بلوچ خواتین رہنماؤں نے کراچی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج پر پولیس کے تشدد کو بلوچ قبائلی روایات کی پامالی قرار دیتے ہوئے کہا ہے ”خواتین اور بچوں کے تقدس کا احترام نہ کرنا اور انہیں گرفتار کرکے پولیس موبائلوں میں ڈالنا قابل مذمت ہے“
گزشتہ روز کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ نے کہا ”پیر کو سندھ اسمبلی کے سامنے ہم اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کے لیے پرامن احتجاج کررہے تھے۔ اس دوران بلوچ ماؤں، بہنوں اور نوجوانوں پر تشدد کیا گیا، ان کے سر سے بلوچی چادر چھین کر انہیں دہشت گردوں کی طرح پولیس موبائلوں میں گھیسٹا گیا اور تھانے میں گالی گلوچ کا نشانہ بنایا گیا، یہ عمل بلوچی روایات کے برخلاف تھا“
آمنہ بلوچ نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”سندھ میں ہمارے دوپٹے اور چادر محفوظ نہیں، ایسا نہ ہو کہ بلوچستان میں بھی سندھی حکمرانوں کے لیے جگہ تنگ ہوجائے“
انہوں نے اپیل کی کہ سندھی قوم سندھ دھرتی میں بے شمار بلوچ نوجوانوں کی بازیابی میں بلوچوں کا ساتھ دیں
خاتون رہنما کا کہنا تھا ”سندھ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے ان سے رابطہ کر کے بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ روز سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ خواتین اور بچوں پر تشدد کا نوٹس لیا اور ایک انکوائری کمیٹی بنائی ہے“
انہوں نے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ سندھ دھرتی میں بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کیے جانے پر انکوائری کمیٹی بنائی جائے
یاد رہے کہ کراچی میں گزشتہ روز بلوچ خواتین اور بچوں نے جامعہ کراچی سے ’لاپتہ ہونے والے بلوچ طلبہ کی بازیابی‘ کے لیے سندھ اسمبلی کی عمارت کے قریب مظاہرہ کیا تھا۔ اس موقع پر پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے متعدد افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔ احتجاج اور اس کے خلاف پولیس کارروائی کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر زیرگردش رہیں
پریس کانفرنس کے دوران خواتین رہنماؤں نے دعوی کیا کہ ’پولیس نے ان کے پچاس افراد کو حراست میں لے کر انہیں کلفٹن اور دیگر تھانوں میں رکھا جہاں نوجوانوں پر تشدد کیا اور بلوچ خواتین سے سونے کی چین، زیورات اور موبائل فونز چھین لیے، یہ سامان واپس کر کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے‘
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ نے کہا ”اب بھی سندھ میں ہمارے بے شمار نوجوان اور بزرگ سیکیورٹی اداروں کے قید میں ہیں“