گرم ترین شہر جیکب آباد کی خواتین پر کیا بیت رہی ہے؟

ویب ڈیسک

سوناری اور وڈیری جیکب آباد کے مرکز سے تقریباً دس کلو میٹر دور خربوزے کے کھیتوں میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت میں کام کرتی ہیں

وہ ہر روز صبح 6 بجے کام شروع کرتی ہیں اور دوپہر میں گھر کے کاموں اور کھانا پکانے کے لیے مختصر وقفہ لیتی ہیں اور پھر دوبارہ کھیتوں میں واپس آ جاتی ہیں

بیس سالہ سوناری حاملہ ہیں جبکہ ان کی سترہ سالہ پڑوسی وڈیری نے چند ہفتے قبل ایک بچے کو جنم دیا تھا

سوناری نے برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا ”جب گرمی پڑتی ہے اور ہم حاملہ ہوں تو ہم تناؤ محسوس کرتی ہیں“

واضح رہے کہ پاکستان کے بیشتر علاقے ان دنوں شدید گرمی اور ہیٹ ویو کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد نے دنیا کے گرم ترین شہروں میں اپنی جگہ بنا رکھی ہے

جیکب آباد گذشتہ ماہ 14 مئی کو 51 ڈگری درجہ حرارت کے ساتھ دنیا کا گرم ترین شہر بنا تھا اور اب بھی کم و بیش صورت حال ویسی ہی ہے، لیکن اس حدت کا سب سے زیادہ شکار شاید خواتین ہیں اور انہیں گرم موسم کے ساتھ پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے

اس شہر کے نواحی علاقے میں مقیم رضیہ کے پاس کبھی کبھار ہی اتنا پانی ہوتا ہے کہ وہ اپنی چند ماہ کی بیٹی تمنا کو نہلا سکیں

رضیہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’ہم ڈول سے بچوں کو نہلانے کے لیے پانی لاتے ہیں تو وہ تھوڑا پرسکون ہو جاتے ہیں‘

شہر کے نواح میں ہی ایک خاندان روبینہ کا بھی ہے

ان کے گھر میں بجلی نہیں اور سب چارپائیوں پر بیٹھے جامد پنکھے کو گھور رہے ہیں جبکہ ارد گرد مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں

روبینہ کہتی ہیں کہ ’گرمی میں ہم بس بیٹھے رہتے ہیں۔ پنکھا چلے یا نہ چلے۔ بجلی ہو یا نہ ہو۔ بس صرف اللہ سے ہی دعا کرتے ہیں۔‘

روبینہ نے یہ بھی بتایا کہ کھانا بناتے ہوئے اکثر انہیں چکر آنے لگتے ہیں

1990ع کی دہائی کے وسط سے کی گئیں 70 تحقیقی مطالعے کے تجزیے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ طویل عرصے تک گرمی کا سامنا کرنے والی حاملہ خواتین میں پیچیدگیوں کا شکار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے

میٹا تجزیے کے مطابق درجہ حرارت میں ہر ایک ڈگری اضافے سے مردہ بچوں اور قبل از وقت پیدائش کی شرح میں تقریباً پانچ فیصد اضافہ ہوتا ہے

کولمبیا یونیورسٹی میں گلوبل کنسورشیم آن کلائمیٹ اینڈ ہیلتھ ایجوکیشن کی ڈائریکٹر سیسلیا سورنسن کا کہنا ہے ”حاملہ خواتین کے لیے گرمی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ خواتین کی صحت پر گلوبل وارمنگ کے ظاہر ہونے والے اثرات کا ریکارڈ ناکافی ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شدید گرمی دیگر عوامل کو بھی بڑھا دیتی ہے“

جیکب آباد کی ایک درجن سے زائد خواتین کے انٹرویوز اور انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق غریب ممالک میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے خواتین خاص طور پر خطرے میں ہیں کیونکہ بہت سی خواتین کے پاس حمل اور پیدائش کے فوراً بعد کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔‘

پاکستان میں عام طور پر خواتین تنگ کمروں، جن میں وینٹیلیشن کا خاص نظام نہیں ہوتا، خاندان کے لیے چولہے پر کھانا پکاتی ہیں، جو صورتحال کی سنگینی کو بڑھا دیتا ہے

سورنسن نے مزید کہا ’اگر آپ اندر گرم آگ پر کھانا پکا رہی ہیں تو آپ کو اضافی گرمی کو بھی سہنا پڑتا ہے جو صورتحال کو زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے‘

جیکب آباد کے تقریباً دو لاکھ رہائشی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک میں رہ رہے ہیں۔اس علاقے میں ازراہ مذاق کہا جاتا ہے کہ ’اگر ہم جہنم میں گئے تو کمبل لیں گے۔‘
گذشتہ ماہ 14 مئی کو درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا جو سال کے اس حصے میں غیرمعمولی تھا

وزارت ماحولیاتی تبدیلی کا کہنا ہے کہ اس سال پاکستان میں موسم بہار آیا ہی نہیں بلکہ سردیوں کے بعد فوراً سے گرمی نے زور پکڑ لیا

جیکب آباد کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت پاکستان میں اس موسمیاتی تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت ہے

جیکب آباد میں گرم موسم کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تین ہیٹ سٹروک مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان مراکز میں گرمی سے متاثرہ خواتین و حضرات کو طبی امداد دی جاتی ہے

ایسے ہی ایک مرکز میں رضاکار کے طور پر کام کرنے والی لیزا خان نے تصدیق کی ہے کہ گرمی کا سب سے زیادہ اثر خواتین اور بچوں پر ہوا ہے۔

لیزا نے بتایا: ’گرمی سے خواتین اور بچے متاثر ہوئے ہیں۔ اگر خواتین کی بات کریں تو چاہے دن ہو یا رات۔ بارش ہو یا گرمی انہیں کھانا پکانا ہوتا ہے۔ دیہات میں بھی انہیں کھیتوں میں جا کر کام کرنا ہوتا ہے اور ان کے سر پر چھت بھی نہیں ہوتی۔‘

گرم موسم کے ساتھ بجلی کی بندش اور پانی کی قلت وہ اضافی مشکلات ہیں جن کا سامنا جیکب آباد کے شہری روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close