فیٹف گرے لسٹ کی ابتدا سے انتہا تک مکمل روداد اور ملک میں چھڑی کریڈٹ کی جنگ

ویب ڈیسک

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم فیٹف نے پاکستان کے 34 نکاتی ایکشن پلان پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے اپنی جائزہ ٹیم جلد از جلد پاکستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے

اس اعلان کے بعد ملک میں ’گرے لسٹ سے نکلنے‘ کا کریڈٹ لینے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا

واضح رہے کہ گزشتہ روز فیٹف نے اپنی جاری شدہ رپورٹ میں کہا کہ پاکستان نے 34 نکات پر مشتمل اپنے دونوں ایکشن پلانز کو خاطر خواہ مکمل کر لیا ہے جس کے بعد اب فیٹف کی ٹیم بہت جلد پاکستان جا کر اصلاحات کا جائزہ لے گی

برلن میں ہونے والے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں فیٹف نے کہا کہ ”پاکستان نےاس امر کا مظاہرہ کیا ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروہوں کے سینیئر رہنماؤں کے خلاف تحقیقات اور ان کے خلاف مقدمات چلائے جا رہے ہیں“

فیٹف نے مزید کہا ”منی لانڈرنگ تحقیقات کے حوالے سے بھی پاکستان میں ایک مثبت رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔‘
’پاکستان نے 2021 کے ایکشن پلان کو طے شدہ وقت سے پہلے مکمل کیا ہے“

اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے کی۔ ان کا کہنا تھا ”ہمارا کام اپنا کیس پلینری میں پیش کرنا تھا جو ہم نے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایک بہت لمبا سفر طے کیا ہے“

کریڈٹ لینے کی جنگ

ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے جمعے کے اعلان کے بعد یہ امکان پیدا ہوا کہ گذشتہ چار برسوں سے گرے لسٹ پر موجود پاکستان آج تو نہیں البتہ اکتوبر 2022ع میں گرے لسٹ سے نکل سکتا ہے

حقائق کی دنیا میں ہونے والی پیش رفت سے متضاد بات اس سے کہیں پہلے نہ صرف سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی بلکہ اس کے بعد ’گرے لسٹ سے نکلنے‘ کا کریڈٹ لینے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لوگ اسے اتحادی حکومت کا کارنامہ بتا رہے تھے تو پی ٹی آئی کے کارکن اسے اپنی حکومت کی محنت اور اقدامات کا ثمر

سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گِل نے اصل اعلان سے آٹھ گھنٹے قبل دعویٰ کیا کہ ’پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں ’پاکستان کو مبارک باد‘ دیتے ہوئے سیاسی مخالفین کو بھی آڑے ہاتھوں لیا

شہباز گِل کی ٹویٹ کے بعد پی ٹی آئی کے حامی سوشل میڈیا صارفین نے عمران خان، حماد اظہر اور باقی ٹیم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں اس کا کریڈٹ دیا

عبدالقیوم بھٹی نے پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ’عمران خان کی حکومت نے فیٹف کی تمام کڑی شرائط پوری کیں جس کی بدولت آج پاکستان گرے لسٹ سے باہر نکل آیا‘

سعد مقصود نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’اس کا کریڈٹ جو دل کرے لے مگر اس لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان نے جو جو قوانین بنائے، غلامی کی زنجیریں پاؤں میں پہنیں اس کا کریڈٹ بھی لینا چاہیے۔‘

موجودہ حکومت بالخصوص مسلم لیگ ن کے حامیوں نے دعویٰ کیا کہ جو کام گذشتہ حکومت چار برس میں نہیں کر سکی وہ موجودہ اتحادی حکومت نے چند ماہ میں کر دکھایا ہے

پی ٹی آئی کے حامیوں کے جواب میں مسلم لیگ ن کے حامی ٹویپس نے گرے لسٹ سے ملک کے اخراج کو اپنی حکومت کی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو دیگر افراد کی طرح ٹیلی ویژن میزبان کامران خان نے بھی انہیں ایسا کرنے سے منع کیا

ٹی وی میزبان حامد میر ’اصل کہانی‘ کے عنوان سے کی گئی ٹویٹ میں گرے لسٹ سے نکلنے والی خبر کی یہ دیگ جی ایچ کیو لے گئے

انہوں نے لکھا کہ ’پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے جی ایچ کیو میں ڈی جی ایم او کی سربراہی میں 2019 میں اسپیشل سیل قائم کیا گیا، اس وقت صرف پانچ نکات پر پیش رفت تھی۔ اس سیل نے 30 سے زائد وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوآرڈینیشن کی اور تمام 34 نکات پر عمل درآمد کروایا۔‘

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے حامیوں کی جانب سے کسی باقاعدہ اعلان سے قبل ہی کریڈٹ لینے اور مخالفین کی جانب سے ان پر اعتراضات کا سلسلہ جمعے کو دن بھر سوشل ٹائم لائنز پر نمایاں رہا۔ اسی دوران وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے حتمی اعلان سے قبل قیاس آرائیوں سے گریز کا مشورہ دیا

پی ٹی آئی کے حامی صارفین نے حنا ربانی کھر کے اس بیان کے بعد ایک ٹویٹ میں دو تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ”حنا ربانی کھر انسداد منی لانڈرنگ اور اینٹی ٹیررازم بل پیش کیے جانے کے موقع پر احتجاجاً اسمبلی سے واک آؤٹ کر رہی ہیں“

جرمنی میں موجود پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور نے بعد میں ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ ’ایف اے ٹی ایف نے ہمیں کلیئر کردیا ہے، اب گرے لسٹ سے نکلنے کا طریقہ کار شروع ہوچکا ہے۔‘

متعدد واٹس ایپ گروپس میں ایک مخصوص حلقے کی جانب سے ’پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے امکان‘ پر بات کرتے ہوئے بتایا گیا کہ کس عہدے دار کی سربراہی میں کون سے محکمے نے اس منزل تک پہنچنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے

پی ٹی آئی حکومت کے سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے شہباز گل کی بات کی براہ راست تردید تو نہ کی لیکن فیٹف کے طریقہ کار کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایف اے ٹی ایف کے طریقہ کار کے مطابق، گرے لسٹنگ سے کسی ملک کو ہٹانے سے پہلے آن سائٹ دورہ کیا جاتا ہے

پاکستان کو کب گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا؟

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو کہ مختلف ممالک کی جانب سے ’دہشت گردوں کی مالی معاونت‘ روکنے اور ’انسداد منی لانڈرنگ‘ جیسے اقدامات پر نظر رکھتا ہے

28 فروری 2008 میں پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا، اہداف حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو ایشیا پیسیفک گروپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے کہا گیا تھا، جون 2010 میں مثبت پیش رفت پر پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی نگرانی کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا

16 فروری 2012 میں پاکستان کو دوبارہ گرے لسٹ میں شامل کیا گیا، منی لانڈرنگ، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خطرات سے موثر انداز میں نمٹنے میں ناکامی پر گرے لسٹ میں شامل کیا گیا

26 فروری 2015 میں مثبت پیش رفت پر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا تھا، 28 جون 2018 میں پاکستان کو تیسری مرتبہ گرے لسٹ میں شامل کیا گیا اور 2019 کے آخر تک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق 27 نکاتی ایک پلان پر عمل در آمد کے لیے کہا تھا

بعد ازاں ان 27 نکاتی پلان کے بعد پاکستان کو ایک اور پلان بھی دیا گیا تھا جن میں 7 نکات پر پاکستان نے عمل در آمد کرنا ہے

گرے لسٹ سے نکلنے کا سفر

چار سال کے دوران اداروں کے اقدامات
ایف اے ٹی ایف کے اہداف مکمل کرنے کے لیے گزشتہ چار برس میں پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت، پارلیمنٹ اور ملک کے متعدد اداروں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح پاکستان نے اپنا 2021 کا ایکشن پلان ایف اے ٹی ایف کی طرف سے مقرر کردہ ٹائم لائنز یعنی جنوری 2023 سے پہلے مکمل کر لیا

ایف اے ٹی ایف کے تحت دہشت گردی کی مالی معاونت ختم کرنے کے 27 میں سے27 پوائنٹ اور منی لانڈرنگ کے خاتمے سات میں سے سات پوائنٹس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا گیا۔ دونوں ایکشن پلانزکل ملا کر 34 نکات پر مشتمل تھے

پاکستان میں ایف اے ٹی ایف پر عمل درآمد کے اعداد وشمار

ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے لیے پاکستان میں پارلیمنٹ نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے خاتمے کے لیے درجن کے قریب قوانین بنائے جس میں مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات وضع کیے۔ واضح رہے کہ موجوہ اتحادی حکومت میں شامل تمام جماعتوں نے اس قانون سازی کے عمل کا بائیکاٹ کیے رکھا تھا

ان قوانین کے بعد گزشتہ چار سالوں کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ میں کمی آئی ہے

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں منی لانڈرنگ کے 800 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن کی گزشتہ 13 مہینوں کے دوران تحقیقات مکمل کی گئیں

ایف اے ٹی ایف پلان کے مطابق اس عرصے میں ضبط کیے گئے اثاثوں کی تعداد اور مالیت میں خاطر خواہ اضافہ ظاہر کیا جس میں 71فیصد اثاثے ضبط کیے گئے 85 فیصد اثاثوں کی مالیت میں اضافہ ہوا۔
گزشتہ دو سالوں میں پاکستان نے غیر رسمی اور باضابطہ قانونی معاونت کرتے ہوئے منی لانڈرنگ ایکٹ (2020 )کونافذ کیا اور 26,630 شکایات پر کارروائی کی گئی۔
ایف بی آر نے ریئل سٹیٹ ایجنٹس اور جیولرز کی طرف سے اینٹی منی لانڈرنگ اور کاؤنٹر ٹیرر فنانسنگ کی تعمیل کی نگرانی کے حوالے سے غیر مالیاتی کاروبارکے لیے ایک خصوصی ڈائریکٹوریٹ قائم کیا۔ ایف بی آر نے 22000 سے زائد کیسز میں 351 ملین روپے تک کے مالی جرمانے عائد کیے

اسی دوران ایف بی آر نے 1,700 سے زائدمختلف غیر قانونی کاروبار کی آف سائٹ نگرانی مکمل کی، اورساتھ ہی ساتھ ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو بھی قانون کے دائرے میں لایا

سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے بھی انفورسمنٹ ایکشن مکمل کر لیے ہیں۔ ایس ای سی پی نے 146,697 کیسز کا جائزہ لیا اور 2,388 ملین روپے کے جرمانے عائد کیے

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق منی لانڈرنگ کی تحقیقا ت میں گزشتہ سال کے دوران 123 فیصداضافہ ہوا

اسی دوران و فاقی اور صوبائی حکام کی جانب سے دہشت گردی کی مالی معاونت اور مالیاتی پابندیوں کے لیے جامع لائحہ عمل دیا

گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کیا ہے؟

ایف اے ٹی ایف عمومی طور پر انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے۔ جن ممالک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں تو ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

اگرچہ ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتا مگر ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔

ایف اے ٹی ایف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹس کا استعمال کیا جاتا ہے جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔

بلیک لسٹ میں ان ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہو۔ ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک ان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔

گرے لسٹ میں ان ممالک کو ڈالا جاتا ہے جن کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں اور وہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر ان قانونی خامیوں کو دور کرنے کے لیے اعادہ کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close