نبی داد کولوائی کے ساتھ کچہری اور ماڑی پور میں نمک نکالنے کی کہانی
ذیل میں دی گئی تصویر میں میرے، ڈاکٹر اصغر دشتی اور کامریڈ واحد بلوچ کے ساتھ جو ہشاش بشاش بوڑھا نظر آرہا ہے یہ 90 سالہ نبی داد ولد سومار کولوائی ہے، مکران کے علاقے کولوا سے تعلق کے وجہ سے وہاں کے لوگ کولوائی کہلاتے ہیں۔
ماڑی پور یا ماری پور کے نمک نکالنے (نمک کش) کارخانوں کے متعلق میں نے مختصراً اپنی کتاب ”کراچی سندھ جی مارئی“ میں لکھا ہے۔ آج کی کہانی وہاں پر کام کرنے والے ایک مزدور کی کہانی ہے، جس نے گڑھوں میں سمندر کے پانی کو جمع کر کے خشک ہو کر نمک بننے سے لے کر بڑی بڑی فیکٹریوں میں نمک بنتے دیکھا ہے۔
نبی داد کولوائی، جو اصغر دشتی کے جاننے والے ہیں، کے توسط سے ایک گرم دن کو ہم کھڈہ سے ماڑی پور روانہ ہوئے۔ بدھنی برساتی ڈورو (نالہ) پر قائم قدیم ٹکری گوٹھ کے لین پاڑا پہنچے، جہاں نبی دار ہمارے انتظار میں تھے۔ اس بڑے دل والے مزدور کے چھوٹے سے گھر میں ہم نے کچہری کی۔
کچہری میں انہوں نے بتایا کہ اس وقت ان کی عمر 90 سال ہے، وہ ماری پور میں پیدا ہوئے۔ انگریز جب یہاں آئے اس وقت ان کے دادا اور والد سومار کولوا مکران سے باقی لوگوں کے ساتھ یہاں آئے، جہاں پہلے کچھ ذکری بلوچوں کے گھر تھے۔سمندر کے کنارے ماہیگیر رہتے تھے۔ بدھنی گوٹھ، ٹکری گوٹھ میں سندھی آبادیاں تھیں اور اب بھی ہیں۔
نبی داد نے اپنے والدین سے سنی باتوں سے ہمیں مستفیض کرتے ہوئے کہا کہ ”یہاں ہندوؤں کی آبادی بھی تھی، جو نمک بنانے اور نکالنے کا کام کرتے تھے۔اس طرح ان کے والد، دادا اور دوسرے لوگ بھی سمندر کے کنارے سمندر کا پانی جمع کر کے اس پانی کے سوکھنے کے بعد کھارے پانے سے جو نمک بنتا تھا، وہ جمع کر کے گدھوں پر لاد کر کھڈہ، مچھی میان لے جاتے تھے۔“
نمک کانوں میں نمک نکالنے والوں کو ”نوناری“ کہتے تھے۔ (یاد رہے کہ سندھ میں نوناری قبیلہ بھی ہے، ان کا نمک سے تعلق ہے کہ نہیں، نوناری دوست وضاحت کر سکتے ہیں)
یہاں نوناری نمک نکالنے اور بنانے والے کو کہتے تھے، چاہے اس کا تعلق کسی ذات قبیلہ سے ہو۔انگریز دور میں اکثر نمک کش یا نوناری بلوچ تھے، بعد میں بننے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور بھی بلوچ تھے، جو مکران کے علاقوں گوادر، پسنی، جیونی، کولوا، سر بندر اور چکولی سے یہاں آئے تھے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
نبی داد نے مزید کہا کہ ”ان نوناریوں میں میرے والد کے علاوہ حاجی کھموں، ناگمان، سماعیل مشہور نوناری تھے۔
جب فیکٹریاں نہیں بنی تھیں، حکومت کا کنٹرول نہیں تھا۔ یہاں 72 لوگ کام کرتے تھے (جن کے ناموں کی لسٹ ابھی تک نبی داد کے پاس محفوظ ہے) یہ 1875ع سے پہلے کی بات ہے۔ ہاشم نوناری ان کا لیڈر تھا۔ جب کارخانے قائم ہوئے تو یہاں یونین سازی بھی ہوئی“
نبی داد نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے بڑے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ یہاں نمک نکالنے والی کانوں کے مقام پر ایک انگریز معائنہ کرنے آیا، جس کا نام ماری یا مارے تھا۔ وہ نمک ڈیپارٹمنٹ کا افسر تھا۔ افسر نے کہا کہ ’آپ صرف یہاں نمک نکال کر جمع کریں یہیں آپ کو پیسے ملیں گے اور یہاں سے ہم خود وہ نمک لیکر جائیں گے‘
سو من نمک پر ہمیں دس روپئے ملتے تھے“
مسٹر مری یا ماری کے بارے میں بتاتا چلوں کہ یہ مسٹر اے۔جی ماری یا موری ہیں، جو 1878ع میں سندھ سالٹ ڈیپارٹمنٹ میں سالٹ روینیو آفیسر تھے۔ ان کی کوششوں سے کورچی سالٹ کمپنی اور ماری پور سالٹ ورکس قائم ہوئے۔اس لیے ماری پور کے بارے میں مشہور ہے کہ اس افسر ماری کے نام سے یہ ماری پور مشہور ہوا۔ لیکن ایک اور خیال جو مضبوط خیال ہے کہ یہاں ایک ہندو کی پتھر کی ”ماڑی“ تھی، اس وجہ سے یہ ماڑی پور مشہور ہوا۔ جس طرح کیا ماڑی۔ (یعنی کیا کی ماڑی) ، روپا ماڑی (روپا کی ماڑی) وغیرہ
1878 میں جو پہلا نمک نکالنے کا کارخانہ قائم ہوا، وہ ایک جرمن نژاد یہودی گرین فیلڈ گریکس نے قائم کیا۔ آج کا گریس ولیج اس نام سے مشہور ہے۔
یہاں وقتاً فوقتاً انگریز دور میں نو فیکٹریاں قائم ہوئیں۔ جن میں مشہور یہ ہیں
1۔گریکس سالٹ فیکٹری
2۔گلبائی سالٹ فیکٹری (جو جمشید مہتا کے والد کی فیکٹری تھی۔ گلبائی جمشید کی والدہ کا نام ہے)
3.نسروانجی مہتا سالٹ فیکٹری
4.ایلڈجی ڈنشا سالٹ فیکٹری
5.خورشید ھومی سالٹ فیکٹری
6.لکشمی سالٹ فیکٹری اور دیگر
سوائے خورشید ھومی فیکٹری کے کچھ کی باقیات ابھی موجود ہیں، باقی سب ختم ہو چکی ہیں۔ ان فیکٹریوں کو پاکستان بننے کے بعد جان بوجھ کر بند کروایا گیا جس سے سیکڑوں محنت کش بےروزگار ہوئے۔
قصہ نبی داد کے کچہری کا چل رہا تھا۔ کچہری کے دوران چائے اور بسکٹ بھی آگئے۔ اب ہم نے سوال کیا کہ ”آپ لوگوں کی تفریح کے لیے کیا تھا؟“
انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ”صاحب مزدور لوگوں کی کیا تفریح ہوگی۔۔ عیدین میں یہاں سے دور بدھنی گوٹھ عید پڑھ (عید گاھ) نماز پڑھنے اور ماری پور بیس میں قائم ’اسٹیشن سنیما‘ میں فلمیں دیکھنا اور جہاں اب جاوید بحریا ہے، وہاں حاجی ابراھیم بلوچ، جو میر عبدالرحیم کے بیٹے تھے، ان کا بہت بڑا باغ تھا، وہاں جاتے تھے۔ جب حب ڈیم بنا تو یہ باغ ویران ہونے لگا ، نیوی کے ریٹائر افسروں نے اپنی ایک سوسائٹی بنائی، یہ زمین انہوں نے ھتھیا لی۔ ابراھیم کورٹوں کے چکر کاٹتے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ خوبصورت باغ، جہاں فلموں کی شوٹنگ بھی ہوتی تھی، اب جاوید بحریا سوسائٹی کہلاتی ہے“
نبی داد نے بتایا کہ ”مزدوروں کے لیے یہاں پتھر کی بنی ڈسپنسری بھی تھی، اب وہاں کسٹم والوں کا قبضہ ہے۔ علی ڈنا علی محمد نام سے ایک سندھی اسکول یہاں جھونپڑی میں قائم تھا ، اب اس کی دو منزلہ عمارت ہے۔لیمارکیٹ سے ایک ہندو سیٹھ کی 57 نمبر بس چلتی تھی، جو ماڑی پور بیس سے پنکھا ہوٹل تک آتی تھی ۔ یہ ہوٹل موسٰی جمعدار کا تھا۔ شروع میں پانی، بدھنی نالہ کے ساتھ کنویں تھے، وہاں سے حاصل کرتے تھے۔“
انہوں نے جو آخری بات کہی، اس نے ہم سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔۔ ”یہاں مزدور جانوروں جیسی زندگی گزارتے تھے، ان کے ہاتھ پاؤں سے کھارے نمک کی وجہ سے خون رستا رہتا تھا لیکن مالکوں نے کبھی بھی چمڑے کے موزے یا لانگ بوٹ تک نہیں دیے۔ پاکستان بننے سے پہلے کچھ سہولتیں تھیں، لیکن آزادی کے بعد ہم مزدور فیکٹری مالکوں کے غلام تھے۔“
اس کچہری کے بعد ہم نے ڈاکٹر اصغر دشتی کی رہنمائی میں ذکری محلہ، جس کو "دِلے پُھل” کا نام دیا گیا ہے ۔(یعنی دل کے پھول) کا دورہ کیا۔
اس محلہ میں قائم 1857ع کا ذکر خانہ طوبہ کا دورہ کیا، جو ایک بلوچی شاعرہ نوراں نے قائم کیا تھا۔ یہ زنانہ ذکر خانہ ہے۔نوراں کا اصل نام نور خاتون زوجہ پیر بخش ہے، یہ اصل گوادر کی تھیں۔
اس طرح ہمارا ماڑی پور کے ٹکری ولیج، لین پاڑا اور دل پھل مزدور بستیوں کا سفر تمام ہوا۔
یاد رہے کہ ٹکری ولیج کا نام تبدیل کرکے مسرور کالونی رکھا گیا ہے۔