خالی ڈھول (افسانہ)

لیو ٹالسٹائی (ترجمہ: عقیلہ منصور جدون)

ایمیلیان ایک مزدور تھا، جو اپنے مالک کے لئے کام کرتا تھا۔ ایک دن چراگاہ سے گزرتے ہوئے وہ ایک مینڈک، جو اچانک پھدک کر اس کے سامنے آ گیا تھا، اپنے پاؤں تلے دینے ہی لگا تھا، لیکن اس نے اپنے آپ کو بچا لیا۔ تب اچانک اس نے اپنے پیچھے سے کسی کو اسے پکارتے سنا۔
ایمیلیان نے ارد گرد دیکھا تو اسے ایک خوبصورت دوشیزہ دکھائی دی، جس نے اسے کہا، ”ایمیلیان ،تم شادی کیوں نہیں کرتے؟“

”پیاری لڑکی، میں کیسے شادی کروں؟“ اس نے کہا، ”میرے پاس بدن پر پہنے کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں اور کوئی بھی مجھے بطور خاوند قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگی“

وہ بولی ”مجھے بیوی بنا لو۔۔۔“

ایمیلیان کو دوشیزہ پسند تھی، ”مجھے خوشی ہوگی“ اس نے کہا، ”لیکن ہم کہاں اور کیسے رہیں گے؟“

”اس کی فکر کیوں کریں“ لڑکی نے جواب دیا، ”بس صرف زیادہ کام کرنا ہوگا اور کم سونا ہوگا۔۔ ہم اپنے آپ کو کہیں بھی لباس اور خوراک مہیا کر سکتے ہیں“

”بالکل ٹھیک، چلو پھر کر لیں شادی۔۔“ ایمیلیان نے کہا، ”پر شادی کرنے ہم کدھر جائیں گے؟“

”ہمیں شہر جانا ہو گا“

اس طرح ایمیلیان اور وہ لڑکی شہر چلے گئے۔ وہ اسے شہر کے سرے پر ایک جھونپڑی میں لے گئی۔ انہوں نے شادی کر لی اور گھر داری شروع کر دی۔

ایک دن بادشاہ شہر میں سے گزرتا ہوا ایمیلیان کی جھونپڑی کے پاس سے گزرا۔ ایمیلیان کی بیوی بادشاہ کو دیکھنے باہر نکلی۔ بادشاہ اسے دیکھ کر بہت حیران ہوا۔۔ ”ایسا حسن کہاں سے آیا ہے؟“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی گاڑی رکوائی اور ایمیلیان کی بیوی کو بلایا اور اس سے پوچھا ”تم کون ہو؟“

”ایمیلیان، کسان کی بیوی ہوں۔“ اس نے بتایا

”تم جیسی حسین لڑکی نے ایک کسان سے کیوں شادی کی؟“ بادشاہ نے کہا، ”تمہیں تو ملکہ ہونا چاہیے۔۔“

”آپ کی مہربانی کا شکریہ“ اس نے کہا، ”لیکن میرے لئے کسان خاوند ہی بہتر ہے“

بادشاہ نے کچھ لمحے اس سے گفتگو کی اور پھر آ گے بڑھ گیا۔ وہ محل پہنچ گیا لیکن وہ ایمیلیان کی بیوی کو دماغ سے نہیں نکال سکا۔ وہ ساری رات سو نہ سکا اور یہی سوچتا رہا کہ وہ اسے اپنے لئے کیسے حاصل کر سکتا ہے۔۔ اسے کوئی رستہ نہ سوجھا تو اس نے اپنے ملازموں کو بلایا اور انہیں کوئی حل ڈھونڈنے کا کہا

بادشاہ کے ملازمین نے کہا ”ایمیلیان کو محل کام کے لئے بلائیں اور ہم اس سے اتنا کام کروائیں گے کہ وہ مر جائے گا۔۔ اس طرح اس کی بیوی بیوہ ہو جائے گی تو پھر آپ اسے حاصل کر لیں۔“

پھر پیغام رساں کو اس ہدایت کے ساتھ روانہ کر دیا گیا کہ بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ ایمیلیان محل میں بطور ملازم آئے اور وہ دونوں میاں بیوی محل میں رہیں۔۔

پیغام رساں نے بادشاہ کا پیغام ایمیلیان کو پہنچایا، اس کی بیوی نے کہا ”ایمیلیان، جاؤ سارا دن کام کرو لیکن رات کو گھر واپس آ جانا۔۔“

اس طرح ایمیلیان محل پہنچا تو محل کے نگران نے اس سے پوچھا ”تم بیوی کے بغیر اکیلے کیوں آئے ہو؟“

”میں کیوں اسے گھسیٹتا پھروں۔۔؟ اس کے پاس رہنے کے لیے گھر موجود ہے۔۔“ ایمیلیان نے جواب دیا

بادشاہ کے محل میں انہوں نے اسے دو افراد کے کرنے جتنا کام دیا۔اس نے کام شروع کیا لیکن اسے امید نہیں تھی کہ وہ کام ختم کر لے گا۔ لیکن جب شام ہوئی تو آناً فاناً سارا کام مکمل ہو گیا۔ نگران نے دیکھا کہ کام تو ختم ہو گیا ہے تو اگلے دن اس سے چار گنا زیادہ کام کروانے کے لئے رکھ چھوڑا

ایمیلیان گھر پہنچا، گھر میں ہر چیز صاف ستھری تھی۔ تندور گرم کیا جا چکا تھا۔ اس کا کھانا پکا ہوا تھا۔ اس کی بیوی میز کے ساتھ بیٹھی سلائی کرتے ہوئے اس کا انتظار کر رہی تھی

اس نے خاوند کا استقبال کیا میز پر کھانا لگایا اسے کھانے اور پینے کے لئے دیا اور پھر اس سے کام کی بابت پوچھنے لگی

”آہ۔۔۔“ اس نے جواب دیا ”بہت برے حالات ہیں۔۔۔ انہوں نے مجھے میری طاقت سے زیادہ کام دیا، وہ مجھے کام سے مار دینا چاہتے ہیں۔“

”کام کے بارے میں پریشان مت ہو، کام کے دوران آگے پیچھے یا یہ دیکھنے کے لئے، کہ کتنا کام ہو چکا ہے یا کتنا رہتا ہے۔۔ مت سوچنا، بس کام کرتے رہو اور سارا کام ہو جائے گا“

ایمیلیان لیٹ گیا اور سو گیا۔ اگلی صبح وہ پھر کام پر گیا اور ایک بار بھی ادھر ادھر دیکھے بغیر کام کرتا رہا اور شام تک سارا کام مکمل ہو گیا۔ وہ اندھیرا پڑنے سے قبل گھر پہنچ گیا۔

بار بار وہ اس کا کام بڑھاتے رہے لیکن ہر بار وہ کام ختم کر لیتا اور سونے کے لئے گھر چلا جاتا۔ اس طرح ایک ہفتہ گزر گیا اور بادشاہ کے ملازمین کو احساس ہوا کہ وہ اس طرح کے کام سے اسے کچل نہیں سکتے۔ اس لئے انہوں نے اسے ایسا کام کروانے کا سوچا، جس میں فنی مہارت کی ضرورت ہو، لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔ بڑھئی، مستری، چھت ڈالنے، الغرض جو بھی کام اسے کرنے کا کہا جاتا، ایملیاں اسے وقت پر مکمل کر لیتا اور رات کو اپنی بیوی کے پاس چلا جاتا۔ اس طرح دوسرا ہفتہ بھی گزر گیا

اب بادشاہ نے اپنے ملازمین کو بلایا اور کہا ”کیا میں تمہیں بلاوجہ پال پوس رہا ہوں۔۔ دو ہفتے گزر گئے اور تم سے کچھ نہ ہو سکا۔ تم نے ایمیلیان کو کام سے تھکا کر مارنا تھا، لیکن میں اپنی کھڑکی سے دیکھتا ہوں کہ وہ ہر شام خوشی خوشی گنگناتا ہوا اپنے گھر چلا جاتا ہے۔۔ کیا تم مجھے بے وقوف بنا رہے ہو!؟“

بادشاہ کے ملازمین توجہیات پیش کرنے لگے۔۔ ”ہم نے اسے مشکل کام سے تھکانے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی کام اس کے لئے بہت سخت ثابت نہیں ہوا“ انہوں نے کہا ”اس نے وہ سارا کام ایسے کیا جیسے کہ اس نے جھاڑو پھیر دیا ہو۔ وہ بلکل نہیں تھکا۔ پھر ہم نے اسے فنی مہارت والے کام دئے جو کہ ہمیں یقین تھا کہ اسے سمجھ نہیں آئیں گے لیکن اس نے وہ بھی کر لئے۔ چاہے کوئی بھی کام دے دو، وہ کر لیتا ہے۔ کیسے کرتا ہے، یہ کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ یا تو وہ خود یا اس کی بیوی کوئی جادو جانتی ہے، جس سے ان کو مدد ملتی ہے۔ ہم خود اس سے عاجز آ چکے ہیں۔۔ اور کوئی ایسا کام چاہتے ہیں جو وہ نہ کر سکے۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ اس سے ایک دن میں گرجا گھر بنوائیں۔۔ آپ ایمیلیان کو بلوائیں اور اسے محل کے سامنے ایک دن میں گرجا گھر تعمیر کرنے کا حکم دیں اور اگر وہ نہ کر سکے تو نافرمانی کے جرم میں اس کی گردن کاٹ دیں“

بادشاہ نے ایمیلیان کو بلوا بھیجا اور اسے حکم دیا ”میرے محل کے سامنے والے میدان میں بڑا گرجا تعمیر کرو اور اسے کل شام تک مکمل کر دو۔۔ اگر تم نے مکمل کر لیا تو میں تمہیں انعام اکرام سے نوازوں گا، لیکن اگر ناکام ہوئے تو تمہارا سر قلم کر دیا جائے گا“

جب ایمیلیان نے بادشاہ کا حکم سنا تو وہ واپس مڑا اور گھر چلا گیا۔ اس نے سوچا اب میرا انجام قریب ہے۔۔ بیوی کے پاس پہنچ کر کہا ”تیار ہو جاؤ بیگم، ہمیں یہاں سے فرار ہونا ہے وگرنہ میں بے قصور مارا جاؤں گا۔“

”تم کس چیز سے اتنے خوف زدہ ہو۔۔؟“ بیوی نے پوچھا، ”اور ہم کیوں فرار ہوں!؟“

”میں کیسے خوف زدہ نہ ہوں۔۔۔!؟ بادشاہ نے مجھے کل ایک دن میں گرجا کی تعمیر کا حکم دیا ہے۔ اگر میں ناکام ہوتا ہوں تو وہ میرا سر قلم کر دے گا۔ اب صرف ایک ہی کام کیا جا سکتا ہے کہ ہم فرار ہو جائیں کل تک ابھی وقت ہے“

لیکن اس کی بیوی اس کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں تھی۔۔ ”بادشاہ کے بہت سارے سپاہی ہیں“ اس نے کہا، ”وہ ہمیں ہر جگہ سے پکڑ لیں گے، ہم ان سے بھاگ نہیں سکتے۔ ہمیں، جب تک ہمت ہے، اس کا حکم ماننا ہے“

”میں کیسے اس کا حکم مانوں۔۔ جب کہ مطلوبہ کام میری طاقت سے باہر ہے“

”آہ۔۔ اچھے میاں، دل چھوٹا مت کرو، اپنا کھانا کھاؤ اور سو جاؤ، کل صبح جلدی جاگ جانا اور ہر کام تیار ہوگا“

بس ایمیلیان لیٹ کر سو گیا۔ اگلے دن اس کی بیوی نے اسے جلدی جگا دیا ”جلدی جاؤ“ اس نے کہا ”اور گرجا مکمل کرو۔۔ یہ رہیں کیلیں اور ہتھوڑا، ابھی وہاں ایک دن کے لئے کافی کام ہے“

ایمیلیان شہر گیا، محل کے میدان میں پہنچا اور دیکھا کہ وہاں ایک بڑا گرجا موجود تھا جس کا ابھی کچھ کام کرنا باقی تھا۔ ایمیلیان جو کام رہتا تھا، وہ کرنے میں مصروف ہو گیا اور شام تک سب کچھ مکمل ہو گیا۔

جب بادشاہ جاگا، اس نے اپنے محل سے باہر دیکھا، تو اسے گرجا نظر آیا اور ایمیلیان ادھر ادھر کیلیں ٹھوک رہا تھا۔ بادشاہ ناخوش ہو گیا، وہ اس بات پر ناراض تھا کہ وہ ایمیلیان کو سزا دے کر اس کی بیوی حاصل نہیں کر سکا۔ اس نے پھر اپنے ملازمین کو بلایا اور کہا، ”ایمیلیان نے پھر اپنا کام ختم کر لیا ہے اور اسے مارنے کا کوئی جواز نہیں۔۔ یہ کام بھی اس کے لئے مشکل نہیں تھا۔ تم اس کے لئے کوئی زیادہ مکارانہ چال سوچو، نہیں تو میں اس کے ساتھ ساتھ تم سب کی بھی گردنیں اڑا دوں گا!“

تب اس کے ملازمین نے منصوبہ بنایا کہ اسے محل کے گرد دریا بنانے، جس میں جہاز تیر رہے ہوں، کا حکم دیا جاۓ۔ بادشاہ نے ایمیلیان کو بلایا اور اسے یہ نیا کام کرنے کا حکم دے دیا

اس نے کہا ”اگر تم ایک رات میں گرجا تعمیر کر سکتے ہو تو تم یہ بھی کر سکتے ہو۔۔ کل سب تیار ہونا چاہیے اگر نہ ہوا تو میں تمہارا سر اڑا دوں گا“

ایمیلیان اب پہلے سے زیادہ مایوس تھا اور دلی افسردگی کے ساتھ بیوی کے پاس پہنچا۔
”تم اتنے اداس کیوں ہو؟“ بیوی نے پوچھا، ”کیا بادشاہ نے نیا کام دے دیا ہے؟“

ایمیلیان نے اسے بتایا اور ساتھ ہی کہا ”ہمیں بھاگ جانا چاہیے“

لیکن اس کی بیوی نے جواب دیا ”جہاں بھی بھاگیں، سپاہیوں سے نہیں بچا جا سکتا۔ حکم کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہیں۔۔“

”لیکن یہ کیسے ہوگا“ ایمیلیان بے بسی سے چلایا

”آہ! اے میرے اچھے میاں، مایوس نہ ہو، کھانا کھاؤ اور سو جاؤ۔۔ صبح جلدی اٹھنا، سب کچھ تیار ہوگا“

ایمیلیان لیٹ گیا اور سو گیا۔ صبح بیوی نے جگایا ”جاؤ“ اس نے کہا، ”محل جاؤ، سب کچھ تیار ہے، صرف محل کے سامنے ایک ٹیلہ رہ گیا ہے۔ بیلچہ لے جاؤ اور اسے ہموار کر دو“

جب بادشاہ جاگا تو اس نے وہاں، جہاں پہلے کچھ نہیں تھا، دریا دیکھا۔۔ جہاز آ جا رہے تھے اور ایمیلیان بیلچے سے ٹیلہ ہموار کر رہا تھا۔ بادشاہ بہت حیران ہوا، لیکن وہ نہ تو دریا سے اور نہ جہازوں سے خوش ہوا، ایمیلیان کو ختم نہ کر سکنے کی وجہ سے وہ بہت غصے میں تھا۔ اس نے سوچا ’کیا ایسا کوئی کام نہیں جو وہ نہ کر سکے۔۔ کیا کیا جائے آخر؟‘ اس نے پھر اپنے ملازمین کو بلایا اور ان کا مشورہ مانگا ”کچھ ایسا کام ڈھونڈو، جو وہ نہ کر سکے۔۔ ہم جو منصوبہ بناتے ہیں، وہ اسے مکمل کر لیتا ہے۔۔ اس طرح میں اس کی بیوی حاصل نہیں کر سکتا“

بادشاہ کے ملازمین نے بہت سوچا اور آخر ایک منصوبہ بنایا۔ وہ بادشاہ کے پاس آئے اور اسے کہا ”ایمیلیان کو بلا کر کہے ’وہاں جاؤ، نہیں معلوم کہاں۔۔ اور لے کر آؤ۔۔ وہ، نہیں معلوم کیا۔۔‘ اس طرح وہ بچ نہیں پائے گا۔ وہ جدھر بھی جائے گا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ صحیح جگہ نہیں گیا، اور جو بھی وہ لائے گا، آپ کہہ دیں گے کہ یہ درست چیز نہیں ہے۔ اس طرح آپ اسے قتل کر کے اس کی بیوی حاصل کر سکیں گے“

بادشاہ خوش ہو گیا، ”یہ بہترین تجویز ہے“ اس نے کہا

اب بادشاہ نے ایمیلیان کو بلایا اور کہا ”وہاں جاؤ، معلوم نہیں کہاں۔۔ اور لے کر آؤ، وہ نہیں معلوم کیا۔۔ اگر تم ناکام ہوئے تو میں تمہیں قتل کروا دوں گا“

ایمیلیان نے بیوی کے پاس آ کر جو کچھ بادشاہ نے کہا تھا، اسے بتایا۔ اس کی بیوی سوچنے لگی۔
”اچھا۔۔۔ تو انہوں نے بادشاہ کو تمہیں پکڑنے کا طریقہ بتا دیا ہے۔ اب ہمیں محتاط ہونا پڑے گا۔“

وہ بیٹھی سوچتی رہی اور آخرکار خاوند سے کہا ”تم ہماری دادی اماں، بوڑھی کسان عورت، سپاہیوں کی ماں کے پاس جاؤ، اور اس سے مدد مانگو۔۔ اگر وہ تمہاری مدد کسی چیز سے کرتی ہے تو وہ لے کر فوراً محل پہنچو، میں وہیں ہوں گی، میں اب ان سے فرار نہیں ہو سکتی، وہ مجھے زبردستی لے جائیں گے، لیکن زیادہ دیر تک نہیں۔ اگر تم ویسے ہی کرتے رہے، جیسے دادی اماں کہتی ہے تو تم بہت جلد مجھے بچا لو گے“

بیوی نے خاوند کو سفر کے لئے تیار کیا۔ اسے ایک بٹوہ دیا اور ایک تکلہ دیا ”یہ اسے دکھانا وہ سمجھ جائے گی کہ تم میرے خاوند ہو“ اور پھر اس کی بیوی نے اسے وہ سڑک دکھائی، جدھر اس نے جانا تھا

ایمیلیان روانہ ہو گیا۔ وہ شہر سے نکل گیا اور وہاں پہنچ گیا، جہاں کچھ سپاہی مشقیں کر رہے تھے۔ ایمیلیان کھڑا ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔ مشقوں کے بعد سپاہی آرام کرنے کے لئے بیٹھ گئے۔ تب ایمیلیان ان کے پاس گیا اور پوچھا ”بھائیو کیا تمہیں رستہ معلوم ہے۔۔ وہاں کا، نہیں معلوم کہاں؟ اور میں کیسے حاصل کر سکتا ہوں وہ، معلوم نہیں کیا“

سپاہیوں نے حیرانی سے اسے سنا اور پوچھا ”تمہیں کس نے اس مہم پر بھیجا ہے؟“

اس نے بتایا ”بادشاہ نے“

”ہم خود بھی جس دن سے سپاہی بھرتی ہوئے ہیں، جاتے ہیں نہیں معلوم کدھر۔۔ اور اب تک نہیں پہنچ سکے۔ اور ہم تلاش کر رہے ہیں، نہیں معلوم کیا۔۔ اور نہیں ڈھونڈ سکے۔ ہم تمہاری مدد نہیں کر سکتے“

ایمیلیان کچھ دیر سپاہیوں کے ساتھ بیٹھا اور پھر روانہ ہو گیا۔ وہ کئی میل چلتا رہا، آخرکار جنگل میں پہنچ گیا۔ جنگل میں ایک جھونپڑی تھی، جس میں ایک بہت بوڑھی عورت بیٹھی تھی۔ کسان سپاہیوں کی ماں، پٹ سن کات رہی تھی اور رو رہی تھی۔ کاتنے کے دوران وہ اپنی انگلیوں کو گیلا کرنے کے لئے منہ میں ڈالنے کی بجایے آنکھوں کے آنسؤوں سے گیلا کرتی تھی۔ جب بوڑھی عورت نے ایمیلیان کو دیکھا تو چلائی ”تم یہاں کیوں آئے ہو؟“

تب ایمیلیان نے اسے تکلہ دیا اور اسے بتایا کہ اس کی بیوی نے اسے یہاں بھیجا ہے۔ بوڑھی عورت یکدم نرم پڑ گئی اور اس سے سوالات کرنے لگی۔ ایمیلیان نے اپنی پوری زندگی کی بابت اسے بتایا کہ کیسے اس کی شادی ہوئی، کیسے وہ شہر جا کر رہنے لگے، کیسے اس نے کام کئے اور اس نے محل میں کیا کیا کیا۔۔ کیسے اس نے گرجا بنایا اور جہازوں کے ساتھ دریا۔۔ اور کیسے اب بادشاہ نے اسے جانے کا کہا ہے۔۔ وہاں، معلوم نہیں کہاں۔۔ اور لے کر آنا ہے، وہ۔۔ معلوم نہیں کیا“

دادی اماں نے شروع سے آخر تک سنا اور رونا بند کر دیا۔ خود کلامی کرتے ہوئے بولی ”وقت آ گیا ہے۔“ اور پھر اسے کہا ”ٹھیک ہے بیٹا، بیٹھ جاؤ، میں تمہیں کچھ کھانے کو دیتی ہوں“

ایمیلیان نے کھایا پیا، تب دادی اماں نے اسے سمجھایا کہ اب اسے کیا کرنا ہے ”یہ دھاگے کی گیند ہے، اسے اپنے آگے پھینکو، اس کے پیچھے چلتے جاؤ۔۔ جدھر یہ جائے، تم چلتے رہنا، یہاں تک کے سمندر تک پہنچ جاؤ۔۔ وہاں پہنچ کر تمہیں ایک بڑا شہر دکھائی دے گا، اس میں داخل ہو جانا اور اس کے دور دراز کے گھر میں رات بھر کی رہائش مانگنا۔ وہاں تلاش کرنا، جو کچھ تم ڈھونڈ رہے ہو۔“

”اماں، میں اسے کیسے پہچانوں گا“ اس نے سوال کیا

”جب تم کوئی ایسی چیز دیکھو، جس کی لوگ ماں باپ سے زیادہ تابعداری کر رہے ہوں، تو اسے پکڑ لینا۔۔ وہی وہ ہوگی۔ اور اسے بادشاہ کے پاس لے جانا، وہ کہے گا یہ صحیح نہیں ہے تو تم کہنا اگر یہ درست نہیں ہے تو اسے توڑ دینا چاہیے، پھر تم اسے مارنا پیٹنا اور دریا پر لے جانا، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا اور دریا میں پھینک دینا۔ تب تمہیں اپنی بیوی مل جائے گی اور میرے آنسو خشک ہو جائیں گے“

ایمیلیان نے دادی اماں کو الوداع کہا اور گیند کو اپنے آگے لڑھکانا شروع کر دیا۔ لڑھکتے لڑھکتے وہ آخرکار سمندر کنارے پہنچ گئی۔ سمندر کے ساتھ بہت بڑا شہر تھا اور شہر کے دور کنارے پر ایک بڑا گھر تھا۔ وہاں پہنچ کر ایمیلیان نے شب بسری کی درخواست کی، جو منظور کر لی گئی۔ وہ رات کو سو گیا

صبح جاگا تو ایک باپ کو بیٹے کو جگاتے اور اسے آگ جلانے کے لئے لکڑی کاٹ کر لانے کے لئے کہتے سنا۔ لیکن لڑکے نے باپ کی بات نہ مانی اور کہا ”ابھی بہت جلدی ہے، بہت وقت پڑا ہے“

تب ایمیلیان نے ماں کو کہتے سنا ”جاؤ میرے بچے، تمہارے باپ کی ہڈیاں درد کر رہی ہیں۔ تم کیا چاہتے ہو، وہ خود جائے؟ جاگنے کا وقت ہو چکا ہے۔۔“

لیکن لڑکا صرف بڑبڑایا اور پھر سو گیا۔ ابھی بمشکل ہی وہ سویا ہوگا کہ باہر سڑک پر کوئی چیز گرجی اور گڑ گڑائی۔ لڑکا اچھل کر کھڑا ہو گیا، جلدی جلدی کپڑے پہنے اور گلی میں بھاگ گیا۔ایمیلیان نے بھی چھلانگ لگائی اور اس کے پیچھے بھاگا تاکہ جان سکے کہ وہ کیا ہے، جس کی لڑکا ماں باپ سے زیادہ اطاعت کرتا ہے۔ وہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک آدمی سڑک پر چل رہا ہے، اپنے پیٹ پر کچھ باندھا ہوا ہے، جسے وہ چھڑیوں سے پیٹ رہا ہے اور یہی چیز گرج اور گڑ گڑاہٹ پیدا کر رہی تھی۔ ایمیلیان دوڑ کر گیا اور اسے بغور دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ گول ہے، چھوٹے ٹب کی طرح گول ہے، جس کے دونوں سروں پر کھال کھینچی ہوئی ہے

اس نے پوچھا، ”اسے کیا کہتے ہیں“

اسے بتایا گیا، ”ڈھول۔“

”کیا یہ خالی ہے؟“

”ہاں، یہ خالی ہے۔“

ایمیلیان بہت حیران ہوا۔ اس نے ان سے وہ چیز مانگی، لیکن وہ دینے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ ایمیلیان نے تقاضا کرنا چھوڑ دیا اور ان کے پیچھے چلنے لگا۔ وہ سارا دن چلتے رہے اور جب وہ سونے کے لئے لیٹے تو ایمیلیان نے ڈھول چھینا اور اسے لے کر بھاگ پڑا۔

وہ دوڑتا رہا، دوڑتا رہا۔۔ یہاں تک کہ وہ اپنے شہر پہنچ گیا۔ وہ اپنی بیوی سے ملنے گیا لیکن وہ گھر پر نہیں تھی۔ جس دن وہ روانہ ہوا تھا، اس سے اگلے دن بادشاہ اسے لے گیا تھا۔ اس لئے ایمیلیان محل چلا گیا اور بادشاہ کے لئے پیغام بھجوایا کہ وہ واپس آ گیا ہے۔۔ ”وہاں سے، معلوم نہیں کہاں سے۔۔ اور وہ اپنے ساتھ لایا ہے، وہ، معلوم نہیں کیا“

انہوں نے بادشاہ کو بتایا اور بادشاہ نے کہلوا بھیجا کہ وہ کل دوبارہ آئے

لیکن ایمیلیان نے کہا، ”بادشاہ کو بتاؤ، میں آج یہاں ہوں اور جو بادشاہ کو چاہیے تھا لے کر آیا ہوں۔ یا تو وہ باہر آئے یا پھر میں خود اس کے پاس اندر چلا جاؤں گا!“

بادشاہ باہر آ گیا اور پوچھا، ”تم کہاں تھے؟“

ایمیلیان نے اسے بتایا، جس پر بادشاہ نے کہا ”نہیں، یہ صحیح جگہ نہیں ہے۔۔“ پھر بادشاہ نے پوچھا ”تم کیا لائے ہو؟“

ایمیلیان نے ڈھول کی طرف اشارہ کیا، لیکن بادشاہ نے اسے دیکھے بغیر کہا ”یہ وہ نہیں ہے“

”اگر یہ صحیح چیز نہیں ہے تو پھر اسے توڑ دینا چاہیے اور شیطان اسے لے جائے“ ایمیلیان نے کہا، اور ڈھول کو پیٹتے ہوئے محل سے نکل آیا۔ جونہی اس نے ڈھول پیٹنا شروع کیا، بادشاہ کی ساری فوج دوڑتی ہوئی آئی اور ایمیلیان کے پیچھے چلنے لگی۔ انہوں نے اسے سیلیوٹ کیا اور اس کا حکم ماننے لگے۔بادشاہ اپنی کھڑکی سے فوج پر چلانے لگا کہ وہ ایمیلیان کی پیروی نہ کریں۔۔ لیکن انہوں نے اسے سنا ہی نہیں ،اور ایمیلیان کے پیچھے چلتے رہے

یہ دیکھتے ہوئے بادشاہ نے ایمیلیان کی بیوی واپس اس کے پاس لے جانے کا حکم دیا اور اس سے ڈھول مانگا۔

ایمیلیان نے جواب دیا ”ایسا نہیں ہو سکتا، مجھے کہا گیا تھا کہ اسے توڑ دوں اور اس کے ٹکڑے دریا میں بہا دوں“ چنانچہ ایمیلیان ڈھول کے ساتھ دریا پر گیا اور سپاہی اس کے پیچھے تھے۔ جب وہ دریا کنارے پہنچے ایمیلیان نے ڈھول توڑ کر اس کے ٹکڑے دریا میں بہا دئے، تب تمام سپاہی بھاگ گئے۔

ایمیلیان اپنی بیوی کو لے کر گھر آ گیا اور اس کے بعد بادشاہ نے انہیں تنگ کرنا بند کر دیا ،اور وہ خوش و خرم رہنے لگے۔

نوٹ: لیو ٹالسٹائی کی یہ کہانی دراصل وولگا کے علاقے میں طویل عرصہ سے رائج ایک لوک داستان سے ماخوذ ہے۔ انگریزی میں اس کہانی کا نام Empty drum ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close