سنہ 2015 کے آخر تک 8.3 ارب ٹن پیدا کیے گئے پلاسٹک میں سے 6.3 ارب ٹن ضائع کیا جا چکا ہے۔ اس پلاسٹک کے کچرے میں سے زیادہ تر اب بھی موجود ہے، جو یا تو خالی زمینیں بھرنے کے کام آ رہا ہے یا پھر ہمارے ماحول کو آلودہ کر رہا ہے
انٹارکٹک کی سمندری برف میں، سمندر کی گہرائیوں میں رہنے والے جانوروں کی آنتوں میں اور دنیا بھر میں پینے والے پانی میں سے بھی پلاسٹک کے ذرات ملتے رہتے ہیں
درحقیقت پلاسٹک کا کچرا اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ محققین نے تجویز کیا ہے کہ اسے ’اینتھروپوسین‘ کے ارضیاتی اشارے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے
لیکن کیا ہو اگر ہم ایک جادوئی چھڑی لہرائیں اور اپنی زندگیوں سے سارا پلاسٹک نکال دیں۔ کرۂ ارض کے لیے یہ خیال کافی پرکشش لگتا ہے، لیکن جلد ہی ہمیں معلوم ہوگا کہ پلاسٹک کتنا زیادہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ کیا زندگی پلاسٹک کے بغیر ممکن ہے؟
انسان ہزاروں سالوں سے پلاسٹک جیسا مواد استعمال کر رہے ہیں، جیسا کہ شلیک، جو کہ لیک کیڑوں کی ٹپکنے والی رال سے بنتا تھا۔ لیکن پلاسٹک جیسا کہ ہم اسے آج جانتے ہیں وہ بیسویں صدی کی ایجاد ہے
فوسل فیول سے بنایا گیا پہلا پلاسٹک بیکلائٹ تھا، جسے 1907ع میں ایجاد کیا گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم تک فوج کے علاوہ استعمال کے لیے مصنوعی پلاسٹک کی تیاری مکمل طور پر شروع نہیں ہوئی تھی
اس کے بعد سے، پلاسٹک کی پیداوار میں تقریباً ہر سال اضافہ ہوتا رہا ہے، 1950ع میں بیس لاکھ ٹن سے 2015ع میں اڑتیس کروڑ ٹن تک۔ اگر اس کی پیداوار اسی شرح پر جاری رہی تو 2050ع تک پلاسٹک تیل کی پیداوار کا بیس فیصد حصہ بن سکتا ہے
آج، پیکیجنگ انڈسٹری نئے پلاسٹک کے ذرات کا سب سے بڑا صارف ہے۔ لیکن ہم پلاسٹک کا استعمال بہت زیادہ دیرپا طریقوں سے بھی کرتے ہیں: یہ ہماری عمارتوں، ٹرانسپورٹ اور دیگر اہم انفراسٹرکچر میں ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے فرنیچر، آلات، ٹی وی، قالین، فون، کپڑے، اور روزمرہ کی بے شمار دیگر اشیا میں بھی
اس سب کا مطلب یہ ہے کہ پلاسٹک سے مکمل طور پر آزاد دنیا ایک غیر حقیقی بات ہے۔ لیکن یہ تصور کرنا کہ اگر ہماری اچانک پلاسٹک تک رسائی ختم ہو جائے تو ہماری زندگی کیسے بدل جائے گی، ہمیں یہ جاننے میں مدد دے سکتا ہے کہ اس کے ساتھ ایک نیا اور زیادہ پائیدار رشتہ کیسے بنایا جائے
ہسپتالوں میں پلاسٹک کا نہ ہونا تباہ کن ہوگا۔ برطانیہ کی کیل یونیورسٹی میں ماحولیاتی پائیداری اور گرین ٹیکنالوجی کی سینیئر لیکچرر شیرون جارج کہتی ہیں کہ ’ذرا تصور تو کریں پلاسٹک کے بغیر ڈائیلاسز یونٹ چلانے کا۔‘
پلاسٹک کا استعمال دستانے، ٹیوبز، سرنجز، خون کی تھیلوں، سیمپل ٹیوبز وغیرہ میں ہوتا ہے۔ 1996ع میں کریوٹزفیلڈ جیکوب بیماری (vCJD) کی مختلف قسموں کی دریافت کے بعد سے اسٹینڈرڈ دوبارہ استعمال کے قابل جراحی کے آلات کو کچھ آپریشنز کے لیے ایک ہی مرتبہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بیماری ایک قسم کے ناقابلِ حل پروٹین کی وجہ سے ہوتی ہے، جنہیں پرائیونز کہا جاتا ہے اور وہ ہسپتال کی جراثیم کشی کے عام عمل سے بچ جاتے ہیں
ایک تحقیق کے مطابق، برطانیہ کے کسی بھی ہسپتال میں صرف ایک ہی ٹونسیلیکٹومی آپریشن کے نتیجے میں ایک سو کے قریب الگ الگ پلاسٹک کے کچرے کے ٹکڑے سامنے آ سکتے ہیں۔ اگرچہ کچھ سرجن دلیل دیتے ہے کہ ہسپتالوں میں ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کا زیادہ استعمال ہوتا ہے، لیکن بہت سی پلاسٹک کی طبی اشیا ناگزیر ہیں اور ان کے بغیر جانیں ضائع ہو سکتی ہیں
پلاسٹک کی کچھ روزمرہ اشیا صحت کے تحفظ کے لیے بھی بہت ضروری ہیں۔ کنڈوم اور ڈایافرام ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ضروری ادویات کی فہرست میں شامل ہیں، اور چہرے کے ماسک بھی، جن میں پلاسٹک کے سرجیکل ماسک اور ریسپیریٹرز کے ساتھ ساتھ دوبارہ استعمال کے قابل کپڑے کے ماسک نے کووڈ۔19 وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں مدد دی ہے
جارج کہتی ہیں ’کووڈ کے لیے آپ کے پاس جو ماسک ہے اس کا تعلق ہماری حفاظت اور دوسروں کی حفاظت سے ہے۔ اگر ایسا بڑے پیمانے پر کیا گیا تو اسے ختم کرنے سے جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے‘
ہمارے خوراک کے نظام کا بھی پول تیزی سے کھل جائے گا۔ ہم خوراک کو ٹرانزٹ میں ہونے والے نقصان سے بچانے کے لیے پیکیجنگ کا استعمال کرتے ہیں اور اسے سپر مارکیٹ شیلف تک پہنچنے کے لیے کافی دیر تک محفوظ کرتے ہیں، بلکہ اس کے علاوہ مواصلات اور مارکیٹنگ کے لیے بھی
برونیل یونیورسٹی لندن میں ماحولیاتی مینجمنٹ کی ایک لیکچرر ایلینی آئیکوڈو کہتی ہیں ’میں تصور بھی نہیں کر سکتی کہ ہمارے سسٹم میں (پلاسٹک) کو مکمل طور پر علیحدہ کیا جا سکتا ہے‘
یہ صرف صارفین ہی نہیں ہیں، جنہیں اپنی عادات بدلنے کی ضرورت پڑے گی، سپر مارکیٹ کی سپلائی چینز کو بھی بدلنا ہوگا کیونکہ وہ پیک کی ہوئی اشیا کی فروخت کی عادی ہو چکی ہیں۔ اس دوران، فارم اور سپر مارکیٹ کے درمیان طویل سفر کے ساتھ انتہائی خراب ہونے والی اشیا، جیسے سبز پھلیاں اور بیریاں، کھیتوں میں پڑی رہیں گی اور کوئی انہیں نہیں اٹھائے گا
اگر ہم سپلائی چین کے ان مسائل کو حل کر سکیں تو پھل اور سبزیاں کھلی فروخت ہو سکتی ہیں، لیکن ہمیں شاید زیادہ کثرت سے خریداری کرنی پڑے۔ برطانیہ میں کچرے کو کم کرنے کے لیے کوشاں ادارے ’ڈبلیو آر اے پی‘ کی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پلاسٹک کی پیکیجنگ نے فریج میں رکھی جانے والی بروکولی کی شیلف لائف کو ایک ہفتے تک بڑھا دیا ہے اور کمرے کے درجہ حرارت پر کیلے کی شیلف لائف کو ایک اعشاریہ آٹھ دن
اگرچہ سیب، کھیرے اور آلو کو پلاسٹک سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ درحقیقت، تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کو کھلا بیچنے سے کھانے کے ضیاع کم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس سے لوگ صرف وہی چیزیں خریدیں گے، جن کی انہیں ضرورت ہو گی
یہاں تک کہ ٹماٹروں اور پھلوں کے ٹن بھی نہیں بچیں گے کیونکہ ان میں خوراک کی حفاظت کے لیے پلاسٹک کی اندرونی کوٹنگ ہوتی ہے، سو اس لیے ہمیں سوکھی دالیں کاغذ کے تھیلوں میں خرید کر گھر پر پکانا ہوں گی
آئیکوڈو کہتی ہیں ’لوگوں نے اپنی ضرورت کی چیز کو سب سے زیادہ سہل اور آسان طریقے سے حاصل کرنے پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے‘
پلاسٹک کی پیکیجنگ کو کسی دوسری چیز سے تبدیل کرنے سے ماحولیاتی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ اگرچہ شیشے کے پلاسٹک پر کچھ فوائد ہیں، جیسا کہ اسے لامتناہی طور پر دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک لیٹر شیشے کی بوتل کا وزن 40 گرام پلاسٹک کے مقابلے میں 800 گرام تک ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے شیشے کی بوتلیں دودھ، پھلوں کے رس، اور فزی ڈرنکس کے لیے پلاسٹک کے برتنوں کے مقابلے میں زیادہ مجموعی ماحولیاتی اثرات رکھتی ہیں
جب ان بھاری بوتلوں اور جاروں کو طویل فاصلے پر لے جانے کی ضرورت ہوتی ہے، تو کاربن کا اخراج مزید بڑھ جاتا ہے۔ اور جن گاڑیوں میں وہ لے جا رہے ہیں اگر ان میں پلاسٹک نہیں ہے، تو وہ خود ہی بھاری ہوں گی، جس کا مطلب ہے اور بھی زیادہ اخراج
تاہم کچھ طریقوں سے کھانے کی پیکیجنگ کو تبدیل کرنا آسان حصہ ہوگا۔ آپ شیشے کی بوتل میں دودھ تو خرید سکتے ہیں، لیکن دودھ کی صنعت میں اس دودھ کو گائے سے بوتل تک پہنچانے کے لیے پلاسٹک کی نلیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ کھلی سبزیاں بھی خریدتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ پلاسٹک کے ملچ کی چادروں نے کسان کو پانی بچانے اور گھاس سے دور رکھنے میں مدد کی ہوگی۔ پلاسٹک کے بغیر صنعتی زراعت ناممکن دکھائی دیتی
اس کے برعکس ہمیں چھوٹی فوڈ چینز چاہیئں، فارم شاپس یا کمیونٹی کی حمایت یافتہ زراعت جیسی چیزیں۔ لیکن جب دنیا کی آدھی کے قریب آبادی شہروں میں رہ رہی ہے، اس لیے ایسا کرنے کے لیے بہت تبدیلیاں کرنا پڑیں گی کہ ہم کہاں اور کس طرح خوراک اگاتے ہیں۔ آئیکوڈو کہتی ہیں کہ یہ ناممکن کام نہیں ہے لیکن ’ہمیں ایسا کرنے کے لیے وقت مختص کرنا پڑے گا، اور ہمیں ان چیزوں کی مقدار بھی کم کرنا پڑے گی جو ہم کھاتے ہیں‘
پلاسٹک کے بغیر زندگی گزارنے کے لیے ہمارے لباس میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہوگی۔ سنہ 2018ع میں، دنیا بھر میں تیار کردہ ٹیکسٹائل ریشوں میں سے 62 فیصد مصنوعی تھے، جو پیٹرو کیمیکل سے بنائے گئے تھے۔ اگرچہ کپاس اور دیگر قدرتی ریشے جیسا کہ ہیمپ (گانجا) ہمارے کچھ کپڑوں کے اچھے متبادل ہو سکتے ہیں، لیکن موجودہ مانگ کو پورا کرنے کے لیے پیداوار کو بڑھانا لاگت کے ساتھ آئے گا
کپاس پہلے ہی دنیا بھر میں 2.5 فیصد قابل کاشت زمین پر اگتی ہے، لیکن اس فصل میں کیڑے مار ادویات کے استعمال کا 16 فیصد حصہ ہوتا ہے، جس سے کسانوں کی صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور پانی کی فراہمی آلودہ ہوتی ہے۔ پلاسٹک کے بغیر، ہمیں زیادہ پائیدار اشیا کے حق میں فیشن کو تیزی سے چھوڑنے کی ضرورت ہوگی اور وہ چیزیں لینا ہوں گی، جنہیں ہم بار بار پہن سکتے ہیں
اور ہمارے جوتے بھی بھی جلد ہی ختم ہو جائیں گے۔ بڑے پیمانے پر مصنوعی پلاسٹک کے آنے سے پہلے جوتے اکثر چمڑے سے بنائے جاتے تھے۔ لیکن آج زمین پر بہت سے لوگ موجود ہیں، اور ہم میں سے ہر ایک کے پاس کئی جوڑے ہوتے ہیں: صرف 2020ع میں 20.5 ارب جوڑے جوتے تیار کیے گئے تھے۔ جارج کہتی ہیں کہ ’ہم کرہ ارض کے ہر فرد کے لیے چمڑے کے جوتے نہیں لے سکتے تھے۔۔۔ یہ ممکن نہیں ہے‘
پلاسٹک کے بغیر دنیا میں مشکلات بھی ہوں گی، اگرچہ ہم اپنی صحت پر ہونے والے اس کے مضر اثرات سے بچ جائیں گے
تیل اور گیس سے پلاسٹک بنانے سے زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں جو ہوا کو آلودہ کرتی ہیں اور مقامی کمیونٹیز کو متاثر کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ پلاسٹک کی تیاری کے دوران شامل کیمیکلز اینڈوکرائن سسٹم میں خلل ڈال سکتے ہیں، جو وہ ہارمونز پیدا کرتے ہیں جو ہماری نشوونما کو منظم کرتے ہیں
ان اینڈوکرائن ڈسرپنٹگ کیمیکلز (EDCs) میں سے دو پر بہت مطالعہ کیا گیا ہے، جن میں سے ایک فتھالیٹس ہیں، جو پلاسٹک کو نرم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن بہت سے کاسمیٹکس میں بھی پائے جاتے ہیں، اور دوسرے بائیسیفینول اے ہیں، جو پلاسٹک کو سخت کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر ٹن کے ڈبوں کے اندر استعمال کیے جاتے ہیں
نیویارک کے ماؤنٹ سینائی میں آئیکان اسکول آف میڈیسن میں ماحولیاتی ادویات اور صحت عامہ کی پروفیسر شانا سوان کہتی ہیں: ’اگرچہ یہ فتھالیٹس یا بی پی اے پلاسٹک کی ساخت کے لیے اہم ہیں، لیکن وہ کیمیائی طور پر اس کے ساتھ منسلک نہیں ہیں۔‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ کیمیکل کھانے کی پیکیجنگ میں استعمال ہوتے ہیں، تو وہ خود کھانے میں داخل ہو سکتے ہیں اور پھر ہمارے جسم میں
کچھ فتھالیٹس ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار کو کم کر سکتے ہیں، سپرم کی تعداد کو کم کر سکتے ہیں اور مردوں میں تولید کی اہلیت جیسے مسائل کو بڑھا سکتے ہیں۔ دوسری طرف، بی پی اے ایسٹروجن کی نقل کرتا ہے اور اسے خواتین میں تولیدی مسائل کے بڑھتے ہوئے خطرے سے جوڑا گیا ہے۔ لیکن اثرات تولید کی اہلیت سے آگے بڑھ گئے ہیں
سوان اپنی کتاب، کاؤنٹ ڈاؤن میں لکھتی ہیں ’ای ڈی سیز کے ممکنہ طور پر خلل ڈالنے والے اثرات کی وسعت حیرت انگیز ہے۔ انھیں تقریباً تمام حیاتیاتی نظاموں میں صحت پر متعدد منفی اثرات سے منسلک کیا گیا ہے، نہ صرف تولیدی نظام بلکہ مدافعتی، اعصابی، میٹابولک، اور قلبی نظام بھی‘
جنین کی نشوونما کے اہم ادوار کے دوران ای ڈی سیز کے دیرپا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سوان کہتی ہیں کہ ’اگر ماں حاملہ ہے، اور وہ پلاسٹک یا دیگر کیمیکلز کی زد میں آتی ہے جو اس کے جنین کی نشوونما کو بدل دیتے ہیں، تو وہ تبدیلیاں زندگی بھر کی ہوتی ہیں، ناقابل واپسی تبدیلیاں‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ پلاسٹک کے متعلق جلدی جلدی اقدام اٹھانے سے اس سے ہمارا واسطہ تو کم پڑے گا، لیکن اس کے اثرات کم از کم اگلی دو نسلوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ سوان کہتی ہیں کہ ’آپ کی دادی کا اس کی زد میں آنا آپ کی تولیدی صحت اور عام طور پر آپ کی صحت سے تعلق رکھتا ہے۔‘
کسی وقت ہم سمندروں میں پہلے سے موجود پلاسٹک کے مسئلے کو حل کرنا بھی چاہیں گے۔ کیا ہم کبھی یہ سب صاف کر سکتے ہیں؟ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے شعبہ ماحولیات اور ارتقائی حیاتیات کی اسسٹنٹ پروفیسر چیلسی روکمین کہتی ہیں ’آپ کے پاس کچھ مواد ہیں جو سمندری فرش پر ہیں اور وہ کہیں نہیں جا رہے ہیں، وہ صرف ایکو سسٹم کا حصہ ہیں۔‘ لیکن، ان کے مطابق، تیرتے پلاسٹک کے ساتھ تو ہم لڑ سکتے ہیں
محققین کا خیال ہے کہ سمندر میں تیرنے والا زیادہ تر پلاسٹک بالآخر ہمارے ساحلوں پر آ جائے گا یا وہیں دفن ہو جائے گا۔ آج کل اس میں سے کچھ پلاسٹک ’ٹریش ٹریپس‘ اور پرانے زمانے کے ساحل کی صفائی کے طریقوں کے ذریعے ہٹایا جاتا ہے۔ ہٹانے کے اس عمل کو برقرار رکھنے سے سمندری جنگلی حیات میں فرق پڑے گا
روکمین کہتی ہیں ’آپ کے سامنے ساحل سمندر پر آنے والے جانور کم ہوں گے جن کے پیٹ میں پلاسٹک ہوگا، اور کم الجھنیں ہوں گی۔ بہت سی چیزیں جو جانوروں کھا جاتی ہیں وہ چیزیں گہرے سمندر سے نہیں ملتیں بلکہ یہ ساحلی چیزیں ہیں۔‘
پلاسٹک کے فضلے کے بڑے ٹکڑوں کو نکالنے سے ان کا مائیکرو پلاسٹک میں ٹوٹنا روکا جا سکتا ہے۔ ساحلی علاقوں کے قریب پایا جانے والا زیادہ تر مائیکرو پلاسٹک 1990ع یا اس سے پہلے کے دور کا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے ٹکڑوں کے ٹوٹنے میں دہائیاں لگتی ہیں
اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم کل سمندروں میں پلاسٹک کی نئی آلودگی کو شامل کرنا بند کر دیں، تو اگلی دہائیوں میں مائیکرو پلاسٹکس میں اضافہ ہوتا رہے گا، لیکن ساتھ ہی موجودہ ملبے کو ہٹا کر، ہم اس اضافے کو روک سکتے ہیں۔ روکمین کہتی ہیں ’شاید ہم ایسے مقام پر پہنچ جائیں جہاں جس جانور کو بھی ہم پانی سے نکالیں اس میں مائیکرو پلاسٹک نہ ہو‘
پلاسٹک سے پاک دنیا میں، پودوں سے پلاسٹک کی نئی قسمیں بنانا پرکشش لگ سکتا ہے
بائیو بیسڈ پلاسٹک جن میں پیٹرو کیمیکل پلاسٹک جیسی بہت سی خوبیاں ہیں پہلے سے ہی زیرِ استعمال ہیں۔ مثال کے طور پر، مکئی کے نشاستہ پر مبنی پولی لیکٹک ایسڈ (پی ایل اے) جس سے مشروب پینے کی نالیاں بنائی جاتی ہیں بالکل فوسل فیول سے بنائی گئی نالیوں جیسا ہی اثر دیتا ہے، بالکل کاغذ کی نالیوں کے برعکس جو آپ کے مشروب ختم کرنے سے پہلے بھیگ جاتی ہیں
بائیو بیسڈ پلاسٹک پودوں کے کھانے کے قابل حصوں سے بھی بنایا جا سکتا ہے جیسے چینی یا مکئی، یا پھر پودے کے ایسے مواد سے جو ناقابلِ استعمال ہے، جیسے گنے کا پھوک جو رس نکالنے کے بعد بچ جاتا ہے۔ کچھ بائیو بیسڈ پلاسٹ، لیکن سارا نہیں، بائیوڈیگریڈیبل ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر پلاسٹک کو اکثر صنعتی کھاد سازی کی سہولیات میں، پھر بھی محتاط پروسیسنگ کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ وہ ماحول میں برقرار نہ رہیں۔ ہم انھیں سمندر میں پھینک کر بہترین کی امید نہیں کر سکتے
اگر ہم انہیں کمپوسٹ کرنے کے لیے کوئی بنیادی ڈھانچہ بنا بھی لیں تو پھر بھی شاید بائیو بیسڈ پلاسٹک ماحول کے لیے بہتر نہ ہو، کم از کم ابھی تک تو نہیں۔ ایکسیٹر یونیورسٹی کے ایک ریسرچ فیلو اور بائیو بیسڈ اور فوسل فیول پلاسٹک کے ماحولیاتی اثرات پر ایک حالیہ جائزے کے مصنف اسٹوارٹ واکر کہتے ہیں ’میرا خیال ہے کہ ابتدائی طور پر ہم تمام اثرات کو بڑھتے ہوئے دیکھیں گے۔‘
فصلوں کے لیے زمین متعین کرنے سے ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع پر اثر پڑ سکتا ہے۔ کھاد اور کیڑے مار ادویات کی وجہ سے کاربن خارج ہوتی ہے اور اس سے مقامی دریا یا جھیلیں آلودہ ہوسکتی ہیں
ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فوسل فیول پلاسٹک کو بہتر متبادل سے تبدیل کرنے کے لیے 300 سے 1650 ٹریلین لیٹر پانی ہر سال درکار ہوگا۔ یہ دنیا بھر کا تین سے 18 فیصد وسط پانی بنتا ہے۔ ایسے میں فصلوں کی جگہ کو پلاسٹک کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جس سے فوڈ سکیورٹی کا خطرہ پیش آئے گا۔ اپنی پیداوار کے دوران فصلوں کو نشونما کے لیے خام تیل جیسے حیاتیاتی متبادل درکار ہوتے ہیں۔ اس کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں کاربن خارج ہوتی ہے
مگر ماحولیاتی اثرات کے اعتبار سے بائیو پلاسٹک کا روایتی متبادل سے موازنہ مشکل ہے کیونکہ فوسل فیول پلاسٹک کے کچھ فائدے ہیں۔ واکر کا کہنا ہے کہ ’ہم طویل عرصے سے یہ چیزیں بنا رہے ہیں اور ہم اس کام میں بہت اچھے ہیں۔‘
’ہم دیکھ سکیں گے کہ بایو پلاسٹک سے اخراج کم ہوگا۔‘
دنیا بھر میں ممالک اپنے بجلی کے نظام میں سے کاربن ختم کر رہے ہیں۔ اس طرح بایو پلاسٹک کی پیداوار سے کاربن کا اخراج کم ہوسکے گا
تاہم پودوں سے پلاسٹک بنانا تمام صحت کے مسائل کا حل نہیں جو اس مادے کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ اس موضوع پر تحقیق محدود ہے مگر یہ امکان ہے کہ روایتی پلاسٹک میں بھی وہی کچھ شامل ہوتا ہے جو حیاتیاتی متبادل میں استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ دونوں قسموں کے مادے ایک جیسی خصوصیات رکھتے ہیں
وہ کہتی ہیں کہ ’اضافی اجزا سے ہونے والا نقصان ہی ہمیں تشویش میں مبتلا کرتا ہے۔‘ اگر بایو پلاسٹک کو فوڈ ویسٹ اور کھاد میں ملایا گیا تو پلاسٹک ہماری خوراک کے نظام میں داخل ہوسکتا ہے۔
یہ واضح ہے کہ ایک چیز کو دوسری چیز سے تبدیل کرنے سے ہماری پلاسٹک کی تمام مشکلات حل نہیں ہو سکیں گی
اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ جس طرح کا پلاسٹک غیر ضروری ہے، کس سے بچا جاسکتا ہے اور کن پلاسٹکس سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور دیگر کئی ملک انہیں مرحلہ وار ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم یہ فیصلہ اس طرح کرسکتے ہیں کہ ہمیں کس پلاسٹک کی اشد ضرورت ہے
جارج نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ ہم یہ فیصلہ کیسے کرسکتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ خوراک، پناہ یا ادویات میں کن چیزوں میں اس کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آیا اس کی مقدار کم کی جاسکتی ہے یا اس کا کوئی متبادل موجود ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کن پلاسٹکس کے بغیر زندگی ممکن ہے اور کن کے بغیر مشکل
مگر یہ ضروریات ہر کسی کے لیے مختلف ہیں۔ کچھ جگہوں پر صاف پینے کا پانی صرف پلاسٹک کی بوتلوں میں ملتا ہے۔ یونیورسٹی آف جارجیا میں ماحولیاتی انجینیئرنگ کی پروفیسر جینا جیمبک کہتی ہیں کہ ’ہمیں پانی کے ایسے نظام بنانے ہوں گی جو بوتلوں میں بند پانی پر منحصر نہ ہوں۔ لیکن فی الحال یہ پلاسٹک ضروری ہے‘
واکر کا کہنا ہے کہ ’ہم بھول چکے ہیں کہ ری سائیکلنگ بہترین معیار نہیں اور ہم استعمال کے بعد چیزوں کو دوسرے کاموں کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔‘
یونیورسٹی آف شیفیلڈ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انہوں نے ڈسپوزیبل اور دوبارہ استعمال کے لائق برتنوں پر تحقیق کی ہے۔ انھیں معلوم ہوا کہ اچھے معیار کے پلاسٹک کے ڈبے کو دو سے تین بار استعمال کیا جاسکتا ہے، اسے دھویا بھی جاسکتا ہے۔ یہ بہتر اس لیے ہے کیونکہ پولی پروپلین کو صرف ایک مرتبہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ سٹینلس سٹیل کے کنٹینر کے ٹوٹنے سے قبل اسے تیرہ بار استعمال کیا جاسکتا ہے تو اس طرح کھانے کی ڈیلیوری میں پلاسٹک کی جگہ یہ استعمال ہوسکتا ہے
پلاسٹک کا استعمال بند ہونے پر ہمیں ’ہر چیز پھینکنے‘ کے کلچر پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ ہمیں اپنے رویے تبدیل کرنے ہوں گے کہ ہم چیزوں کو کیسے استعمال کرتے ہیں، کھانا، کپڑے، واشنگ مشین اور موبائل فونز سب چیزوں کے اعتباد سے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہم نئی چیزیں کیسے بناتے ہیں
جارج کہتے ہیں ’ہم بہت جلدی کوئی سستی اور ڈسپوزیبل چیز خرید لیتے ہیں۔ ہمیں ایسی چیزیں رکھنی چاہییں جو حالات میں ڈھل سکیں۔ ہمیں اپنے معیار طے کرنا ہوں گے تاکہ چیزوں کو تبدیل کیا جاسکے یا ان کی تصحیح ہوسکے‘
پلاسٹک کے بغیر ہمیں شاید یہ رویہ بھی تبدیل کرنا پڑے کہ ہم اپنے بارے میں کیسے بات کرتے ہیں۔ ’صارف سے مراد وہ شخص ہے جو انفرادی طور پر اشیا استعمال کرتا ہے۔‘ ایسی دنیا میں جہاں چیزوں کو دوبارہ استعمال کیا جائے اور انھیں پھینکنے کے بجائے ان کا مقصد تبدیل کیا جائے، ہم شاید اچھے شہری بن سکیں گے
پلاسٹک کے بے پناہ فائدے حاصل ہوئے ہیں لیکن اس نے ہمارے تمام رویے مثبت نہیں بنائے۔ پلاسٹک پیکجنگ کی مدد سے ہم چل پھرتے کھانے کی چیزیں لے سکتے ہیں۔ مگر اس کے بغیر یہ ممکن ہے کہ ہم زندگی میں وقت کی پابندی سیکھ جائیں۔ جیمبک کا کہنا ہے کہ ’اگر زندگی کی رفتار کچھ سست ہوجائے تو یہ شاید اتنی بُری چیز نہیں ہوگی‘
حوالہ: کیلی اوکس، بی بی سی فیوچر۔