
کراچی کے ضلع ملیر میں ”ایجوکیشن سٹی“ کے نام پر ایک نیا کمرشل تعلیمی پروجیکٹ زیرِ تکمیل ہے۔ بظاہر یہ منصوبہ تعلیم کے فروغ کے لیے ایک مثبت اقدام دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت زمین کے حصول کا ایک اور باب بنتا جا رہا ہے۔
یہ علاقہ صدیوں سے مقامی بلوچ، گبول، جوکھیو اور دیگر برادریوں کے کھیتوں چراگاہوں اور رہائشی علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ اپنی روایتی اور کسٹمری قانونی حیثیت کے تحت یہاں نسلوں سے آباد ہیں، لیکن اب حکومت اور سرمایہ دار طبقے کے اشتراک سے ان کی زمینوں کو ’’غیر قانونی قبضہ‘‘ قرار دے کر چھیننے کا عمل جاری ہے۔
جن دیہات میں صدیوں سے مقامی برادریاں آباد تھیں وہاں اب ”تعلیمی زون“ اور ”کارپوریٹ پارٹنرشپ“ کے بورڈ لگے ہیں۔ اکتوبر 2025 میں لینڈ یوٹیلائزیشن ڈیپارٹمنٹ کی جو سمری وزیراعلیٰ سندھ کو بھیجی گئی اس قبضے کی باقاعدہ منظوری ہے۔ یہ سب کچھ عوامی رائے کے بغیر خاموشی اور فریب کے پردے میں کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
پہلے مرحلے میں تقریباً نو ہزار ایکڑ زمین اس پروجیکٹ کے لیے دی جا چکی تھی، لیکن اب سرمایہ کار اور ڈیولپرز کی حریصانہ نظریں زمین کے حصول پر گڑی ہوئی ہیں۔
سندھ لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ نے ملیر میں کراچی ایجوکیشن سٹی کے لیے مزید 2,817 ایکڑ زمین مختص کرنے کی پیش رفت کی ہے۔ اس توسیع میں وسیع زرعی رقبہ شامل ہے جس سے کراچی کی سب سے بڑی سبز پٹی کے ختم ہونے اور شہری خوراکی رسد کے متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ یہ اقدام اُس منصوبے کی توسیع ہے جو پہلے ہی 9,000–8,921 ایکڑ پر محیط بتایا جاتا رہا ہے اور جس کے سبب درجنوں دیہات متاثر ہو چکے ہیں۔
مقامی لوگ اس عمل کو ایک نئے نوآبادیاتی حملے سے تعبیر کر رہے ہیں، جہاں تعلیم کا لبادہ اوڑھ کر دراصل زمین پر قبضے کیے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
مقامی آبادی کے مطابق، ”یہ وہی ہو رہا ہے جو یورپی طاقتوں نے امریکی مقامی لوگوں کے ساتھ کیا تھا۔ آج پھر ترقی اور تعلیم کے نام پر ہمیں بے دخل کیا جا رہا ہے۔“
واضح رہے کہ منصوبے کے پہلے مراحل میں 30 سے زائد دیہات کے متاثر ہونے اور 779 ایکڑ زرعی زمین کے منصوبے میں شامل ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ایجوکیشن سٹی کا خیال 2001 میں کابینہ کی سطح پر سامنے آیا، 2004 میں انتظامی طور پر دوبارہ فعال ہوا، اور 2006 میں درجنوں اداروں کو ابتدائی الاٹمنٹ کی خبریں آئیں۔ سرکاری دستاویزات اور سرکاری سرمایہ کاری پورٹل کے مطابق یہ منصوبہ دیہہ چوہڑ (گڈاپ/ملیر) میں، نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے کے درمیان لنک روڈ کے ساتھ واقع ہے
ملیر، جو کراچی کا سب سے بڑا زرعی ضلع ہے، شہر کو سبزیاں، پھل اور دودھ فراہم کرتا ہے، لیکن اب اس کے سبز کھیت کمرشل پروجیکٹس کے نیچے دبنے لگے ہیں۔ زمینوں کی خرید و فروخت کے لیے متعدد طاقتور گروہ سرگرم ہیں، جن میں ریئل اسٹیٹ سرمایہ دار، نجی تعلیمی ادارے اور بعض حکومتی عناصر بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔
ایجوکیشن سٹی کے منصوبے کے تحت کئی نجی جامعات، اسکول، اور ریسرچ سینٹرز تعمیر کیے جا رہے ہیں، مگر یہ ادارے عوامی مفاد سے زیادہ کاروباری ماڈل پر چلائے جا رہے ہیں۔ فیسوں اور زمینوں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد تعلیم نہیں بلکہ زمینوں کا تجارتی استحصال ہے۔
ملیر کے دیہی علاقوں سے اس طرح کے ادارے تعمیر کرتے وقت تو مقامی لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے سیٹیں اور روزگار فراہم کرنے کے وعدے کیے جاتے ہیں، لیکن یہ وعدے کبھی شرمندہِ تعبیر نہیں ہوئے۔
دوسری جانب ماحولیاتی ماہرین نے بھی خبردار کیا ہے کہ یہ پروجیکٹ ملیر کے ندی نالوں، زرعی زمینوں اور زیرِ زمین پانی کے نظام کو متاثر کرے گا۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آنے والے برسوں میں کراچی اپنی زرعی بنیاد اور گرین بیلٹ سے مکمل طور پر محروم ہو جائے گا۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ حکومت کو مقامی آبادی کی ملکیتی، ثقافتی، اور ماحولیاتی شناخت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی زمینوں کا قانونی تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ اگر ترقی مقامی لوگوں کی قیمت پر ہوگی، تو یہ ترقی نہیں بلکہ استحصال کہلائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:
-
دیھ چوھڑ ملیر میں ایجوکیشن سٹی سے مقامی زراعت اور ماحولیاتی تباہی۔ 1
-
دیھ چوھڑ ملیر میں ایجوکیشن سٹی سے مقامی زراعت اور ماحولیاتی تباہی۔ 2
-
دیھ چوھڑ ملیر میں ایجوکیشن سٹی سے مقامی زراعت اور ماحولیاتی تباہی۔ 3
-
دیھ چوھڑ ملیر میں ایجوکیشن سٹی سے مقامی زراعت اور ماحولیاتی تباہی۔ 4
-
دیھ چوہڑ ملیر میں ایجوکیشن سٹی سے مقامی زراعت اور ماحولیاتی تباہی۔ 5 (آخری)




