کنوارپن کی فرسودہ روایات پر آگاہی دینے والی دو بلوچ بہنیں

ویب ڈیسک

شادی، کنوار پن ’ہائمن یا پردہ بکارت کنواری لڑکی کی نشانی ہرگز نہیں اور ضروری نہیں کہ ہر لڑکی میں یہ نازک جھلی موجود بھی ہو۔ سپورٹس یا ایتھلیٹ سے وابستہ لڑکی میں بھی ہائمن نہیں رہتا، گاؤں دیہات میں گھڑے سر پر رکھ کر پانی بھرنے جو لڑکیاں جاتی ہیں، ان میں بھی پردہ بکارت کی جھلی ضائع ہو سکتی ہے۔‘

’اس لیے جب میں نے کنوار پن پر لکھا تو سب سے پہلے ہائمن کے بارے میں واضح کیا کیونکہ ان موضوعات کو ممنوع سمجھا جاتا ہے اور اس پر بات نہ ہونے سے بہت سی لڑکیوں کی زندگی کرب کا شکار ہو جاتی ہے۔‘

ایسا کہنا ہے ہانی بلوچ کا جو لڑکی کے کنوار پن اور اس کی علامت سمجھے جانے والی ہائمن (پردہ بکارت) پر تحقیق کر کے بلوچی زبان میں ’زندءِ آدینک‘ یعنی زندگی کا آئینہ (مرر آف لائف) کے نام سے اپنی کتاب لکھ چکی ہیں

آج ہم اس تحریر کے ذریعے پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی اس فرسودہ سوچ پر بات کر رہے ہیں، جس نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بچیوں کی زندگی کو بنا کسی قصور کے ایک ڈر، خوف اور بے اعتباری سے دوچار کیا ہوا ہے

اس فرسودہ سوچ کے مطابق شادی کے بعد جسمانی تعلق قائم کرتے وقت خون آنے کو کسی لڑکی کے کنوار پن اور ان چُھوا ہونے کی سند سمجھا جاتا ہے

نام نہاد غیرت سے جڑے اس موضوع پر بات کرنا مشکل بھی ہے اور ممنوع بھی۔۔۔ تو بھلا ہمیں کون اپنی کہانی سناتا لیکن تلاش کرنے پر ہمیں ملیں پاکستان کے شہر کراچی کی رہائشی ہانی واحد بلوچ اور ان کی کتاب پر اردو زبان میں شارٹ فلم بنانے والی ان کی بہن ماہین بلوچ، جو اس حساس موضوع پر آگاہی دینا چاہتی ہیں

اس سے پہلے کہ ہم ماہین کی فلم اور کم عمری کی شادی سے متاثر کچھ حقیقی کرداروں سے آپ کو ملوائیں، پہلے آپ کو بتاتے ہیں کہ ہانی نے بلوچ زبان میں اس ممنوع موضوع پر قلم کیسے اٹھایا

ہانی بلوچ کچھ عرصے قبل اپنے آبائی گاؤں گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں چھوٹی چھوٹی بچیوں کی کم عمری میں شادی کا رواج آج بھی عام ہے اور اب بھی شادی کے وقت کنواری لڑکی کی نشانی اس کے پردہ بکارت کا موجود ہونا سمجھا جاتا ہے

وہ کہتی ہیں ”مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ہاں اب بھی ایسے مرد ہیں جو شادی کی رات انٹر کورس کے بعد بلیڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکی کو ناپاک قرار دے دیتے ہیں اور ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ استعمال ہو چکی ہے۔ بہت سی بچیاں جنہیں ہائمن سے متعلق آگاہی تک نہیں ہوتی وہ مردوں کے الزام کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں“

ایسے ہی کئی حقیقی کردار ہانی بلوچ کو کراچی سول ہسپتال کے زنانہ وارڈ میں بھی ملے، جہاں داخل بچیوں کی جسمانی اور ذہنی حالت کے پس منظر میں کم عمری کی شادی اور کنوار پن کی نشانی سمجھے جانے والے پردہ بکارت یا ہائمن کا نہ ہونا تھا

اس کے بعد ہانی بلوچ نے کنوار پن سے متعلق سماج میں موجود فرسودہ خیالات پر تحقیق کی اور پھر اس موضوع پر بلوچی زبان میں کھل کر لکھا

”میں نے کراچی کے سول ہسپتال میں ایک کم عمر بلوچ لڑکی کو دیکھا جو انتہائی بیمار اور صدمے کی حالت میں وارڈ میں داخل تھی۔ اس کے والدین سے بات کر کے پتا چلا کہ یہ وہ بچی ہے جس کا شادی کے وقت ہائمن نہیں تھا اور شادی کی رات خون کے اخراج نہ ہونے پر اس کے شوہر نے اس پر تشدد شروع کیا اور اب حمل کے دوران اس کی جسمانی اور ذہنی صحت شدید متاثر ہے“

ہانی بلوچ نے ہمیں بتایا کہ اس بچی کی حالت نے انہیں بھی رلا دیا اور پھر انہوں نے اپنی روایات اور کلچر میں برا سمجھے جانے کے باوجود اس موضوع پر قلم اٹھایا اور بلوچ زبان میں پہلی بار ہائمن اور کنوار پن جسے حساس اور ممنوع موضوع پر کتاب لکھی

’مرد چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی اس لیے کرتا ہے کہ وہ کنواری ہو‘

اور اب ہم آپ کو ملواتے ہیں کراچی کے ہی ایک اور گنجان آباد علاقے کی رہائشی شبانہ (فرضی نام ) سے جن کی سولہ سال کی عمر میں شادی ہوئی

زندگی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور اپنی پہچان بنانے کے خواب دیکھنے والی شبانہ اس وقت اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف تھیں، جب ان کی والدہ ان کو اس کھیل کے درمیان سے گھر لے گئیں اور بتایا کہ ان کی کی شادی طے ہو گئی ہے لہذا وہ پڑھائی اور کھیل کود چھوڑ کر دلہن بننے کی تیاری کریں

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں اس وقت نویں کلاس میں پڑھتی تھی، جب والدہ نے بتایا کہ میری شادی ہو رہی ہے تو مجھے اس وقت بالکل سمجھ نہیں آیا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ میں بس حیران ہو کر سب دیکھ رہی تھی۔ شادی کا کچھ پتا نہیں تھا۔ نہ یہ پتا تھا کہ شوہر کیا ہوتا ہے، پیار کیا ہوتا ہے کیونکہ میرا دماغ صرف پڑھائی اور کیرئیر کی جانب تھا۔‘

شبانہ کی عمر اب تقریباً 26 سال ہے اور ان کے مطابق ان کے شوہر نے ایک کنواری بچی سے بیاہ کی خواہش میں ان سے شادی کی تھی۔

’مرد چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی اس لیے کرتا ہے کہ وہ کنواری ہو اور اکثر وہ اس کو استعمال کر کے چھوڑ بھی دیتا ہے اور ایک اور کم عمر لڑکی سے شادی کرتا ہے اور یہی کچھ میرے ساتھ ہوا۔‘

شادی، کنوار پن
’شادی کے فوری بعد مجھ پر تشدد بھی کیا گیا اور گھر میں ملازمہ کی طرح کام بھی کروایا گیا۔ 16 سال کی لڑکی کا ذھن اور اس کا جسم کسی چیز کے لے تیار نہیں ہوتا۔ اس وقت لڑکی بہت زیادہ تکلیف اور درد سے گزرتی ہے اور یہ سب بتانا بھی انتہائی مشکل ہوتا ہے اور یہی سب کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔‘

’اگر لڑکی شوہر سے بولے کہ یہ سب نہ کرو تو شوہر زبردستی کرتا ہے، مارتا اور ٹارچر بھی کرتا ہے اور پھر لڑکی کے ذھن میں زندگی بھر کے لیے خوف بھی بیٹھ جاتا ہے۔‘

شبانہ چھوٹی عمر کی شادی سے متعلق اپنے تلخ تجربات ہمیں بمشکل بتا پا رہی تھیں اور شرم و جھجھک ان کو کھل کر بولنے سے روک رہی تھی۔

ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ازدواجی تعلقات شروع کرتے وقت انھیں شوہر کے کسی شک و شبہہ کا سامنا کرنا پڑا تو اس پر شبانہ نے ہمیں براہ راست جواب دینے کے بجائے بتایا کہ جب انھوں نے ماہین بلوچ کی ورجینیٹی کے مسئلہ پر بنائی گئی فلم دیکھی تو انھیں لگا جیسے ان کی آنکھوں کے سامنے اپنی ہی زندگی کی فلم چلنے لگی ہو

’جب میں ماہین کی فلم دیکھنے گئی تو اس فلم کو دیکھ کر میرا دل بھر آیا اور میں رو پڑی۔ مجھے لگا یہی سب تو میرے ساتھ بھی ہوا تھا‘

’مرر آف لائف میں لڑکی کم عمری کی شادی اور ورجنیٹی کے مسئلے کا سامنے کرتی ہے‘

ہانی بلوچ کی بہن ماہین بلوچ لیاری میں اسٹریٹ چلڈرن کو پڑھانے کے لیے بھی سرگرم ہیں اور ایک تھیٹر آرٹسٹ بھی ہیں

یہ کام ان کی کمیونٹی میں لڑکیوں کے لیے ہرگز آسان نہیں تھا تاہم چیلینجز کو قبول کرنے والی باہمت ماہین نے تھیٹر کے ساتھ فلم کا میڈیم باقاعدہ پڑھنا شروع کیا اور پھر اپنی ہی بہن ہانی بلوچ کی کتاب ’زندءِ آدینک‘ کا سکرین پلے لکھا تاکہ کنوارپن کے فرسودہ خیالات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے آگاہی دیں

وہ کہتی ہیں ”یہ فلم ایک اصل کہانی ہے جس میں چائلڈ میرج اور کنوار پن پر بات کی گئی۔ اس فلم میں ایک لڑکی کم عمری کی شادی اور کنوار پن کے مسئلہ کا سامنا کرتی ہے۔ چند پیسوں کی خاطر لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے اور یہ سب ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے تاہم ابھی تک یہ مسئلہ اس طرح نمایاں نہیں کیا جاتا۔ میں نے اس کا اردو میں ترجمہ کر کے کئی ماہ کی محنت کے بعد اسکرین پلے لکھا تاکہ لوگ اس پیغام کو قبول کر سکیں“

ماہین نے لیاری کی غریب اور پسماندہ خاندان سے تعلق رکھنے والی بچیوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے ’مستاگ فاؤنڈیشن‘ کی بنیاد رکھی۔ مستاگ بلوچی زبان کا لفظ ہے اور ان کا مطلب ہے ’اچھی خبر یا گڈ نیوز‘

وہ کہتی ہیں ”میں نے مستاگ میں ایسی لڑکیاں دیکھی ہیں جن کی کم عمری میں شادی ہوئی اور ان کی زندگی میں کنوار پن مسئلہ بنا، جس کی وجہ سے ان کو طلاق تک کا سامنا کرنا پڑا“

’ہم مرد کے کنوار پن کی بات کیوں نہیں کرتے‘

لیاری کی تنگ گلیوں میں رہنے والی کشادہ سوچ کی مالک ماہین بلوچ اور ہانی بلوچ نے خود روایت پسند گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود کم سن لڑکیوں کے ان مسائل کو گہرائی سے سمجھا اور اس موضوع پر آگاہی دینے کے لیے آواز بھی اٹھائی

ماہین بلوچ کے مطابق ان کے والدین نے انہیں ہمیشہ اپنا حق لینے اور دوسروں کے حق کے لیے آواز بلند کرنا سکھایا

ماہین بلوچ کہتی ہیں کہ ان کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ ان کی اس فلم کو دیکھنے وہ رشتہ دار بھی آئے جن کو ان کے آرٹ یا تھیٹر میں کام کرنے پر شدید اعتراض تھا

ماہین کے مطابق یہی عمل سوچ بدل جانے کی جانب پہلا قدم اور بارش کا پہلا قطرہ ہے۔

حوالہ: آسیہ انصر،
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close