سخت گیر ایرانی سیاستدانوں کے بچوں کی مغرب سے محبت کی داستان

ویب ڈیسک

ایران میں حکام ایک طرف تو اپنے بیانات سے اپنے اسلامی جمہوریہ کے چیمپئن ہونے کا تاثر طور پیش کرتے ہیں لیکن دوسری جانب اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ ان کے بچوں کے پاس ہجرت کے لیے مالی وسائل اور مغربی اداروں کی تعلیم ہو۔

ایرانی پارلیمان کے سربراہ کے چھتیس سالہ بیٹے اسحاق قالیباف پانچ برسوں سے کینیڈا جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ 2019 ء سے اس شمالی امریکی ملک میں مستقل رہائش کا اجازت نامہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس امر کا انکشاف اُن دستاویزات سے ہوا ہے، جو ایک ایرانی نژاد صحافی نے کینیڈا میں اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کے اثر و رسوخ اور زندگی کے بارے میں اپنی تحقیق کے دوران تلاش کیں۔

صحافی کامران ملک پور، جو ایک طویل عرصے سے پاسدارانِ انقلاب یا اسلامی جمہوریہ کے بااثر عہدیداروں سے کینیڈا میں ایرانیوں کی امیگریشن کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں، کا کہنا ہے ”یہ لوگ (پاسدارانِ انقلاب یا اسلامی جمہوریہ کے بااثر عہدیدار)، جن کے پاس تعلیم اور مالی وسائل موجود ہیں، وہ خاندانی یا کاروباری روابط کی بدولت آزاد زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے مغربی ممالک کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ کینیڈا میں ان کی ایک بڑی کمیونٹی موجود ہے۔‘‘

اسحاق قالیباف کا کیس بھی انہی میں سے ایک ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے۔ انقلابی گارڈ یا پاسدارانِ انقلاب کے سابق کمانڈر اور ایرانی پارلیمنٹ کے موجودہ سربراہ باقر قالیباف کے دوسرے صاحبزادے دارالحکومت تہران کے ایک امیر محلے میں پلے بڑھے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے بہت سے دوسرے افسران کے بچوں کی طرح انہوں نے بھی ایک نجی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اچھے اسکول سے میتھمیٹکس کی تعلیم حاصل اور گریجویشن مکمل کی جبکہ وہ جیومیٹری میں فیل ہو گئے تھے۔

ہائی اسکول سے بالکل اوسط درجے کا سرٹیفیکٹ حاصل کرنے کے باوجود حیران کن طور پر ایران کے سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کی طرف سے قائم کردہ نجی آزاد یونیورسٹی میں ان کے داخلے کی درخواست منظور ہو گئی۔ کوٹا سسٹم کی مہربانی، جس کی بدولت وہ یونیورسٹی پہنچ گئے۔ انہوں نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے میں سات سال لگائے، جبکہ یہ عام طور سے چار سال میں حاصل کر لی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ آسٹریلیا چلے گئے۔ وہاں انہوں نے میلبورن یونیورسٹی سے ’زبان کے ایک کورس‘ اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے تین لاکھ ڈالر ادا کیے۔ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے دوران انہوں نے دو اپارٹمنٹس بھی خرید لیے۔

اسحاق قالیباف کے والد خود کو ’اسلامی انقلاب کا سپاہی‘ کہتے ہیں۔ باقر قالیباف پاسدارانِ انقلاب کے سابق کمانڈر تھے اور انہوں نے 2003ء میں ملک کے پولیس چیف کے طور پر خدمات انجام دیں۔ یہ وہی شخص ہیں، جنہوں نے اپنی مدتِ ملازمت کے دوران اپنے ہی ملک کے طلباء کے احتجاج کو دبانے کے لیے انتہائی پُرتشدد طریقے اختیار کیے۔ 2005ء سے 2017 ء تک قالیباف نے تہران کے میئر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔

ایرانی صحافیوں کی رپورٹوں کے مطابق ان کے عہدہِ صدارت کے دوران بہت سی سرکاری جائیدادیں بہت کم قیمتوں پر فروخت کی گئیں، بعض اوقات مارکیٹ کی قیمتوں سے 50 فیصد تک کم قیمت میں۔ کہا جاتا ہے کہ سرکاری افسران ان خریداروں میں شامل تھے۔

بشمول قالیباف خاندان، اس کے علاوہ قالیباف نے شہر کے خزانے سے اپنی بیوی کی فاؤنڈیشن کو کافی رقوم ادا کی تھیں۔ ان کے بقول ان کی اہلیہ کی فاؤنڈیشن دیگر کاموں کے علاوہ تنہا ماؤں یا خواتین کی مدد کرتی ہے اور یہ خواتین تنہا اپنے خاندان کی کفالت کرتی ہیں۔ تاہم اس فاؤنڈیشن کی اصل سرگرمیوں کا تعین کرنا مشکل ہے۔

باقر قالیباف 2020 ء سے ایرانی پارلیمنٹ کے صدر ہیں۔ وہ اسلامی جمہوریہ کے دیگر تمام عہدیداروں کی طرح مغرب کے ’لبرل جمہوری ممالک کی اقدار‘ کو مسترد کرتے ہیں اور ان کی بجائے معاشرے میں ’اسلامی قوانین و اقدار‘ کو قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close