توہین آمیز بیانات کے خلاف احتجاج، اترپردیش میں مسلمان سیاستدان کا گھر مسمار

ویب ڈیسک

بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر سہارنپور میں حکام کی جانب سے دو مسلمانوں کے گھر گرائے جانے کے بعد اتوار کو پریاگ راج میں بھی ایک مسلمان سیاستدان کا گھر گرایا جا رہا ہے

بھارتی حکومت نے ان سیاستدانوں پر جمعے کے روز توہین مذہب کے معاملے پر ہونے والے پرتشدد مظاہروں کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا ہے

پولیس کا الزام ہے کہ جاوید محمد جمعے کو ہونے والے مظاہروں کے ’ماسٹر مائنڈ‘ ہیں

سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی وڈیوز میں پریاگ راج سے تعلق رکھنے والے سیاستدان جاوید محمد کے گھر کو بلڈوزر کی مدد سے گراتے دیکھا جا سکتا ہے

گھر کے باہر صحافیوں کی جانب سے شیئر کی جانے والی وڈیوز میں پولیس اور میونسپل کی ٹیمیں گھر میں دیکھی جا سکتی ہیں جبکہ گھر کا سامان بکھرا ہوا ہے۔ گھر کا کچھ فرنیچر اور دیگر سامان بھی حکام کی جانب سے باہر پھینکا گیا

خیال رہے کہ جاوید محمد ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رکن ہیں جبکہ ان کی بیٹی آفرین فاطمہ جواہر لال یونیورسٹی دہلی میں طالب علم رہنما کے طور پر شناخت رکھتی ہیں

میونسپل ایجنسی کا الزام ہے کہ جاوید محمد کی رہائش گاہ کے گراؤنڈ فلور اور پہلی منزل کی تعمیرات غیرقانونی ہیں، جن کی مسماری کا نوٹس چند گھنٹے پہلے دیا گیا تھا

این ڈی ٹی وی کے مطابق جاوید محمد کی رہائش گاہ کے گھر کے باہر نوٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے رواں برس مئی میں مسماری سے متعلق بھیجے گئے نوٹس کا جواب نہیں دیا تھا

نوٹس کے مطابق جاوید محمد کو 9 جون تک غیرقانونی تعمیرات مسمار کرنے کا کہا گیا تھا اور 12 جون صبح 11 بجے انہیں رہائش گاہ خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا

اس سے قبل 9 جون کو سہارنپور میں بھی پولیس کی موجودگی میں اسی طرح کا جواز پیش کر کے دو گھروں کو مسمار کیا گیا تھا

ایسی ہی مسماری کانپور میں بھی کی گئیں جہاں 3 جون کو مظاہرے ہوئے تھے

دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کی پولیس نے ایک نوجوان کو حکمران جماعت کی سابق ترجمان کا ’سر قلم کرنے کی‘ دھمکی دینے پر گرفتار کیا ہے

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نوجوان نے دھمکی آمیز وڈیو یوٹیوب پر پوسٹ کی تھی، جس کو حکام نے ہٹوا دیا ہے

واضح رہے کہ رواں ہفتے حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے انتہا پسند حکومتی ارکان کی جانب سے اسلام مخالف تبصروں کے بعد مسلمانوں نے احتجاج شروع کر دیا تھا

رواں ماہ کے آغاز میں واقعے کے بعد بی جے پی نے ترجمان نوپور شرما کو معطل کر دیا تھا جبکہ ایک اور رہنما نوین کمار جندال کو بھی پیغمر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق متنازع بیان کے بعد نکال دیا گیا تھا۔
واقعات کے بعد کئی مسلمان ممالک میں غصے کی لہر دیکھی گئی اور مودی حکومت کو سفارتی سطح پر بھی مشکل صورت حال کا سامنا ہے

متذکرہ ریمارکس کے بعد ملک میں احتجاج اور جھڑپیں بھی ہوئیں۔ گزشتہ ہفتے مشرقی شہر رانچی میں مظاہرے کے دوران پولیس نے دو نوجوانوں کو ہلاک کر دیا تھا، جبکہ شمالی ریاست اپرپردیش میں پھوٹنے والے فسادات میں پولیس نے تین سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا

اسی طرح مغربی بنگال میں حکام نے ایک ہنگامی قانون کا نفاذ کیا ہے جس کے مطابق 16 جون تک لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی ہوگی۔
کم سے کم 70 افراد کو فسادات اور امن عامہ میں خلل ڈالنے کے الزامات لگا کر گرفتار کیا گیا

شدید احتجاج کے بعد 48 گھنٹے تک انٹرنیٹ کی سروسز کو معطل رکھا گیا

بی جے پی کی جانب سے سینیئر ارکان کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ پبلک مقامات پر مذہبی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے ’بہت زیادہ احتیاط‘ سے کام لیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close