سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط73)

شہزاد احمد حمید

سندھو کہنے لگا، ”آؤ تمہیں ٹھٹہ ضلع کی ہالیجی جھیل کی سیر کراؤں۔ میرے کنارے بڑا تفریحی مقام اور مگر مچھوں کی آماجگاہ ہے۔ پاکستان کے آبی مقامات میں غالباً اس جھیل کا اونچا مقام ہے۔ مہمان پرندوں، نباتات کی بہتات اور قدرتی مناظر اس جھیل کو دوسری جھیلوں سے منفرد بناتے ہیں۔ اس کی دلکشی کی ایک اور وجہ اس کا نیلا پانی، پرسکون ماحول اور رنگا رنگ پرندوں کی بہتات اور دلکش جزیروں سے عبارت ہے۔ یہاں مہمان پرندوں میں مختلف قسم کی مرغابیاں، سارس، ہنس راج وغیرہ شامل ہیں۔ ہنس راج حسن اور محبت کا پرندہ ہے اور جب یہ جھیل کے پانی میں خاموش اور باوقار انداز میں متحرک ہوتا ہے تو فطرت کا حسن بھی دیدنی ہوتا ہے۔ اس جھیل کو جانے والے راستے پر جھکے درختوں سے چھلنی کی طرح زمین پر شطرنج کے خانے بناتی دھوپ کی کرنیں، اردگرد پھیلے کھیتوں میں کہیں سورج مکھی کے پیلے پھول تو کہیں روئی کے سفید گوشے قدرت کی فیاضیوں کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔“

ہم ”گجو“ گاؤں چلے آئے ہیں۔ گجو گاؤں سے گدھا گاڑی بیس (20) روپے میں جھیل پر لے جاتی ہے۔ باس کہنے لگے؛ ”یار! ہم گدھا گاڑی پر ہی کیوں نہ جھیل پر چلیں۔“

”خیال برا نہیں باس۔ یہ تجربہ بھی سہی۔“ میں نے جواب دیا۔ ہم سب سانولی رنگت، درمیانہ قد، تیس بتیس برس کے جوان، باریش سچل کی گدھا گاڑی پر سوار ہوئے اور جھیل کو چل دئیے ہیں۔ اس کی آنکھوں سے حسرت، چہرے سے ناامیدی اور لباس سے غربت صاف دکھائی دے رہی ہے۔ وہ اردو بھی سندھی لہجے میں بولتا ہے۔ دکھ سے بھرا لگ رہا ہے۔

باس نے پوچھا؛ ”بھائی زندگی کیسے بسر ہو رہی ہے؟“ ایک آہ بھری اور کہنے لگا؛ ”سائیں!لاکھوں روپیوں کا مالک بھی دنیا سے خالی ہاتھ ہی لوٹے گا، پھر ہمیں مالک سے کیسا شکوہ۔ ہم تو ویسے بھی خالی ہاتھ ہیں۔۔ یہ گدھا گاڑی بھی کسی کی ہے۔ ہم تو چرواہوں کے پیچھے سر جھکانے والی بھیڑوں کی طرح زندگی گزارنے والے لوگ ہیں۔ جہاں کوئی کھانے کی چیز دکھائی دی، وہیں کا راستہ پکڑ لیا۔مالک (اللہ) کا کرم دیکھیں، یہاں سے قریب کراچی جیسے شہر میں جاگتے سب بھوکے ہیں مگر سوتا کوئی بھوکا نہیں ہے۔ ایک ہم ہیں کہ جنہیں بھوک کے سوا کچھ سوجھتا نہیں ہے۔ چار پیسے محنت کے مل جاتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے۔ زندگی گزر رہی ہے۔“ اس ان پڑھ سندھی نے زندگی کا فلسفہ ہی بیان کر دیا ہے۔ غربت بھی کیا چیز ہے۔ انسان جوانی میں بوڑھا لگنے لگتا ہے۔ دل جلی باتیں کرکے وہ خاموش ہو ا تو ٹھاٹھیں مارتی ہالیجی جھیل ہمارے سامنے ہے۔

”اس جھیل کو پانی مہیا کرنے والی ’کینجھر جھیل‘ خود میرے پانی کی محتاج ہے۔ ہالیجی جھیل میں تین جزیرے پیلی کن آئی لینڈ، کور مونٹ آئی لینڈ اور کروکوڈائل آئی لینڈ ہیں اور سبھی کے سبھی بڑے تفریحی مقامات ہیں۔“ سندھو اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا ہے۔

ہمارے سامنے ہالیجی جھیل کا نیلگوں بحر بیکراں سانس کو روکتا محسوس ہوا۔ جھیل کنارے مچھلی کے شکاری کنڈی ڈالے مچھلی پھنسنے کے انتظار میں ہیں اور ساتھ ہی پان کی لمبی پیک اسی جھیل میں پھینک رہے ہیں، جو کراچی والوں کو پینے کا پانی مہیا کرتی ہے۔ یہ شام سے پہلے یہاں سے اٹھ جائیں گے کہ اس کے بعد عموماً مگرمچھ اپنی خوراک کی تلاش میں نکل آتے ہیں۔ قریب ہی محکمہ جنگلات کا ڈاک بنگلہ اب مگر مچھ بنگلہ بن چکا ہے، جہاں یہ مگر مچھ رات بھر آرام کرتے ہیں۔ اس ڈاک بنگلے کی بوسیدہ چھتیں، دیواروں کے اکھڑے رنگ، ادھڑے پلستر، ٹوٹے فرش، گرد آلود کھڑکیاں، خستہ حال دروازے، لان کی بکھری جھاڑیاں اگی بے ہنگم گھاس، ویران راستہ، خوف ناک منظر، اس محکمے کی غفلت اور لاپرواہی کی وہ کہانی ہے۔ جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس ملک کی بدقسمتی کہ یہاں کسی کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔ جواب دہی کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اس بنگلے میں تو شاید بھوت پریت بھی رہنا پسند نہ کریں۔ ڈاک بنگلے کا چوکیدار دینو بابا بھی اسی عمارت کی طرح اجڑا اور پریشان حال چالیس پنتالیس برس کا باریش شخص ہے مگر دیکھنے میں ساٹھ پینسٹھ برس کا بوڑھا لگتا ہے۔ میں نے دینو چاچا سے پوچھا؛ ”کب سے ہو یہاں چاچا؟“ کہنے لگا؛ ”یہ بھی یاد نہیں رہا بیٹا۔ چھوٹی عمر میں یہاں آیا تھا۔ اس ڈاک بنگلے کی بڑی ٹھاٹ ہوا کرتی تھی۔ میں نے یہاں ہر طرح کے لوگوں کو آتے جاتے دیکھا ہے۔ کیا وقت تھا۔ اب تو نظر ہی لگ گئی ہے اس ڈاک بنگلے کو۔“ میں نے سوال کیا؛ ”چاچا سائیں! یہ ڈاک بنگلو کب بنا تھا؟“ چاچا سائیں کے لفظ نے اسے حیران کر دیا ہے۔ کہنے لگا؛ ”سائیں! پہلی بار مجھے کسی بڑے آدمی نے چاچا سائیں کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ اتنی عزت دی ہے۔ بہوں مہربانی آپ کی۔ ہم غریبوں کو یوں بھلا کون عزت سے پکارتا ہے۔“ میں نے اس کی بات ٹوکی اور کہا؛ ”چاچا سائیں! تم ہمارے لئے قابلِ احترام ہو۔ تمہاری بھی ویسی ہی عزت ہے، جیسی ہماری ہے۔ میرے دادا مرحوم کہا کرتے تھے؛ بیٹا! یاد رکھنا عزت ہمیشہ غریبوں سے بنتی ہے۔ ان کے ساتھ ہمیشہ خوشدلی اور پیار سے پیش آؤ۔“ اس کا چہرے سرخ ہو گیا اور آنکھوں میں عجیب سی چمک اتر آئی ہے۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے بتانے لگا؛ ”سائیں! یہ ڈاک بنگلو بہت پرانا ہے، ہمارے جنم سے بھی پہلے کا ہے۔ میرا باپ بھی یہیں کام کرتا تھا۔ وہ فوت ہوا تو مجھے نوکری مل گئی اور پھر اس ڈاک بنگلے کی اہمیت نہ رہی اور یہ اجڑ گیا ہے۔ اب تو بڑے عرصہ کے بعد تم لوگ یہاں آئے ہو۔“

مشتاق نے چاچا دینو سے پوچھا؛ ”یہ پرندے یہاں کیوں آتے ہیں؟“ وہ معصومیت سے بولا؛ ”جھیلوں میں ان کا رزق ہے سائیں۔ ہالیجی جھیل پر پانچ ہزارمہمان پرندے ہر سال اترتے ہیں۔ جھیل میں پائی جانے والی گھاس میں خاص قسم کا چھوٹا سا بیج ہوتا ہے جو ان مہمان پرندوں کی من بھاتی خوراک ہے۔ یہاں زیادہ تر چادر، چیکو بطخ، لال سر، بنادر مختلف قسم کی مرغابی اور دیگر چھوٹی بطخیں مہمان بنتی ہیں۔ کچھ ان پانیوں کی اور کچھ ہماری خوراک بن جاتی ہیں۔ یہ اپنی نسل بھی بڑھاتی ہیں اور اپریل کا مہینہ آتے ہی واپسی کا سفر شروع کرتی ہیں۔ کچھ راستے میں دم توڑ جاتی ہیں لیکن اکثریت اپنے وطن وسطی ایشیائی ریاستوں میں پہنچ جاتی ہے۔“

ہمارے سامنے یہ خوش رنگ پرندے جھیل کے پانی میں تیرتے یوں دکھائی دے رہے ہیں، جیسے جھیل کی سطح پر خوش نما رنگ اترے ہوں۔ دینو بابا ہمیں ایک اوجھل راستے پر لے گیا اور زور زور سے تالی بجانے لگا ہے۔ درختوں کے سائے میں آرام کرتے ان مہمان پرندوں میں ہلچل سی پیدا ہونے لگی ہے جیسے کسی نے اچانک نیند میں ڈراؤنا سپنا دکھا دیا ہو۔ ہمارے شور سے وہ ایک ایک کرکے اڑے تو فضا رنگین ہو گئی اور پھر یہ پرندے جھیل کے نیلگوں پانی پہ بکھرتے چلے گئے ہیں۔ دینو بلوچ بتانے لگا؛ ”جناب! صبح کے پر فریب وقت جب سر سبز درختوں میں رنگین پرندے مختلف رنگ کے تاج پہنے گیت گاتے ہیں توکمال سماں بندھ جاتا ہے۔ ان کی دلکش آواز فضا میں بکھر کر اُس ذاتِ کریمی کی بڑائی بیان کرتی ہے، جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے۔ جو زمین و آسمان کا مالک ہے۔ بیٹا! رات کو یہ ان درختوں اور گھاس میں آرام کرتے ہیں۔ میرا اللہ بڑی شان اور عظمت والا ہے۔“

میں نے پوچھا؛ ”دینو بابا! زندگی کیسی گزر رہی ہے؟“ لمحہ بھر سوچ کے کہنے لگا؛ ”بیٹا! روز مرہ کے وہی معاملات ہیں، وہی بد امنی، وہی ڈاکے، وہی چوری، وہی زنا اغوا، وہی جھگڑے فساد کی باتیں، وہی حکمرانوں کے دعوے، وہی وعدے، وہی بے چارے چکی میں پستے عوام، وہی کاروبار، وہی منافع، وہی لوٹ مار، وہی عمرے، وہی حج، وہی دنیا فتح کرنے کی باتیں۔ بیٹا! بدلہ تو کچھ بھی نہیں۔ بس عوام معصوم، سادہ اور بھولے ہیں جو یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ کبھی کچھ اچھا ہوجائے گا یا بدل جائے گا، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔ بس دعوے ہوں گے اور مزید دعوے ہوں گے۔ ہم بے وقوف تھے، ہیں اور بے وقوف ہی رہیں گے۔ ہماری سادگی، معصومیت اور بے بسی ہی ہماری دشمن ہے۔ سرخ بتی کے پیچھے پیچھے چلتے آس امید سب ختم ہو جائے گی۔ نہ وہ بد لیں گے نہ ہماری قسمت۔ ان کی دولت بڑھتی جائے گی اور ہماری غربت۔ بیٹا! سب کچھ ویسا ہی رہتا ہے، بس ہم نہیں رہتے۔ گویا ہمارا ہونا نہ ہونا سب برابر ہے۔ پھر نہ ہونے کا اتنا غم کیسا۔ اتنا گھمنڈ کیسا، کس لئے بیٹا۔ کس کے لئے؟ پر بیٹا ایک آس ہے جو نہیں ٹوٹتی۔ اللہ بھی فرماتا ہے؛ مایوسی کفر ہے۔ بس کفر سے ڈرتے ہیں کہ اللہ ناراض نہ ہو جائے۔“ دانائی کی ان باتوں نے ہمیں حیران کر دیا ہے۔ کتابیں علم سے بھری، مگر دانائی سے خالی ہوتی ہیں۔

ہالیجی جھیل پر ان مہمان پرندوں اور مچھلی کے شکاریوں کے علاوہ تفریح کے لئے ملکی اور غیر ملکی سیاح پکنک منانے آتے ہیں۔ چھٹی والے دن خوب رونق ہوتی ہے۔اس وقت بھی چند غیر ملکی سیاح یہاں موجود ہیں۔ جاپانی، کوریائی اور جرمن۔ ان غیر ملکیوں کو پاکستان کے جنگلات، دریا، سمندر، برف پوش چوٹیاں، اور شاندار موسم کھینچ لاتے ہیں۔ یہاں آئے سیاحوں میں سے ایک جرمن سیاح (مسٹر ماخ برلن کا رہائشی) نے مجھ سے پوچھا؛ ”کیا تم نے یہ ریسٹ ہاؤس دیکھا ہے۔ کتنا ڈراؤنا ہے یہ؟ کیا یہ جنگلی جانوروں کے لئے ہے۔“ میں کوئی جواب نہ دے سکا۔ شرمندگی میرے چہرے پہ عیاں ہے۔ مجھے خاموش دیکھ کر وہ کہنے لگا؛ ”تھوڑی سی توجہ اور تھوڑی سی رویہ میں تبدیلی پاکستان میں سیاحت کو فروغ دے سکتی ہے۔ تم خوش قسمت ہو۔ اللہ نے اس ملک کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس خوش قسمتی کا فائدہ اٹھانے کی بجائے ہر وقت کی لڑائی جھگڑے، چور بازاری، جھوٹ، فریب، دروغ گوئی، نا انصافی اور لوٹ مار ہی کیوں ہے؟ امیر ہو یا غریب، سبھی داؤ لگنے یا لگانے کے انتظار میں کیوں رہتے ہیں؟“ میں نے جواب دیا؛ ”ایسی بات نہیں۔ کچھ لوگ جو ایسے دھندوں میں مصروف ہیں، نا عاقبت اندیش ہیں۔ سارے ایسے نہیں ہیں۔ یہ تعداد میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ہم پرامن لوگ ہیں۔ ہم دشمنوں کی سازش اور پراپیگنڈا ناکام بنا دیں گے، جو ہم میں نفرت کے بیج بو کر آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ ہم محبت کرنے والے زندہ دل لوگ ہیں۔ ہمارا مذہب رواداری کا درس دیتا ہے۔ پھر تمھیں اتنی فکر کیوں ہے؟“ وہ ہنسا اور کہنے لگا؛ ”بس یہی اس ملک کے رہنے والوں کا المیہ ہے۔ تم ہر شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہو۔ جس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے، تم اس کو بہت اہم کر دیتے ہو۔ اصل مسائل پر توجہ ہی نہیں کرتے ہو۔ ’آؤ باتیں کریں‘ تمہارا اندازِ زندگی بن چکا ہے۔ ذرا بتاؤ! یہ ملاوٹ کرنے والے، جھوٹ بولنے والے، انصاف نہ کرنے والے، ذخیرہ اندوزی کرنے والے، رمضان میں قیمتیں بڑھانے والے، مسجد سے ٹوٹیاں اتارنے والے، جوتیاں چوری کرنے والے، جعلی دوائیاں بنانے اور بیچنے والے، رشوت لینے اور دینے والے، نشہ بیچنے والے، اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے، قبضہ مافیا، فرقوں میں بٹے نفرتیں بانٹنے والے، کیا یہ سب تمہارے اپنے ہم وطن ہی نہیں ہیں؟ تم حقیقت کیوں نہیں مانتے۔ تم اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ذمہ دار دوسروں کو کیوں ٹھہراتے ہو۔ کیا یہ عجیب اتفاق نہیں ہے؟ ’پاکستانی دولت مند کے لئے کعبہ اور عدالت دونوں کے دروازے کھل جاتے ہیں جبکہ غریب بیچارہ دونوں کے چکر ہی لگاتا رہتا ہے۔‘ جس دن تم نے حقائق جان کر اس ملک کے مسئلے حل کرنے کی ٹھان لی تم مہذب اور ترقی یافتہ کہلانے لگو گے۔ دنیا تمہاری عزت کرے گی۔ اس ملک کو بہتر بنانے کے لئے تم نے مل کر ہی کام اور جہد و جہد کرنی ہے، کوئی باہر سے نہیں آئے گا۔ جینا سیکھو۔۔ مجھے اس دیس سے پیار ہے۔ بڑے شاندار اور محبت کرنے والے لوگوں کا ملک ہے۔ کاش! یہ ملک پہلے جیساہی ہو جائے۔ امن اور محبت کا گہوارہ۔ یہاں پھر سے کرکٹ کے میدان سج جائیں۔ مہم جو یہاں کی چوٹیاں ہی سر کرنے نہ آئیں بلکہ اس ملک کی تاریخی عمارات، صدیوں کی ثقافت کا بھی جی بھر کر لطف اٹھائیں۔تمہاری مہمان نوازی اور پیار سے لطف اندوز ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے میں آزادانہ اس ملک میں گھوموں پھروں بناء کسی خوف کے بنا کسی رکاوٹ کے۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close