بلوچستان: نوجوان نے سیلاب میں پھنسے افراد کو کیسے بچایا؟ وڈیو وائرل

ویب ڈیسک

بلوچستان کے ضلع لورالائی میں ایک بہادر نوجوان نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر سیلاب میں پھنسے ہوئے افراد کی جان بچا لی

یہ واقعہ ہفتے کو لورالائی کے علاقے کس ڈیم کے قریب پیش آیا، جہاں موسلادھار بارشوں کے بعد آنے والے سیلابی ریلے میں ایک گاڑی پھنس گئی، جس میں پانچ لوگ سوار تھے

قریب تھا کہ پانی کا تیز بہاؤ گاڑی اور اس میں سوار لوگوں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا، اتنے میں کوئلے کی ایک کان کے ٹھیکیدار اور لورالائی کے رہائشی عطا الرحمان لونی وہاں پہنچے اور پھنسے ہوئے افراد کو بچایا

واقعے کے مطابق 23 جولائی کو بلوچستان کے ضلع لورالائی میں کوئٹہ روڈ پر ڈیم کے قریب ایک سیلابی ریلے میں وہاں کئی لوگوں کی طرح محمد اکبر کاکڑ اور ان کے چار ساتھی بُری طرح پھنس چکے تھے

پیشے کے لحاظ سے باغات کے ٹھیکیدار محمد اکبر خود یہ گاڑی چلا رہے تھے، جو پانی کے تیز بہاؤں میں بےقابو ہوگئی تھی۔ گاڑی میں موجود افراد اندر محفوظ تھے نہ باہر

وہ بتاتے ہیں ”پانی گاڑی کے شیشوں تک پہنچ چکا تھا،روڈ پر بہت لوگ کھڑے تھے۔ ہم لوگ خوفزدہ ہو چکے تھے۔ اللہ کو یاد کر کے کسی مدد کے منتظر تھے۔۔۔“

اکبر یاد کرتے ہیں کہ جب وہ اپنی چھوٹی سفید کار لے کر پانی میں داخل ہوئے تو ’پانی اتنا زیادہ نہیں تھا۔ مگر اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔‘ انہیں ایسا لگا جیسے ’پانی گاڑی کو اپنے رُخ پر چلانے کی کوشش کر رہا تھا‘

’شاید ہم درمیان میں پہنچے تو گاڑی جواب دے گئی اور پانی بڑھتے بڑھتے ہمارے شیشوں تک پہنچ گیا۔ ہم ایک خطرناک صورتحال میں پھنس چکے تھے۔‘

اس واقعے کی وڈیو گذشتہ دنوں انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی ہے۔ اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب ان کے بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہوتی تو اچانک سیلابی ریلے میں ان کی مدد کے لیے ایک کالے رنگ کی بڑی ٹویوٹا فورچونر کار پہنچ جاتی ہے اور پانی میں پھنسے لوگوں کو شیشے نیچے کر کے اس میں منتقل کر دیا جاتا ہے

وڈیو  لنک

https://m.facebook.com/asifkhan.kakar.7545/videos/348413664151123/

جان پر کھیل کر کیے جانے والے اس ’ریسکیو آپریشن‘ کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد لوگ عطا الرحمان کی بہادری کو سراہ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے انہیں مسیحا قرار دیا ہے

واقعے کے عینی شاہد نجیب اللہ کا کہنا تھا کہ ’جب گاڑی پانی میں جا رہی تھی تو ہم لوگوں نے ان کو آواز دے کر روکنے کی کوشش کی مگر شاید ان تک آواز نہیں پہنچی۔‘

محمد اکبر کہتے ہیں کہ ’کچھ فاصلے پر ہمارے مزدور انتظار کر رہے تھے۔ ان کو کام پر پہنچانا تھا۔ سیلابی ریلا شروع ہوا تو سوچا کہ یہ تو اب بڑھتا جائے گا۔ تھوڑی دیر بعد شاید اس میں سے گزرنا بالکل ہی ممکن نہ ہو۔ ابھی پانی کم ہے۔ یہی سوچ کر گاڑی کو پانی میں ڈال دیا تھا۔۔ شاید یہی ہماری غلطی تھی کہ ایک تو پانی کم نہیں تھا، دوسرا وہ سیکنڈوں کے حساب سے بڑھتا جا رہا تھا‘

نجیب اللہ کہتے ہیں کہ ’ہم لوگ واپس آنے والے حاجیوں کے استقبال کے لیے جا رہے تھے۔ جب سیلابی ریلا دیکھا تو دوستوں نے مشورہ کیا کہ کچھ دیر رُک جاتے ہیں اور کچھ کھانا پینا کرلیتے ہیں۔ ہم سب لوگ گاڑی سے نیچے اتر آئے تھے۔ اس موقع پر کافی گاڑیاں کھڑی ہوچکی تھیں۔ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ کی گاڑی پانی میں اتر رہی ہے۔ ہم سمیت مختلف لوگوں نے انہیں آوازیں دے کر روکنے کی کوشش کی مگر شاید ان تک آواز نہیں پہنچی۔ وہ شروع میں تو پانی میں ٹھیک جا رہے تھے مگر پانی بڑھتا جا رہا تھا‘

’ہم نے واضح طور پر دیکھا کہ گاڑی ڈرائیور کے کنٹرول میں نہیں رہی۔ پانی اس کو اپنے زور پر بہا کر لے جا رہا تھا۔ پھر گاڑی ایک مقام پر رک گئی۔ پانی تیز اور اوپر ہی ہوتا جا رہا تھا‘

اتنے میں ان کی مدد کو عطا الرحمان لونی اپنی گاڑی کو لے کر وہاں پہنچ گئے۔ جن کے بارے میں اکبر کا کہنا ہے ”وہ رحمت کا فرشتہ بن کر پہنچے تھے، جنہوں نے نہ صرف ہمارا حوصلہ بڑھایا بلکہ ہماری زندگیاں بچا کر انسانیت کا ثبوت بھی دیا“

عینی شاہد نجیب اللہ کہتے ہیں کہ اس موقع پر عطا الرحمان لونی کے ساتھ موجود دوستوں نے ان سے کہا کہ ’ہم بھی ساتھ چلتے ہیں۔‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’نہیں! یہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ میں تنہا ہی جاتا ہوں۔ آپ لوگ رسیوں وغیرہ کا انتظام کریں‘

ٹھیکیدار عطا الرحمان ایک کاروباری شخصیت ہونے کے علاوہ فلاحی کارکن اور ایک مقامی تنظیم ’انجمن نوجواں فلاح‘ کے صدر بھی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ان لوگوں کی گاڑی پانی میں پھنسی تو گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی زندگیاں خطرے کا شکار ہوگئیں تھیں

عطا الرحمان لونی نے بتایا کہ بتایا کہ وہ حج سے واپس آنے والی اپنی والدہ کے استقبال کے لیے جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ دوستوں کے ساتھ کھانے کے لیے رکے سیلابی ریلے کی وجہ سے وہاں اور بھی لوگ رکے ہوئے تھے مگر ایک گاڑی آئی اور اس میں سوار لوگوں نے کہا کہ وہ رات یہاں نہیں گزار سکتے اس لیے انہوں نے سیلابی ریلے میں گاڑی ڈال کر آگے جانے کی کوشش کی

’میں نے لمحوں میں فیصلہ کیا کہ میرے پاس بڑی، طاقتور انجن کی جدید گاڑی ہے، جس میں فور وہیل ڈرائیو کی سہولت بھی ہے تو مجھے ان کی مدد کرنی چاہیے۔‘

انہیں ان کے دوستوں نے بتایا کہ ’پانی کا ریلا تیز اور اونچا ہو رہا ہے۔ گاڑی لے کر پانی میں مت جائیں، خطرہ ہوگا۔ مگر میں نے جواب دیا کہ اب تو انسانی زندگیوں کا سوال ہے، مجھے جانا ہی ہوگا۔‘

اور اسی خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی یہ نئی گاڑی سیلابی ریلے میں اتارنے کا فیصلہ کیا جو انہوں نے بہت شوق سے لی تھی اور اس کا بہت خیال بھی رکھتے تھے۔ دوستوں کی تنبیہ کے باوجود کہ ’پانی میں گاڑی خراب ہوجائے گی‘، انہوں نے ’اللہ کا نام لے کر گاڑی کو پانی میں ڈال دیا۔‘

’میں نے اپنے دوستوں کو کہا کہ یہ لوگ ڈوب رہے ہیں اس لیے میں انہیں بچانے کے لیے جاؤں گا۔ دوستوں نے منع کیا مگر میں نے کہا کہ میری گاڑی بھاری ہے اور پانی کے بہاؤ کو برداشت کر لے گی۔‘

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’پانی میں چند سیکنڈ چلنے کے بعد میری گاڑی کو جھٹکے لگنا شروع ہوگئے اور مجھے چکر آنے لگے۔ پھنسی ہوئی گاڑی کو دیکھا، اپنی آنکھیں بند کیں، گاڑی کو فور وہیل پر لگایا اور آگے بڑھ گیا‘

مگر آگے جاتے جاتے انہیں احساس ہوا کہ پانی کسی ندی کی طرح گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے پھنسی ہوئی گاڑی کے قریب پہنچ گئے

’گاڑی جیسے کچھ آگے گئی تو پانی کا بہاؤ اتنا زیادہ ہو گیا کہ گاڑی ڈوبنے لگی‘

ان کا کہنا ہے ’اب صورتحال یہ تھی کہ پانی (کے دباؤ) کی وجہ سے دونوں گاڑیوں کے دروازے نہیں کھل سکتے تھے۔‘

عطا الرحمان لونی کے مطابق گاڑی کی چھت پر بیٹھے افراد انتہائی بے بس دکھائی دے رہے تھے۔ وہ موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے تھے۔ ’میں نے انہیں آواز لگائی کہ پریشان نہ ہوں میں پہنچ رہا ہوں اور دوستوں کے منع کرنے کے باوجود گاڑی پانی میں ڈال دی۔‘

عطاالرحمان نے بتایا کہ ’جب وہ گاڑی کے قریب پہنچے تو پھنسے ہوئے افراد میں شامل ایک بزرگ کا چہرہ خوف کی وجہ سے انتہائی زرد ہوچکا تھا۔ میں نے انہیں تسلی دی۔‘

’وہ اتنے خوفزدہ ہوچکے تھے کہ ان سے اپنی گاڑی کا شیشہ بھی نہیں کھل رہا تھا۔ میں نے انہیں کچھ حوصلہ دیا۔ شیشہ کھل گیا مگر گاڑی ہچکولے لے رہی تھی۔‘

اب دونوں کے ذہن میں یہی سوال تھا کہ ایک کار سے دوسری میں انہیں منتقل کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ’تاہم ان میں سے ایک بندے نے ہمت کی تو باقی بھی ہمت کرنے لگے۔‘

محمد اکبر کہتے ہیں کہ ’میں خود ڈرائیونگ سیٹ پر موجود تھا۔ ہمیں خطرناک پانی میں پھنسے ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا۔ کچھ ہمت جواب دے رہی تھی۔ کچھ بھی کرنے کے لیے ہمت کی ضرورت تھی۔ ہمیں ٹھیکدار صاحب بار بار کہہ رہے تھے کہ ہمت کریں اور منتقل ہو جائیں۔‘

’میں نے سوچا کہ مجھے ہی ہمت کرنا ہوگی۔ ایک لمبی سانس بھری اور پھر اپنی گاڑی کے شیشے سے نکل کر ٹھیکدار صاحب کی گاڑی کے شیشے میں سے اس میں منتقل ہوگیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ باقیوں نے بھی ان کی پیروی کی اور وہ تمام لوگ خطرے سے کچھ حد تک باہر نکل آئے۔

نجیب اللہ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ مرکزی شاہراہ پر پیش آیا تھا۔ وہاں پر بہت سی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ’جب ٹھیکدار عطا الرحمان لونی گاڑی لے کر پانی میں اتر گئے تو وہاں پر موجود لوگوں نے رسیوں کو باندھنا شروع کردیا اور پھر دو سے تین لوگوں کو رسیوں سے باندھ کر پانی میں اتارا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان لوگوں نے اس رسی کو ٹھیکدار عطا الرحمان لونی کی گاڑی سے باندھا اور پھر پھنسی ہوئی گاڑی میں سے اترنے والے پہلے شخص کو رسی سے باندھا گیا اور ہم سب لوگوں نے اس کو کھینچ کر محفوظ مقام تک پہنچایا۔‘

نجیب اللہ بتاتے ہیں کہ اسی طرح دوسرے بندے کو بھی کنارے پر پہنچایا گیا جبکہ باقی تینوں کو ٹھیکدار صاحب نے اپنی گاڑی میں بٹھا کر کنارے پر پہنچا دیا

لونی کہتے ہیں کہ ’اس وقت مجھے کچھ یاد نہیں تھا، بس ایک ہی بات ذہن میں تھی کہ میرے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ میں ان لوگوں کو بچانے کی کوشش کرسکوں تو مجھے ضرور کرنا چاہیے۔ اس بات کی بے انتہا خوشی ہے کہ میں انسانی جانیں بچانے کا سبب بنا۔‘

’مگر ایسا صرف میں نے ہی نہیں کیا بلکہ موقع پر موجود کئی لوگوں نے مدد کی۔ کسی نے رسی فراہم کی تو کسی نے رسیوں کی مدد سے ان کو باہر لانے میں کردار ادا کیا۔ ہر ایک شخص نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔‘

وہ کہتے ہیں ’میں نے ایسا صرف انسانیت کی خاطر کیا کیونکہ میں اپنے سامنے پانچ لوگوں کو ڈوبتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔‘

عطا الرحمان لونی کا مزید کہنا تھا کہ ’موت کا خوف ہر کسی کو ہوتا ہے مگر انسانیت کا جذبہ ہو تو وہ اس خوف پر غالب آ جاتا ہے اس لیے مجھے اپنی جان کی فکر نہیں ہوئی۔ مجھے خوشی ہے کہ میری وجہ سے پانچ لوگوں کی جان بچ گئی اور وہ اپنے گھروں کو صحیح سلامت پہنچے۔‘

ڈپٹی کمشنر لورالائی عتیق الرحمان شاہوانی نے بتایا کہ عطاء الرحمان نے انتہائی دلیری اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ ان کا قربانی کا جذبہ اور کردار لوگوں کے لئے مثال ہے۔
’عطا الرحمان کی حوصلہ افزائی کے لیے ضلعی انتظامیہ نے انہیں تعریفی سرٹیفکیٹ دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close