خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں حالیہ دنوں میں جنگلات میں پے در پے آگ لگنے کے واقعات میں انسانی جانوں کے زیاں کے علاوہ بھاری مالی اور ماحولیاتی نقصان بھی ہو رہا ہے
ریسکیو 1122 کی رپورٹ کے مطابق رواں ماہ کے پہلے ہفتے کے دوران چھوٹے بڑے جنگلات و پہاڑی سلسلوں میں چار سو سے زائد مقامات پر لگی آگ پر قابو پایا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ مئی میں صوبے کے مختلف علاقوں کے جنگلات میں آگ لگنے کے تین سو سے زائد واقعات سامنے آئے تھے
ریسکیو 1122 کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران صوبے کے پچیس مختلف اضلاع میں پہاڑی سلسلوں پر لگی آگ پر قابو پایا ہے۔ سب سے زیادہ ایبٹ آباد میں 148 مقامات پر آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ بونیر 81، مانسہرہ 50، سوات 34، ہنگو 17، لوئر دیر 11، شانگلہ 11، مہمند 15 اور ہری پور کے 13 مقامات پر آگ لگی
رواں ماہ 6 جون کو خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں جنگل میں آگ لگنے سے ایک ہی خاندان کے چار افراد جھلس کر جاں بحق ہوگئے تھے
آتشزدگی کے ان سیکڑوں واقعات کی وجوہات کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ گرمی کی شدت بھی آگ لگنے کی وجہ ہے، تاہم پے در پے اور اتنے زیادہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جان بوجھ کر بھی آگ لگائی جا رہی ہے اور صوبہ بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جنگلات کو آگ لگانے کے واقعات میں ملوث بارہ افراد کو گرفتار کر کے مقدمات درج کر لئے ہیں
ضلع شانگلہ میں پولیس نے انٹیلیجنس بیسڈ معلومات پر کارروائی کرتے ہوئے ضلع بھر میں مختلف مقامات پر آگ لگانے میں ملوث تین ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے
گرفتار ملزمان میں حسین احمد کو جنگلات میں آگ لگانے پر اسسٹنٹ کمشنر بشام نے ایک لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ پابند سلاسل کیا جبکہ دوسرے ملزم باز محمد کو کمپارٹمنٹ نمبر 4 کنڈال منگہ کے جنگلات میں آگ لگانے کے الزام میں مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا
ضلعی پولیس نے جاری بیان میں کہا ہے کہ گرفتار ملزمان بشام، مارتونگ اور چکیسر کے پہاڑوں کو آگ لگانے میں ملوث تھے
محکمہ اطلاعات خیبرپختونخوا کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ کئی افراد نے جان بوجھ کر اپنے ذاتی ملکیتی جنگلات کو آگ لگائی تاکہ حکومت سے ان نقصانات کے ازالے کے لئے لاکھوں روپے معاوضہ بٹورا جا سکے
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مختلف موسمی حالات کے جنگلات اور پہاڑ واقع ہیں، ان میں کچھ ایسے ہیں جہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں اور سخت گرمیوں میں بھی موسم معتدل رہتے ہیں، ان علاقوں میں نمی زیادہ پائی جاتی ہے جس وجہ سے ان علاقوں میں آگ لگنے کے واقعات کم پیش آتے ہیں
ماہرین نے بتایا کہ اس کے علاوہ ایسے علاقے بھی ہیں، جہاں موسم انتہائی خشک رہتا ہے اور بارشیں نہ ہونے یا انتہائی کم ہونے کی وجہ سے پودے اور جنگلات خشک ہوجاتے ہیں، ان علاقوں میں آگ لگنے کے واقعات زیادہ پیش آ رہے ہیں
گزشتہ روز شانگلہ کے علاقے چکیسر کے جنگلات میں لگی آگ بجھانے میں ریسکیو اہلکار نظام اللہ شہید ہوگیا۔ نظام اللہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑ پر موجود جنگل میں لگی آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں شہید ہو گئے تھے
ڈی جی ریسکیو ڈاکٹر خطیر احمد کا کہنا ہے کہ ریسکیو 1122 اہلکار تین گھنٹوں سے زائد پیدل مسافت کرتے ہوئے آگ کے مقام پر پہنچتے تھے، جنگلات میں آگ بجھانے کے دوران متعدد اہلکار جھلس کر زخمی بھی ہوئے
وزیراعلیٰ خیبرپخونخوا محمود خان نے بھی دوران فرائض شہید ہونے والے ریسکیو اہلکار کی فرض شناسی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ نظام اللہ نے فرائض منصبی کی ادائیگی میں جان کی قربانی دی
محمود خان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت شہید اہلکار کے اہل خانہ کو تنہا نہیں چھوڑے گی اور ان کی ہر ممکن معاونت کی جائے گی
ریسکیو 1122 خبیرپختونخوا کے ترجمان بلال احمد نے بتایا کہ جنگلات میں لگنے والی آگ بجھانے کی بنیادی ذمہ داری محکمہ جنگلات اور وائلڈ لائف والوں کی ہے تاہم مقامی آبادیوں کی شکایت پر ہم نے یہ بیڑہ اٹھایا ہوا ہے
بلال احمد کا کہنا تھا کہ ریسکیو اہلکاروں کو تین مہینے کی ٹریننگ دی جاتی ہے، جس میں میڈیکل ایمرجنسی، آبادیوں میں لگنے والی آگ اور ڈیزاسٹر شامل ہیں
انہوں نے کہا کہ دوران ڈیوٹی شہید ہونے والے کسی اہلکار کے ورثاء کے لئے ہم ادارے کے اندر سے تین قسم کے الاؤنس کے مد میں تقریباً بیس لاکھ روپے تک لواحقین کو دیتے ہیں مگر حالیہ واقعے میں شہید ہونے والے اہلکار کے لئے ہم صوبائی حکومت کو سمری بھیج رہے ہیں
ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ محمود خان پہلے ہی ہر قسم کے تعاون کا اعلان کرچکے ہیں مگر ہم سمری میں شہید ریسکیو اہلکار کے لئے پولیس کی طرح شہداء پیکیج کی سفارش کریں گے۔