نواب یہ مہنگائی بھی جی لیں گے

عفت حسن رضوی

عمران خان، شہباز شریف یا انہیں لانے اور گھر بھیجنے والوں کو آپ جتنی چاہے صلواتیں سنائیں، دل سوختہ ہیں تو اگلے پچھلوں کو بھی بےنقط کی سنائیے۔ مہنگائی کے ہاتھوں گریباں چاک حیراں و پریشاں ہیں تو اس مرثیے میں دوچار بند انہیں رونے کے لیے بھی شامل کر لیں، جنہیں سرکاری بابو کہتے ہیں

دیکھیں مہنگائی تو ہو گی ابھی اور ہوگی۔ یہ بات جتنا جلد سمجھ لیں اتنا ہی اچھا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی صرف غلط سیاسی فیصلوں کا نتیجہ نہیں۔ اس مہنگائی کے پیچھے ہماری بے سمت خارجہ پالیسی، دم توڑتی زرعی پالیسی، اندھا دھند اربنائزیشن، موسمیاتی تبدیلی، مقامی چینی آٹا اور لینڈ مافیا، مقامی پاور پلانٹ مافیا، خود غرض بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ سب کا ہاتھ ہے

امریکی سازش تو پتہ نہیں مگر یہ طے ہے کہ ہماری معیشت کا کباڑا ہمارے اپنے مقامی سازشیوں کا کیا دھرا ہے جو اپنی ایک بوٹی کے لیے پوری ملک کی گائے ذبح کرنے سے بھی نہیں کتراتے

جب تک بین الاقوامی اور مقامی مافیا، نالائق فیصلہ ساز اور معاشی ارسطو قابو نہیں آ جاتے، جب تک موجودہ وسائل میں ہم اضافہ نہیں کر لیتے تب تک مہنگائی تو ہوگی

مہنگائی ہوگی اور ہمارا رونا پیٹنا بھی چلتا رہے گا اور لوٹ پیٹ کر پھر سے کمیٹیاں ڈال ڈال کر خود ساختہ ارمان پورے کرنا ہم بھی نہیں چھوڑیں گے

ہم بھی عجیب لوگ ہیں جن کے ارمان ہی ختم نہیں ہوتے۔ سب سے بڑا اپنے گھر کا ارمان۔ اپنی چھت بنانا تو سمجھ آتا ہے مگر یہ گھر وسیع ہو، کوٹھی نما ہو، ایسے ارمانوں کی فہرست ایڈیشنل ہے۔ اپنا گھر ہو جائے تو اس میں لاکھوں کے فرنیچر کا شوق۔ بھاری بھرکم قالین بچھانے، ماڈرن پردے ٹنگانے کی حسرت۔۔۔

بعض کے ارمانوں کی معراج یہ کہ شادی پہ کم از کم پانچ سو بندہ تو بلایا جائے۔ پانچ سو بندے ہوں تو کم از کم بوفے ڈنر میں چار ڈشیں تو کھلائی جائیں۔ کسی نے یہ ارمان پالا ہے کہ بیٹی کا جہیز کم از کم اتنا تو ہو کہ سوئی سے گاڑی تک سب دیا جائے

کسی کو اپنے والد کا شاندار سوئم قُل کرانے کا ارمان۔ موت والے گھر پہ سوزوکی سے دیگیں ایسے اترتی ہیں، جیسے عزیز رشتے داروں کو یہ کڑوا کھانا نہ کھلایا تو قبر میں روشنی نہ ہو گی

بچوں کے نام پہ تو عوام نے ایسے ایسے خواب سجا رکھے ہیں کہ ارمانوں، خواہشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ بعض ایسے والدین کو بھی دیکھا ہے جو شیخی بھگارتے ہیں کہ ان کا بچہ تو ہر ہفتے نیا کھلونا لیتا ہے اور گھر آتے ہی توڑ دیتا ہے۔ شام ’چیز‘ لینے ابو کے ساتھ جاتا ہے تو ڈھیروں چاکلیٹ، ٹافیاں اٹھا لاتا ہے

مہنگائی چاہے جتنی ہو مگر ہمارا یہ پاپی پیٹ کمبخت بھرتا ہی نہیں۔ ہر چند قدم کے فاصلے پہ ایک فوڈ اسٹریٹ جو کھانے کے شوقینوں سے بھری ہوئی۔۔ ہر گلی کے نکڑ پہ فرائیڈ چکن یا بن کباب، سموسہ چاٹ کی دکان اور والدین کو یہ شکوہ کہ ہمارا بچہ تو گھر میں کھاتا ہی نہیں۔ جو گھر پہ پکا کر سادہ کھانا کھا سکتے ہیں انہیں آئے روز ہوم ڈیلوری کی ہُڑک۔۔

ہُڑک سے یاد آیا ہر سیزن کے نئے کپڑے بھی ہماری جبلتی ضرورت بن گئی ہے۔ نئے کپڑے وہ بھی برانڈڈ کپڑے، برانڈڈ وہ بھی مہنگے درزی سے سلے ہوئے، نہیں تو سلے سلائے۔ گھروں سے سلائی مشین تو عرصہ ہوا رخصت ہوگئیں۔ ہر تہوار پہ نئے جوڑے کا ارمان، شادی بیاہ کی ہر تقریب میں نئے جوڑے۔ بارہ مہینے شاپنگ مالوں میں خریداروں کا ایسا ہجوم کہ جیسے چاند رات ہو۔

یہ اللے تللے اشرافیہ نہیں ہم اور آپ جیسے مہنگائی زدہ، نوکری پیشہ، پنشن یافتہ، کرائے کے مکانوں میں رہنے والوں کے ہیں۔ اشرافیہ کا ذکر یوں نہیں کہ انہیں قیمتوں کے بڑھنے گھٹنے سے رتی برابر فرق نہیں پڑتا جن کی سرمایہ کاری کئی ممالک میں ہو، جن کے پاس جینے کے پلان اے بی سی ہوں۔ مہنگائی ان پہ ٹوٹتی ہے جن کی کل کائنات لگی بندھی ماہانہ آمدن ہو

آج حکومت نے پاکستان میں پیٹرول کی ہوشربا قیمت کا موازنہ دنیا بھر کی قیمتوں سے کیا ہے۔ ان میں ناروے کا نام بھی شامل ہے جہاں فی لیٹر پٹرول تقریباً ساڑھے پانچ سو روپے کا ہے۔ ایسا مضحکہ خیز موازنہ اول تو ہونا نہیں چاہیے اور اگر کسی کو بہت ہی شوق ہوا ہے تو کم از کم یہ بھی بتائے کہ ناروے جیسے ملکوں میں لوگوں کی قوت خرید پاکستانی روپے میں کتنی ہے۔ انتہائی گیا گزرا شہری بھی ناروے میں تین سے چار لاکھ پاکستانی روپیہ کما رہا ہے، باقی حکومتی ویلفیئر اقدامات الگ

پیٹرول اور قوت خرید کا موازنہ ہوگا تو اک نظر پاکستانی اور نارویجن معاشرے کے لائف اسٹائل پہ بھی ڈالیں۔ اپنی نوابی اور اُن کی سادگی کا بھی موازنہ کریں۔ یہ جن چھوٹے چھوٹے خرچوں کو ہم پاکستان میں کسی گنتی میں شمار نہیں کرتے وہ ناروے میں عیاشی اور شاہ خرچی کہلاتی ہے

فاسٹ فوڈ یا اسٹریٹ فوڈ کا کوئی پاپولر کلچر نہیں۔ رہائشی علاقوں میں گنتی کے کوئی ایک دو کافی شاپ، وہ بھی شام سات آٹھ بجے بند۔ کمال یہ کہ اکثر ریستوران اتوار کے روز بند۔ عام تعطیل ہو تو بند۔

جگہ جگہ ین بروک یعنی استعمال شدہ اشیا کے اسٹورز کھلے ہیں، جہاں سے بغیر کسی شرم کے نارویجن شہری پرانے کپڑے جوتے، برتن، اور مشینری خریدتے ہیں

پرس اور کپڑوں کی بڑی برانڈز میں بھی اب ری یوز کے نام سے استعمال شدہ آئٹم رکھے جاتے ہیں۔ دلہا دلہن کے استعمال شدہ کپڑوں کے لیے علیحدہ اسٹور ہیں

گرمی ہو یا برف پڑے دو تین کلو میٹر پیدل سفر عام ہے۔ بات بات پہ گاڑی نہیں نکال لی جاتی۔ جن کے بینک اکاؤنٹ نوٹوں سے اُبل رہے ہیں وہ بھی سائیکل، الیکٹرک اسکوٹی اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دیتے ہیں

کھانے انتہائی سادہ، دوپہر کے کھانے کا کوئی خاص کلچر نہیں بس سلاد یا ابلی دال کے سوپ سے کام چلا لیا۔ بچا ہوا کھانا پھینکنے کا سلسلہ بھی نہیں، ہوٹل اور بیکررز شام میں مفت برابر قیمت پہ نکال دیتے ہیں

شادی بیاہ اور موت جیسی سماجی تقریبات میں مشکل سے پچاس افراد شریک۔ انتطامات یا مہمان داری برائے نام

اور سب سے اہم یہ کہ یہاں ناروے میں دکھاوا نہیں، مہنگے لباس پہنو تب بھی کوئی سراہنے والا نہیں، سستے حلیے میں رہیں تو بھی کوئی نیچی نظروں سے نہیں دیکھتا۔ وہی دکھاوا جسے کرتے کرتے ہماری ساری زندگی گزر جاتی ہے

جیسے صاحبان اقتدار نے طے کرلیا ہے کہ مہنگائی کیے بغیر چارہ نہیں، عوام کا لہو پیتے ہی رہیں گے، ایسے ہی ہم پاکستانیوں کا بھی یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ گھر میں چاہے گھاس کھا لیں گے مگر اپنے ہی جیسے فُقروں کو ششکے دکھانا نہیں چھوڑیں گے

نواب ابن ِ نواب ہیں چوں نہیں کریں گے یہ مہنگائی بھی جی لیں گے!

بشکریہ: انڈیپینڈنٹ اردو، عرب میڈیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close