رونا بند کر دیا اور قدرے پُرسکون ہو گئی

یہ ڈاکٹر اور ان کی سولہ سالہ مریضہ کی ابتدائی ملاقات تھی

بعد ازاں یہ لڑکی ’ریسپائریٹری تھیراپسٹ‘ بنیں، جبکہ ڈاکٹر اسپیگل نے کلینیکل ہپناسِس (طبی تنویم) میں اپنے کیریئر کو آگے بڑھایا۔ اگلے پچاس سالوں میں انہوں نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں سینٹر فار انٹیگریٹیو میڈیسن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اپنے کیریئر کے دوران لگ بھگ سات ہزار سے زیادہ مریضوں کو ہپناٹائز کیا

پہلی نظر میں ہپناسِس (تنویم) ان نفسیاتی مظاہر میں سے ایک لگتا ہے، جو شاید کام نہ کرتے ہوں۔ جو چیز اس طریقہ علاج کو دلچسپ بناتی ہے وہ یہ ہے کہ بعض اوقات یہ طریقہ علاج موثر ثابت ہوتا ہے۔ ہپنوٹک حالت میں داخل ہونا، توجہ مرکوز کرنا اور ہپناٹائز کرنے والے کی جانب سے دی گئی تجویز کو سننا۔۔۔

ہپناٹائز کیے جانے والے شخص کو جب یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا بازو خود بخود ہلنا شروع ہو جائے گا، تو بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے

اگر تجویز یہ ہے کہ دائمی درد کم ہو جائے گا، یا یہ پریشانی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی، ہپناسِس ایک قیمتی علاج کا طریقہِ کار بن جاتا ہے

بڑی تعداد میں دستیاب شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ درد، اضطراب، صدمے کے بعد کی کیفیت (PTSD)، زچگی کا عمل، آنتوں میں تکلیف کی وجہ سے چڑچڑاپن اور دیگر شکایات کا سامنا کرنے والے بہت سے لوگوں کے لیے ہپناسِس (تنویم) کارآمد طریقہ علاج ہے

جبکہ ہپناسِس (تنویم) افادیت اور ضمنی اثرات کے لحاظ سے دیگر معیاری علاج کے طریقوں کی نسبت سستا پڑتا ہے

لیکن اس طریقہ علاج پر کی گئی دہائیوں کی تحقیق اور دماغ پر اس کے اثرات جاننے کے باوجود، کلینیکل ہپناسِس کا استعمال غیر معمولی طور پر کافی کم رہا ہے۔ اس طریقہ علاج کی مقبولیت میں کمی کی وجہ اس کے بارے میں عمومی طور پر پائی جانے والی وہ غلط فہمیاں ہیں، جن کے مطابق لوگ اسے ایک جادو ٹونا اور ٹوٹکے جیسا طریقہ علاج سمجھتے ہیں

اس حوالے سے اسپیگل کا کہنا ہے ”ہپناسِس اب بھی بہت سارے لوگوں کے نظر میں ایک عجیب و غریب عمل ہے۔ لوگ یا تو یہ کہتے ہیں کہ یہ بیکار طریقہ علاج ہے یا یہ بہت خطرناک ہے“

اسپیگل ان دونوں باتوں کو ہی غلط قرار دیتے ہی

میسمرزم کا آغاز

ہپناسِس سے ملتے جلتے طریقے دنیا بھر کی کئی ثقافتوں میں صدیوں سے موجود ہیں۔ روایتی جنوبی افریقی شفایابی کے طریقوں میں ٹرانس سے لے کر سائبیریا، کوریا اور جاپان کے ’شمنزم‘ اور شمالی امریکہ کی مقامی ادویات تک، بہت سے طریقے انسان کے جسم کو مصنوعی نیند یا خواب کی سی حالت میں لے جانے کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہیں

قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ تنویم کے مغربی دنیا کے ورژن کی ابتدا اٹھارہویں صدی کے اواخر سے ہوئی ہے۔ سنہ 1775ع میں جرمن طبیب فرانز میسمر نے جانوروں کی مقناطیسیت کے نظریہ کو مقبول کیا۔ میسمر کا خیال تھا کہ ایک غیر مرئی مقناطیسی سیال انسانی جسم میں بہتا ہے، جو ہماری صحت اور رویے پر اثرانداز ہوتا ہے

ہپناسِس کے بارے میں عوامی بحث سنہ 1880ع کی دہائی میں زیادہ مقبول ہوئی، یہاں تک کہ کچھ ملکوں نے اس کے استعمال کو منظم کرنے کے لیے قوانین بنانا شروع کر دیے۔ ہپنوسس کو سمجھے جانے والوں کی نظر میں اس کے دور رس اثرات کے بارے میں اٹھارہویں صدی کے آخر میں تشویش اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ ستمبر 1894ع میں بائیس سالہ ایلا سالمون کی موت اس وقت ہوئی جب ایک جادوگر نے اسے ہنگری کے ایک دور دراز قلعے میں ہپناٹائز کیا۔ یہ کہانی میڈیکل کمیونٹی اور یورپ اور شمالی امریکہ میں مقبول پریس میں گردش کرتی رہی

جرمنی میں اس واقعہ کے تین ماہ بعد بیرونس ہیڈوِگ وون زیڈلِٹز اَنڈ نیوکرچ، پیٹ کے درد اور سر درد کے علاج کی تلاش میں ایک ’مقناطیسی شفا دینے والے‘ سے ملی، جن کا نام چیزلا چیززنسکی تھا۔ اس نے مبینہ طور پر کئی سیشنوں میں بیرونس کو بہکانے کے لیے تنویم کا استعمال کیا، جس کا نتیجہ ایک دھوکہ دہی سے ہونے والی شادی میں ہوا، جس سے جرمن اشرافیہ میں تشویش پیدا ہوئی

(بیرونس کئی مہینوں تک یہی کہتی رہی کہ وہ واقعی چیززنسکی سے محبت کرتی تھیں، جس کی دلکش آنکھیں، خوبصورت بال اور سفید دانت تھے)

اسی سال جارج ڈو موریئر کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے ناول ’ٹریلبی‘ میں افسانوی ہپناٹسٹ سوینگالی کا ذکر ہوا۔ عوام نے چیززنسکی کیس کی خبروں کے ساتھ ساتھ کتاب کو بھی خوب پڑھا، ان دو کرداروں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان میں غیر معمولی مماثلتیں پائی جاتی ہیں

اس طرح کے اسکینڈلز نے ڈاکٹروں کی کوششوں کو تقویت بخشی کہ وہ اسٹیج کے ہپناٹسٹ اور جادوگروں سے خود کو مختلف بنا کر پیش کریں اور اپنے کام کو جائز بنائیں۔ بہت سے شعبہ طب کے اساتذہ نے دلیل دی کہ تنویم کا کام ایک عام پریکٹیشنر کو بالکل نہیں کرنا چاہیے

ایک صدی کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس موضوع پر یہ بحث ابھی تک کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی ہے

بہت سے محققین اور کلینیکل پریکٹیشنرز یہ موقف رکھتے ہیں کہ ہپناٹزم خطرناک ہے، اور اس کی ساکھ نے طب میں ہپناسِس کے زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ لیکن اس کی طبی افادیت پر لکھے گئے تحقیقی مواد نے انسانی دماغ میں اس کے طریقہ کار کی نئی بصیرت کے ساتھ، محققین اور معالجین تنویم کی سماجی بحالی کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں

میسمر کے عجیب و غریب تجربات کا اثر یہ ہوا کہ مختلف لوگوں نے اس سلسلے کو مزید کریدنے کی کوشش کی، جس میں بیسویں صدی کے وسط میں خالص تیزاب اور سانپوں کو ملانے جیسے ہر طرح کے تجربات سے لے کر اب دنیا کے سرفہرست طبی جرائد میں درد سے نجات کے لیے اس عمل کے فوائد پر مقالات شائع ہو چکے ہیں

مارتھا ہینریکس کہنا ہے ہیں ”لیکن اس تمام تحقیق کی جانچ سے پہلے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ پہلے خود اس عمل سے گزر کر دیکھوں

ڈیوین ٹیرہون لندن یونیورسٹی کے گولڈسمتھس میں علمی اعصابی سائنسدان ہیں۔ ایک سوموار کی سہ پہر جب میں ان کے دفتر کے قریب پہنچا تو میں دو وجوہات کی بنا پر گھبرا رہا تھا

پہلی چیز تو یہ تھی کہ کئی محققین اور طبی ماہرین سے ہپناٹزم پر بات چیت کے باوجود میں ذہنی طور پر خود اس عمل سے گزرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ کچھ لوگ جو ہپناسِس کے عمل سے گزرتے ہیں، ایسے تجربے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جس کے دوران ان کو سراب یا ذہنی طور پر مافوق الطفرت احساسات کا سامنا ہوا

میری پریشانی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ایسا کچھ بھی نہ ہو اور میں صرف بیس منٹ تک آنکھیں بند کر کے بیٹھا رہوں“

واضح رہے کہ دنیا میں صرف دس سے پندرہ فیصد لوگوں کو اس عمل کے لیے درجہ بندی میں انتہائی حد تک شمار کیا جاتا ہے، یعنی وہ لوگ جن پر ہپناسس کا اثر جلد ہوتا ہے

ہپناسِس کمیونٹی میں یہ گروپ ‘ہائیز’ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کو اس عمل کے دوران بعض اوقات گہرے تجربات ہوتے ہیں۔ تاہم آبادی کی اکثریت کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر کچھ حد تک تو اثر ہوتا ہے لیکن زیادہ مشکل ٹیسٹوں میں وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔ پھر بقیہ دس سے پندرہ فیصد کو ‘لو’ (نیچے) کے نام سے جانا جاتا ہے جن پر تھوڑا بہت اثر ہوتا ہے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ بلکل اثر نہ ہو

آپ چاہے ہائیز میں شمار ہوتے ہیں یا لوز میں، تحقیق بتاتی ہے کہ زندگی بھر آپ کا درجہ تبدیل نہیں ہوگا

امریکہ کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں سنہ 1989 میں ایک تحقیق ہوئی جس کے دوران پچاس طالب علموں کو ہپناسِس کے عمل سے گزارا گیا اور پھر پچیس سال بعد ان پر دوبارہ تجربہ کیا گیا

اس تجربے میں ثابت ہوا کہ ان طالب علموں کے نتائج تقریباً وہی تھے، جو پچیس سال قبل تھے حتیٰ کہ ذہانت کے اسکور سے بھی زیادہ مستحکم ان کے ہپناسس کے نتائج تھے، جن میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی

اس خاصیت کے پیچھے کیا ہے، وہ اب بھی تحقیق کا ایک نیا موضوع ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ اس کی وجہ انسانی دماغ میں موجود ایک نیورو ٹرانسمیٹر (ڈوپامین) ہے جو کیمیائی پیغام رساں کا کام کرتا ہے

ابتدائی تحقیقات میں ڈوپامین کے بننے کے عمل میں سی او ایم ٹی نامی جین (موروثیت کی اکائی) کی طرف اشارہ ملا ہے لیکن حتمی طور پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا

اسی طرح ایک اور نیورو ٹرانسمیٹر، گاما امائی نو بیوٹرک ایسڈ (GABA)، کا تعلق بھی ہپناٹزم سے جوڑا گیا ہے۔ سٹین فورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی ایک اور تحقیق (جسے سپیگل، ڈینیئل اور ان کے ساتھیوں نے شائع کیا) میں معلوم ہوا کہ ایسے لوگ جو با آسانی اس عمل سے متاثر ہوتے ہیں، ان کے دماغ کے اس مخصوص حصے میں اس نیوروٹرانسمیٹر کی موجودگی پائی گئی جو اس عمل میں کردار ادا کرتا ہے

دماغ کا یہ خطہ (anterior cingulate cortex) علمی کنٹرول اور مرضی کی صلاحیت کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے

اس تحقیق میں پتہ چلا کہ گابا نامی نیورو ٹرانسمیٹر، جو دماغی خلیوں کو سست کرتا ہے، اگر دماغ کے اس حصے میں موجود ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہی دماغ کو با آسانی ہپنوسس کے عمل میں جانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے

مارتھا ہینریکس کے مطابق ”ڈیوین ٹیرہون کے دفتر جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ ایک بار ایک کتاب پڑھتے ہوئے میں نئی نوکری کے لیے انٹرویو پر تاخیر سے پہنچا تھا، جب میں نے غلط سمت کی ٹرین پکڑ لی تھی

میں نے یہ بھی سوچا کہ سینیما میں کسی بھی ڈراؤنی چیز کو دیکھنے سے اجتناب کرتا ہوں، جب سے ہیری پوٹر اینڈ سیکرٹ چیمبر دیکھتے ہوئے میرے منہ سے اچانک ایک چیخ نکل گئی تھی

عین ممکن ہے کہ مجھ پر یہ عمل بلکل بھی کارآمد ثابت نہ ہو

غیر ارادی ردعمل
ڈیوین ٹیرہون کے دفتر میں پہنچا تو انہوں نے پہلے مجھ سے کچھ بنیادی ٹیسٹ کرنے کی اجازت لی تاکہ وہ جاچ سکیں کہ یہ عمل مجھ پر کس حد تک اثر انداز ہوگا

انہوں نے سامنے ایک وائٹ بورڈ پر ایک چھوٹا نشان لگایا اور مجھے اس پر نظر مرکوز کرنے کو کہا

ساتھ ہی انہوں نے دھیمی آواز میں ایک اسکرپٹ پڑھنا شروع کیا: ’میں آپ کو پرسکون کر رہا ہوں۔ میں آپ کو چند ہدایات دوں گا، جن سے آپ ہپناسس کی کیفیت میں داخل ہوں گے۔ اس دوران اس نشان پر توجہ مبذول رکھیں۔ برائے مہربانی اس نشان کو دیکھتے رہیں اور میرے الفاظ کو سنتے رہیں‘

چند ہی منٹوں میں میری آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور میں پرسکون محسوس کرنے لگا۔ غیر معمولی طور پر پرسکون۔ سب سے پہلے مجھے اپنے چہرے پر اس کا اثر محسوس ہوا جب میری مسکراہٹ ختم ہونے لگی۔ پھر مجھے اپنے کندھوں پر دباؤ کم ہوتا محسوس ہوا۔ میں نے کشن پر ٹیک لگا لی

میں پرسکون ضرور تھا لیکن میرے ارد گرد کیا ہو رہا تھا، اس کا مجھے مکمل احساس تھا اور میرا دماغ مکمل طور پر خالی نہیں تھا۔ میرے ذہن میں مختلف خیالات آ رہے تھے، جب انہوں نے مجھے کہا کہ میں اپنی توجہ صرف ان کی آواز پر رکھوں

ٹیرہون نے جب مجھے کہا کہ میں اپنا بازو اپنے کندھے کی سطح پر باہر کی جانب نکالوں تو میں انتظار کرنے لگا کہ میرا بازو کب خود سے حرکت میں آئے گا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ابھی آپ صرف خود سے بازو کو باہر نکالیں

پھر انہوں نے کہا ’آپ اپنے ہاتھ پر بہت توجہ دیں کہ کیسا محسوس ہو رہا ہے۔ کیا اس میں گدگدی تو نہیں ہو رہی، یا یہ سن تو نہیں محسوس ہو رہا؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ تصور کریں کہ آپ کے ہاتھ میں انتہائی بھاری شے ہے۔ آپ کا بازو اور ہاتھ بہت بھاری محسوس ہو رہے ہیں، جیسے اس میں کتاب پکڑی ہوئی ہو‘

اچانک ایسا لگا کہ میرے ہاتھ میں کتاب آ چکی ہے۔ بند آنکھوں سے ہی مجھے اس کا وزن محسوس ہونے لگا

پھر انہوں نے کہا کہ ’آہستہ آہستہ یہ وزن بڑھ رہا ہے، آپ کا ہاتھ اور نیچے جا رہا ہے‘

اور ایسا ہی ہوا۔ ابھی ان کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ میرا ہاتھ صوفے کو جا لگا۔ میں پرسکوں تھا لیکن سوچ رہا تھا کہ یہ کتنی عجیب بات ہوئی ہے

اس کے بعد ایک اور ٹیسٹ ہوا ،جس میں ٹیرہون نے کہا کہ میں سو چکا ہوں اور مجھے اس عمل سے متعلق خواب آ رہا ہے۔ مجھے نیند سی محسوس ہوئی۔ تھوڑی دیر کے لیے ایک سفید اسکوٹش ٹیریئر کتا ایک سبز کھیت میں کھیلتا ہوا نظر آیا لیکن یہ پورا خواب نہیں تھا بلکہ ایسا تھا کہ نیند میں جانے سے قبل آپ کا دماغ کہیں دور جانا شروع کر دے

چند اور ٹیسٹ کے بعد میرے ذہن میں آیا کہ اگر میں ان کی بات نہ مانوں تو کیا ہوگا۔ جب انہوں نے کہا کہ میں اپنے بازو باہر کی جانب کھولوں تو میں نے کوشش کی کہ میرے ہاتھوں کی پتھیلایں قریب آ جائیں لیکن ایسا کرنا مشکل تھا۔ میرے بازو اس طرح کھل گئے کہ اس سے زیادہ نہیں کھل سکتے تھے

آخری ٹیسٹ کے دوران انہوں نے کہا کہ میرا بایاں بازو انتہائی وزنی محسوس ہو رہا ہے اور میں نے کوشش کی کہ میں اس بازو کو اپنی گود سے نکالوں۔ لیکن یہ بھی بہت مشکل تھا۔ میں نے کوشش کی اور میں اپنا ہاتھ چند انچ اوپر اٹھا سکا

ٹیسٹ ختم ہونے پر انھوں نے بیس تک گنتی گنی تاکہ میں اس خواب آوری کی کیفیت سے باہر نکلوں۔ پانچ پر میری آنکھیں کھل گئیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں بہت زیادہ دیر تک سویا ہوں

ٹیرہون نے مجھے بتایا کہ ان ٹیسٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ میرا شمار درمیانے درجے کی حد بندی میں ہوتا ہے

کچھ ایسے ٹیسٹ بھی تھے جو انہوں نے مجھ پر نہیں کیے لیکن اگر آپ کبھی اس عمل سے نہیں گزرے تو بہت حد تک آپ کا تجربہ بھی کچھ ایسا ہی ہوگا، جیسا میرا تھا

گھر واپسی کے سفر کے دوران، ٹرین میں، بھی میں کافی پر سکون محسوس کر رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اس سارے عمل سے گزرنے کے باوجود ہپناسس سے جڑے سائنسی شواہد کے بارے میں کافی سولات اٹھائے جاتے ہیں۔ میرا تجربہ بھی کچھ ایسا تھا جو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا۔ اسی لیے مجھے اس تجربے اور اس سے جڑے علم کے بارے میں مذید جاننے کا شوق پیدا ہو“

ہپناٹائزڈ دماغ

مشہور اسٹروپ ٹیسٹ کچھ مددگار ثبوت پیش کرتا ہے۔ یہ ٹیسٹ اس بات کی پیمائش کرتا ہے کہ جب ایک رنگ کا نام کسی دوسرے رنگ سے لکھا جائے تو اس رنگ کی شناخت کرنے میں لوگوں کو کتنی مشکل پیش آتی ہے

مثال کے طور پر نیلی روشنائی میں لکھے ہوئے لفظ ‘سرخ’ کا تصور کیجیے۔ لوگوں کو یہ کہنے میں زیادہ وقت لگتا ہے کہ روشنائی نیلی ہے جب کہ وہ روشنائی سرخ رنگ کا ذکر کر رہی ہو

جب ہپناٹائزڈ شرکاء کو بتایا گیا کہ وہ مزید پڑھنے کے قابل نہیں ہیں تو حروف بے معنی شکلیں بن گئیں اور اس طرح وہ بے ربط الفاظ کے رنگ کی شناخت کرنے میں تیزی سے کام لیتے ہیں، کیونکہ اب الفاظ ان کی توجہ ہٹا نہیں سکتے تھے

اگر کسی شخص کو غیر ارادی ردعمل کے بجائے جھوٹا ردعمل دینے کو کہا جائے، تب بھی دماغ کی سرگرمی میں تبدیلی دیکھی جاتی ہے

ایک تجربے میں بارہ صحت مند شرکا کے دماغ کے کچھ حصوں میں میٹابولک سرگرمی کی پیمائش کرنے کے لیے، پوزیٹرون ایمیشن ٹوموگرافی (PET) اسکینر کے ذریعے جائزہ لیا گیا

ٹیسٹوں کے ایک سیٹ میں، انہیں یہ ہدایت دی گئی تھی کہ وہ یہ ظاہر کریں کہ وہ اپنی ٹانگ کو حرکت دینے سے قاصر ہیں۔ ٹیسٹوں کے ایک اور سیٹ میں، ان لوگوں کو ہپناٹائز کیا گیا اور یہ مشورہ دیا گیا کہ ان کی ٹانگ مفلوج ہو گئی ہے

دماغی امیجنگ اسٹڈیز سے پتہ چلا کہ دماغ کے الگ الگ علاقے دونوں صورتوں میں متحرک ہوئے تھے

کچھ عرصہ بعد ہپناٹزم اور جعلی حرکت کے سوال پر ایک اور تحقیق ہوئی، جس میں ایم آر آئی اسکینر کا استعمال کیا گیا۔اس بار محققین نے دیکھا کہ دماغ کے موٹر کارٹیکس، (جسم کی حرکات کو کنٹرول کرنے والا حصہ) میں ہپناسِس کے تحت مریضوں میں سرگرمی دکھائی

اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہپناٹائزڈ لوگ واقعی اپنے اعضاء کو حرکت دینے کی کوشش کرنے کی تیاری کر رہے تھے، باوجود اس کے کہ اس گروپ سے زیادہ حرکت نہ ہو سکی، جو اعضاء کے فالج کا دعویٰ کر رہے تھے

تو کیا ہپناٹائزڈ دماغ کی کوئی خاص نشانیاں ہیں، جو ہپناسِس کے ردعمل کے عجیب و غریب احساس اور تجربات کی وضاحت کر سکتی ہیں؟ یہ تحقیق ماہرین کے لیے ایک نیا موضوع ہے

اسپیگل کا کہنا ہے کہ کہانی کا کچھ حصہ دماغ کے سیلینس نیٹ ورک میں پایا جا سکتا ہے۔ یہ نیٹ ورک اس بات کی نشاندہی کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ ہم ماحول کے کن پہلوؤں پر توجہ دینے کے قابل ہیں – سینسری ڈیٹا کے ان حصوں سے متعلقہ معلومات کو نکالنا ، جو ہمارے دماغ میں دن کے ہر سیکنڈ میں ڈوب جاتے ہیں

ایک تجربے میں اسپیگل اور ان کے ساتھیوں نے اپنے دماغ کو اسکین کرتے ہوئے ‘ہائی’ اور ‘لو’ دونوں کو ہپناٹائز کیا۔ ہپناسس کے دوران سیلینس نیٹ ورک میں ‘ہائی’ نے سرگرمی کو کم کر دیا تھا۔ اسپیگل کہتے ہیں کہ ‘جب ایسا ہوتا ہے، تو آپ اس بارے میں کم فکر مند ہوتے ہیں کہ اور کیا ہو رہا ہے۔ یہ آپ کو باقی دنیا سے منقطع ہونے کی اجازت دیتا ہے‘

تجربہ گاہ (لیب) سے کلینک تک

ایک جانب جب محققین ہپناسِس کی تفصیلات کا جائزہ لے رہے ہیں، تو دوسری طرف طبی ماہرین اس کے اثرات کا استعمال کر رہے ہیں، جیسا کہ وہ صدیوں سے کرتے آئے ہیں

شاید ہپناسِس کے لیے بہترین دریافت شدہ طبی استعمال ‘بغیر دوائیوں کے درد پر قابو پانے کا طلسماتی استعمال’ ہے۔ متعدد میٹا تجزیہ (تحقیقی مقالے جو مطالعہ کی ایک جامع رینج کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہیں) نے مستقل نتائج حاصل کیے ہیں

جن شرکاء کو ہپناٹائز کیا گیا ہے، وہ تقریباً 73 فیصد کنٹرول شرکاء کے مقابلے میں زیادہ درد سے نجات کا تجربہ کرتے ہیں۔ درد سے نجات کے لیے ہپناسِس پر پینتالیس ٹرائلز کے ایک حالیہ میٹا تجزیہ حاصل ہوا

سنہ 2000ع کی دہائی کے اوائل کے دو میٹا تجزیوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ہپناسِس معیاری نگہداشت سے بہتر تھا اور اسے زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال کرنے پر زور دیا گیا

لیکن یہ اثرات مساوی نہیں ہیں۔ ٹرہیون سمیت مصنفین کے 85 کنٹرول شدہ تجرباتی مطالعات کے جائزے کے مطابق، کوئی جتنا زیادہ ہپناٹائزیبل ہوگا، اس کے درد میں اتنی ہی زیادہ کمی ہوگی

کچھ انتہائی دلچسپ نتائج دائمی یا دیرپا درد کے دائرے میں ہیں، جن کی تعریف تین ماہ سے زائد عرصے تک رہنے والے درد کے طور پر کی گئی ہے۔ برطانیہ میں، 13 سے 15 فیصد کے درمیان لوگ ایسے درد کا تجربہ کرتے ہیں، جبکہ امریکا میں، تقریباً ایک تہائی لوگ کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر تقریباً دو ارب لوگ بار بار تناؤ کے سر درد کا تجربہ کرتے ہیں، جو دائمی درد کی سب سے عام قسم ہے

اپنی نوعیت کے مطابق، دائمی درد کا علاج دوائیوں سے کرنا خاص طور پر مشکل ہے، کیونکہ اوپیئڈ اینالجیزکس نشہ آور ہوتے ہیں

ہپناسِس کو درد کی شدت اور روزمرہ کی زندگی میں اس کی مداخلت دونوں کو کم کرنے کے لیے دکھایا گیا ہے، نو بے ترتیب کنٹرول ٹرائلز کا ایک میٹا تجزیہ پایا گیا، جس میں آٹھ یا اس سے زیادہ سیشن حاصل کرنے والے مریضوں کو درد میں نمایاں ریلیف ملا

سنہ 2000ع میں اسپیگل نے دو سو اکتالیس مریضوں میں ہپنوٹک اینالجیزیا کا بے ترتیب ٹرائل کیا، جو عام بے ہوشی کی دوا کے بغیر ناگوار سرجری کے طریقہ کار سے گزر رہے تھے۔ مریضوں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا، ایک گروپ کو معیاری دیکھ بھال ملی، ایک کو ایک دوستانہ نرس ملی تھی، جو اضافی مدد فراہم کرتی تھی، اور ایک کو ہپناٹائز کیا گیا تھا

تینوں گروہوں کے پاس ایک بٹن تک رسائی تھی، جس کے ساتھ وہ فینٹینیل، طاقتور اوپیئڈ درد کش دوا، اور مڈازولم، ایک ایسی دوا جو غنودگی اور بھولپن کا باعث بنتی ہے، کی کاک ٹیل خود چلا سکتے تھے

طریقہ کار سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں ہر پندرہ منٹ بعد، مریضوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے درد اور اضطراب کی سطح کو صفر (پرسکون اور درد سے پاک) سے 10 (گہرا خوف، اضطراب اور درد) کر دیں

جس کو معیاری دیکھ بھال میسر تھی، انہوں نے ادویات کا دیگر گروہوں کی نسبت دوگنا استعمال کیا۔ ان کے آپریشن پر بھی سب سے زیادہ وقت لگا، جب کہ ہپناٹائزڈ گروپ کے آپریشن پر سب سے کم وقت لگا

اسپیگل کہتے ہیں ”ہپناٹائزڈ گروپ میں تشویش سب سے کم پائی گئی“

لیکن اس تحقیق کے نتائج شائع ہونے کے باوجود ہپناسس کے طبی استعمال میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا

اب اسپیگل نے ایک ایسی ایپ بنائی ہے، جس کے تحت لوگ خود ہی ہیپناسس کے عمل سے گزر سکتے ہیں

لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس عمل کی افادیت کے باوجود اس کے طبی استعمال کی رفتار سست کیوں ہے؟

جبر کا سوال

زیادہ تر تحفظات افادیت کے ثبوت کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ ہپنوٹک ردعمل کی غیر ارادی نوعیت کے بارے میں خدشات اور غلط فہمیوں کی وجہ سے ہیں

ٹریہون ان خدشات کو خرافات قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ”یہ کہنا کہ اگر آپ میرے ساتھ ہپناسِس کے سیشن میں آتے ہیں تو میں آپ کو کنٹرول کر سکتا ہوں، آپ کو ناپسندیدہ کام کرنے پر مجبور کر سکتا ہوں، اس کا ثبوت بہت ناقص ہے“

محقق بارنیئر کہتے ہیں کہ اس سے وابستہ ’جادو ٹونے کی باتوں‘ (kookie) کی وجہ سے اس کی طویل شہرت کے باوجود، ہم روزمرہ کی زندگی میں ہپناسِس کے تجربات سے گزرتے ہیں

بہت سے لوگوں کے لیے اچھی کتاب میں کھو جانا، یا کسی فلم (شاید ہیری پوٹر کی فلم بھی) میں انتا جذب ہو جانا ایک معمول کی بات ہے۔ یا شاید آپ اپنے آپ کو سڑک کے نشانات سے غافل پاتے ہیں، جب آپ موٹر وے پر گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں

بارنیئر کہتے ہیں کہ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے تو آپ نے ایسی چیز کا تجربہ کیا ہے، جو ہپناسِس سے مختلف نہیں۔ یہاں تک کہ آپ کے سمارٹ فون میں جذب ہو کر کھو جانے اور ہپناسِس ہونے کے درمیان بھی کئی مماثلتیں ہیں۔ دونوں وقت کے ادراک کو مسخ کرتے ہیں، آپ کے بیرونی ماحول کے بارے میں بیداری کو کم کرتے ہیں، اور اپنے با اختیار ہونے والی ایجنسی کا احساس کم کرتے ہیں (یہ احساس کہ آپ اسکرولنگ کو روک نہیں سکتے)

لیکن اگر آپ اکثر اس قسم کے گہرے طور پر جذب ہو جانے کا تجربہ نہیں کرتے ہیں تو یہ بھی عام بات ہے۔ بارنیئر کا کہنا ہے ”یہ بالکل اسی طرح ہے، جیسے باہر کی دنیا یا چیزوں میں دلچسپی رکھنے (extraversion) یا اندر کی دنیا میں جذب ہوجانے (introversion) کے درمیان کا فرق۔ کچھ لوگ اپنے اندر کی دنیا میں مختلف طریقوں سے رہ رہے ہیں“

اسی طرح ہپناسِس روزمرہ کی دنیا کے تجربات سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے، طبی مداخلت کے طور پر اس میں دوسرے آلات کے ساتھ بہت کچھ مشترک ہے۔ ایک سوئی اور سرنج، یا ایک نِشتر لیں – اگر یہ غلط ہاتھوں میں ہوں تو ان میں ہر ایک بہت زیادہ نقصان پہنچانے کی صلاحیت کی حامل ہے۔ لیکن ہنر مند کے ہاتھوں میں وہ اچھے کام اور مقصد کے لیے بہت موثر ٹُولز ہو سکتے ہیں۔

(اس رپورٹ کی تیاری کے لیے مارتھا ہینریکس کے بی بی سی فیوچر میں شائع ہونے والے فیچر سے مدد لی گئی ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close