گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ”ووٹ کو عزت دو“ اور ”بُوٹ کو عزت دو“ کے ہیش ٹیگ مسلسل ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ ان دونوں ہیش ٹیگز کو مسلم لیگ ن اور اس کے قائد میاں نواز شریف سے جوڑا جا رہا ہے
سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی پاکستان واپسی کی تیاریوں کے بارے میں اطلاعات گذشتہ کئی روز سے آ رہی ہیں مگر پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار اور اس کے فوری بعد نواز شریف کے بیانات نے اس حوالے سے کم از کم سوشل میڈیا کی حد تک خاصی ہلچل مچائی ہے
گذشتہ شب پہلے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دبئی میں پرویز مشرف کی صحت کافی خراب اور فوج کا موقف ہے کہ انہیں واپس پاکستان آ جانا چاہیے جس کے لیے خاندان سے رابطہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ فیصلہ مشرف کے خاندان اور ڈاکٹروں کی اجازت سے مشروط ہے
اس بیان سے کچھ دیر بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف، جو خود اس وقت لندن میں مقیم ہیں، نے ٹوئٹر پر بیان دیا کہ ”اگر پرویز مشرف پاکستان واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے“
ان کا یہ بیان سامنے آنا تھا کہ تعریف کے ساتھ ساتھ تنقید کا بازار گرم ہو گیا
نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے تو اس بیان کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہیں نواز شریف!‘
لیکن بعض صحافی، سماجی کارکنان اور عام صارف اس پیغام پر ناخوش دکھائی دیے
خیال رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف اس وقت دبئی میں زیر علاج ہیں۔ جبکہ ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کے اہل خانہ نے ملک کی عسکری قیادت سے رابطے کیے اور اب پرویز مشرف کو واپس لانے کے لیے ایئر ایمبولینس بھی تیار کر لی گئی ہے
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے گذشتہ شب نجی چینل دنیا نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ان کے خاندان سے رابطہ کیا گیا ہے، اور یہ کہ فوج اور اعلیٰ فوجی قیادت چاہتی ہے کہ پرویز مشرف پاکستان واپس آئیں
ادھر بدھ کو سینیٹ کے اجلاس میں بھی پرویز مشرف کی واپسی کا معاملہ زیر بحث آیا جس دوران نکتہ اعتراض سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ’پرویز مشرف کو اگر لایا جاتا ہے تو پھر جیلوں کے دروازے کھول دیں، عدالتوں کو بند کردیں، ان کی پھر کوئی ضرورت نہیں‘
اس اجلاس میں سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی کہا ”یہ فیصلہ ہم نہیں کریں گے، یہ فیصلے کہیں اور ہوں گے۔ جب وہ باہر گئے تھے تو کیا آپ روک سکے تھے۔ جب آئے گا تو کیا آپ روک سکیں گے۔ جب پرویز مشرف یہاں تھا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میں نے مشرف کو معاف کردیا تھا“
جمیعت علمائے اسلام ف کے سینیٹر غفور حیدری نے بتایا کہ وہ مشرف دور میں قید با مشقت کاٹ چکے ہیں لیکن ’اب مشرف کی حالت غیر ہے۔۔۔ ایسی صورت حال میں مشرف کو واپس لایا جائے تو ہمیں مشکل پیدا نہیں کرنی چاہیے۔‘
ادھر سینیٹر اعجاز چوہدری نے موقف اپنایا کہ جنرل مشرف کو ’پاکستان آنے کی اجازت ہو لیکن قانون اپنا راستہ اختیار کرے۔۔۔‘ نواز شریف کا نام لیے بغیر ان کا کہنا تھا کہ ’جو آٹھ ہفتے کے لیے باہر گئے انہیں بھی واپس آنا چاہیے۔‘
پرویز مشرف کو معاف کرنے کا حق شریف خاندان کے پاس نہیں
ٹوئٹر پر صارفین نواز شریف سے سوال کر رہے ہیں کہ وہ کس حیثیت سے پرویز مشرف کو معاف کر سکتے ہیں؟
مثلاً ٹوئٹر صارف ماریہ عامر نے نواز شریف کی ٹویٹ ٹیگ کرتے ہوئے کہا ”معاف کیجیے گا آپ یہ نہیں کر سکتے کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی لگائیں اور پھر ایک فوجی آمر اور ملک کے غدار کو معاف کرنے کا فیصلہ بھی کر دیں۔ ایک ایسے شخص کو جنہیں اس ملک کے آئین کے تحت سزا کاٹنی چاہیے۔ آپ ان لوگوں کو جوابدہ ہیں جو آپ کو ووٹ دیتے ہیں۔“
اسی طرح ایک اور ٹویٹر صارف مریم ایس خان نے لکھا ”شاید اب وقت ہے کہ آپ کو یاد دہانی کرائی جائے کہ آپ آئین سے بالاتر نہیں ہیں۔ یہ معاملہ آپ یا آپ کی معافی کا نہیں ہے۔ آپ اس موقع پر اپنا راستہ تبدیل کر کے اس ملک کو فائدہ نہیں پہنچا رہے۔ اور جہاں تک سیاسی شہرت کا تعلق ہے تو اس کے بگڑنے میں کم وقت لگتا ہے“
جاسر شہباز نے لکھا کہ یہ آپ (نواز شریف) کی ذات سے متعلق معاملہ نہیں ہے اور قانون کو اپنا راستہ لینا چاہیے نہ کہ آپ کی ذاتی ترجیحات
صدف داوڑ نے لکھا ‘نواز شریف کو ایسا ٹویٹ کرنا چاہیے تھا، میں نے اپنے اوپر، اپنی فیملی پر ڈھائے گئے ظلم و ستم کو معاف کر دیا۔ لیکن جو کچھ اس ملک کے عوام اور آئین پاکستان کے ساتھ مشرف نے کیا اس کی معافی میرے اختیار میں نہیں ہے۔ قانون جانے اور مجرم جانے‘
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے طنز کرتے ہوئے بس اتنا ہی کہا ”راجو بن گیا جنٹیلمن“
اور سینیئر صحافی مطیع اللہ جان نے بھی اس ٹویٹ پر تنقید کی اور کہا ”آپ آئینِ پاکستان اور فوجی آمر کے درمیان بیچ بچاؤ نہ کرائیں۔ یہ کسی کا خاندانی جھگڑا نہیں۔ نہ ہی آئین اور ملک کے سزا یافتہ غدار کو معاف کرنے کا حق شریف خاندان کے پاس ہے۔ آپ کی حکومت نے اگر آئین کے غدار کو اعزاز کے ساتھ رخصت کیا ووٹ کی بے حرمتی اور منافقت ہوگی“
سعدیہ شوکت نامی ٹویٹر صارف نے لکھا ”سافٹ ویئر کامیابی سے اپڈیٹ ہو گیا ہے“
جبکہ شفا یوسفزئی کہتی ہیں کہ ”اور یوں بیانیہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا“
شاکر بلوچ نے نواز شریف کا ایک دوسرا بیان شیئر کرتے ہوئے مومن خان مومن کا شعر لکھا: ’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، ہمیں یاد ہے وہ ذرا ذرا۔‘ اس بیان میں نواز شریف نے کہا تھا کہ جنرل باجوہ کو جواب دینا پڑے گا
صارف سید عمران شفقات نے تو اس معاملے کو بس ایک پنجابی نعرے میں بدل دیا، لکھتے ہیں: ’ہنڑیں ہنڑیں خبر آئی اے، مشرف اپنڑاں پائی اے!‘ (ابھی ابھی خبر آئی ہے، مشرف اپنا بھائی ہے)
خیال رہے کہ اس سے قبل مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ٹوئٹر پر پیغام میں کہا تھا کہ ’پرویز مشرف کے وطن واپس آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ماضی کے واقعات کو اس سلسلے میں مانع نہیں ہونا چاہیے‘
مسلم لیگ ن گذشتہ کئی برسوں سے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی رہی۔ سال 1999 میں اقتدار پر پرویز مشرف کے قبضے کو بنیاد بنا کر تب سے اب تک ان کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے گرد گھومتی رہی ہے۔ تو یہاں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ ایسے بیانات اور اقدامات سے خود مسلم لیگ ن کے بیانیے اور سیاست کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے؟
اسی بارے میں مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما نے نام نہ لکھنے کی شرط پر کہا کہ وہ اس سارے معاملے پر کھل کر اپنی رائے اس وقت دیں گے جب پرویز مشرف پاکستان واپس آ جائیں گے
ان کا کہنا تھا ’آج بھی نواز شریف ملک سے باہر ہیں۔ میرے خیال میں یہ روایت ختم ہونی چاہیے اور کوئی اپنے ملک میں آنا چاہتا ہے تو اس کو آنے دیا جائے‘
اس سوال پر کہ ماضی میں سابق صدر مشرف کو محفوظ راستہ دے کر پاکستان سے بھیجنے والے بھی تو خود نواز شریف ہی تھے، کیا انہوں نے ایسا فوج کے دباو میں کیا؟ ان کا کہنا تھا کہ ریاستی ادارے بھی سیاسی مخالفین کو ملک سے باہر رہنے پر مجبور کرتے ہیں اور اپنے ادارے سے منسلک افراد کو قانونی کارروائی سے بچانے کے لیے ملک سے باہر بھجوانے کا انتظام کیا جاتا ہے
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اپنی اصلیت کی طرف واپس جانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ’یہ جنرل ضیا الحق کی جماعت تھی اور وہیں جا رہی ہے۔ کچھ لوگ انہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے مگر ہم نے ہمیشہ کہا کہ ایسا نہیں، مسلم لیگ ن ڈیل کرنے والی پارٹی ہے۔ جب بھی موقع ملتا ہے وہ ڈیل کرتے ہیں‘
اس سوال پر کہ اس قسم کے بیانات مسلم لیگ ن اور ان کے بیانیے کو کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں، فواد چوہدری نے کہا کہ ‘مسلم لیگ ن اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ حکومت بنانے کا اختیار ووٹر کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ طاقت کا مرکز کچھ اور ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور الیکٹیبلز پر فوکس کرتے ہیں
’اب نواز شریف نے اس بیان کے ذریعے پیغام رسانی کی ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور کس طرف ہیں۔ مسلم لیگ ن عوامی جماعت تو نہیں تھی، اور ان کے لیے عوام میں تاثر کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ اب بھی روایتی سیاست کرتے ہیں‘
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جسٹس وقار سیٹھ نے خصوصی عدالت کے ایک فیصلے میں سابق صدر پرویز مشرف کو آئین شکنی کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی، تاہم اس فیصلے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو کالعدم قرار دے دیا تھا
پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ملک کے سیاسی و قانونی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی تھی جس کی بنیادی وجہ اس تفصیلی فیصلے کا پیراگراف نمبر 66 تھا، جسے جسٹس سیٹھ نے تحریر کیا تھا
پیراگراف 66 میں بینچ کے سربراہ جسٹس سیٹھ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ جنرل مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عمل درآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے
تاہم اس سے اگلے پیرگراف 67 میں اپنے اس حکم کی توجیہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ چونکہ ماضی میں کسی بھی فرد کو پاکستان میں اس جرم میں سزا نہیں دی گئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ مجرم کی عدم موجودگی میں سنایا ہے، اس لیے اگر مجرم سزا پانے سے قبل وفات پا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ آیا فیصلے پر عمل درآمد ہو گا یا نہیں اور کیسے ہوگا
اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرقانونی قرار دے دیا۔