پاکستان کرکٹ پر فکسنگ کے اثرات اس قدر گہرے رہے ہیں کہ اگر پاکستان ٹیم کوئی میچ اچھا کھیل کر بھی ہار جائے تو فکسنگ کی آوازیں اٹھتی ہیں اور عوامی ردعمل یہی ہوتا ہے کہ شاید کھلاڑیوں نے ہارنے کے لیے پیسے لیے ہیں
1999 کا ورلڈکپ انگلینڈ میں کھیلا گیا، جس کے فائنل میں آسٹریلیا نے پاکستان کو یک طرفہ طور پر شکست دے کر جیت لیا تھا
پاکستان ٹیم اس ورلڈ کپ میں بہت مضبوط اور چیمپیئن بننے کے لیے ہاٹ فیورٹ تھی۔ ٹیم کی بیٹنگ اور بولنگ اس قدر مضبوط تھی کہ ہر بڑے تجزیہ نگار اور سابق ٹیسٹ کرکٹر نے پاکستان کی جیت کی پیشن گوئی کی ہوئی تھی
پاکستان نے اپنے گروپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف فتح سے آغاز کیا تھا اور چار میچ باآسانی جیت لیے تھے جبکہ اسے تین میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا
سپر سکس مرحلے پر جنوبی افریقہ سے شکست پر تو کسی کی انگلی نہیں اٹھی تھی لیکن بھارت کے خلاف قومی ٹیم کی کارکردگی پر سوال اٹھا تھا۔ سب سے حیرت انگیز شکست بنگلہ دیش کے خلاف تھی، جس کو ابھی تک ٹیسٹ اسٹیٹس نہیں ملا تھا، اس کےخلاف قومی ٹیم ریت کی دیوار ثابت ہوئی تھی اور وہیں سے شکوک کا سلسلے کی شروعات ہو گئی تھی
پاکستان بنگلہ دیش میچ
پاکستان بنگلہ دیش میچ میں وہ بلے باز اوندھے منہ گر پڑے تھے جو بڑی ٹیموں کے خلاف تابڑ توڑ سنچریاں بنارہے تھے
زبردست بیٹنگ لائن 223 رنز کا ہدف بھی عبور نہیں کر پائی اور 161 رنز پر ڈھیر ہو گئی
اس میچ کے بعد وزڈن نے سوال اٹھایا تھا کہ وسیم اکرم اور اظہر محمود نے اچھا کھیلتے ہوئے وکٹیں کیوں ضائع کیں اور آسان ہدف سے کیوں فرار اختیار کی؟ وزڈن نے اس میچ کو مشکوک قرار دیا تھا
پاکستان بھارت میچ
پاکستان بھارت میچ مانچسٹر میں کھیلا گیا۔ جہاں بھارتی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے شدید مشکلات کا شکار تھی۔ وسیم اکرم، شعیب اختر اور اظہر محمود کی سوئنگ بولنگ پر بھارت بمشکل تمام 227 رنز بنا سکا
پاکستان کی عظیم الشان بیٹنگ لائن نے ایک بار پھر دھوکہ دیا اور 180 رنز پر اس طرح آؤٹ ہوئی، جیسے کوئی معمولی سی کلب ٹیم
فائنل میچ
پاکستان سپر سکس مرحلے پر دو میچ ہار کر بھی سیمی فائنل میں پہنچ گیا، جہاں اس نے نیوزی لینڈ کو یک طرفہ شکست دے کر پاکستانیوں کو یقین دلا دیا کہ 20 جون کو آسٹریلیا کے خلاف وہ شاندار کارکردگی دکھائے گا
پورا ملک بے چین تھا کہ کب فائنل شروع ہو اور سنہری جھلملاتی ٹرافی پر سبز سفید پرچم اپنا رنگ جمائے
لارڈز کے تاریخی گراؤنڈ میں جب میچ سے قبل متعدد انگریز تماشائیوں سے پوچھا گیا کہ کون جیتے گا تو سب کا متفقہ فیصلہ تھا ”پاکستان“
کیونکہ پاکستان دو غیر متوقع شکستوں کے باوجود فیورٹ تھا اس لیے سب کی نظریں پاکستان پر تھیں
اتوار کا دن، جون کی تپتی دوپہر تین بجے کے قریب پورا پاکستان ٹی وی کے سامنے ٹک ٹکی باندھے بیٹھ گیا۔ آنکھوں میں چمک تھی اور دل میں یقین۔۔
یقین اس لیے کیونکہ چار روز قبل ہی ایک تیز رفتار بولر کو ہلکے نیلے رنگ کے خوبصورت لباس میں ملبوس کھلاڑی کی وکٹیں زمین پر دھڑام سے گراتے دیکھا تھا اور ایک ’لیفٹی‘ کو اس ٹیم کے بولرز کو پچھاڑتے۔۔
تب تک دل میں ٹیم کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا گمان یقین میں بدل چکا تھا
بھروسہ اس لیے بھی تھا کہ ابھی کچھ ہی ہفتے قبل پاکستان نے آسٹریلیا کو ہرایا تھا، اور کیا ہی ہرایا تھا۔۔
خیر سوا تین بجے میچ شروع ہوا، اور پھر کچھ ہی دیر میں منظر بدلنے لگا، دل ڈوبنے لگا، پاکستان کی بیٹنگ لڑکھڑاتی ہوئی پویلین لوٹنے لگی
ساڑھے آٹھ بجے دنیا دھندلی نظر آنے لگی، آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں، پاکستان 1999 کا ورلڈ کپ فائنل ہار گیا
پاکستان کے کروڑوں مداحوں کے ساتھ اسٹیڈیم میں موجود ہزاروں برطانوی پاکستانیوں کو جیت کی امید تھی لیکن پاکستان ٹیم نےایک بار پھر دھوکہ دیا اور ایک آسان پچ پر محض 132 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی
اپنے کیرئیر کی بہترین فارم میں سعید انور انضمام الحق نے مایوس کن بیٹنگ کی جبکہ بقیہ بلے بازوں نے فائنل میچ کو کسی کلب میچ سے بھی برے انداز میں کھیلا
اس پورے ٹورنامنٹ میں وقار یونس کو نظر انداز کیا گیا، جبکہ محمد یوسف کی موجودگی میں وجاہت اللہ واسطی کو کھلایا گیا
فائنل میچ کی شرمناک ہار سے بھونچال آگیا
اسٹیڈیم میں موجود پاکستانی تماشائیوں نے ٹیم کی بدترین کارکردگی پر شور مچایا جبکہ انگریز تماشائیوں نے اسے کھلی ہوئی فکسنگ قرار دیا۔ ایک فائنل میچ میں اس سے بڑی شکست نہیں ہوسکتی تھی
ہر جانب یہی کہا جا رہا تھا کہ میچ فکس تھا۔۔۔ پھینک دیا۔۔۔ بک گئے۔۔۔ بیچ آئے۔۔۔
پاکستان میں تہلکہ مچ گیا اور لوگ بھرپور احتجاج کرنے لگے۔ حالات میں تناؤ اور الزامات کی بارش دیکھ کر اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن جسٹس کرامت بھنڈاری کی سربراہی میں تشکیل دیا، جس نے بے دلی سے اس کی رسمی تحقیقات شروع کی
کمیشن نے کچھ کھلاڑیوں، چند صحافیوں اور بورڈ کے چیئرمین خالد محمود کے بیانات قلمبند کرنے کی رسم پوری کی
کمیشن نے چند سوالات اٹھائے کہ بنگلہ دیش کے میچ میں وزڈن کے مطابق وسیم اکرم اور اظہر محمود کیوں جان بوجھ کر آؤٹ ہوئے؟
بنگلہ دیش کے میچ کے فوری بعد ملین ڈالر بورڈ کے اکاؤنٹ میں کہاں سے ٹرانسفر ہوئے؟
بنگلہ دیش کے میچ میں کھلاڑی کیوں برا کھیلے؟
کمیشن نے سست روی سے تحقیقات کرتے ہوئے۔ 2001 میں فیصلہ دیا ”پاکستان ٹیم کے کسی فکسنگ یا کرپشن میں ملوث ہونے کےثبوت نہیں ملے“ اور اس طرح نہ کوئی ذمہ دار ٹھہرا اور نہ ہی کسی کو سزا دی گئی
سرفراز نواز اور جاوید میاں داد کے الزامات
سابق فاسٹ بولر سرفراز نواز نے ورلڈکپ کے دوران ہی کہا تھا کہ پاکستان ٹیم شروع دن سے فکسنگ کرنے کا منصوبہ لے کر آئی ہے اور اس نے تین میچ فکس کیے ہیں
سرفراز نواز نے الزام لگایا کہ پاکستان بنگلہ دیش، بھارت اور آسٹریلیا سے پاکستان جان بوجھ کر ہارا ہے اور وسیم اکرم سمیت ٹیم کے متعدد کھلاڑی جوئے میں ملوث ہیں۔ جاوید میاں داد نے بھی ٹیم ارکان پر فکسنگ کے الزامات لگائے۔
ٹیم کے ایک رکن اور تاحیات پابندی کے شکار سلیم ملک نے بھی بیس سال بعد منہ کھولا اور کہا مجھے خراب کھیلنے کے لیے کہا گیا تھا جس کے پیچھے فکسرز تھے۔
بورڈ کے اس وقت کے چئیرمین خالد محمود نے گذشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر عطاءالرحمان اپنا بیان نہ بدلتے تو وسیم اکرم سمیت کئی کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی لگ جاتی
عمران خان کی تنقید
اس ورلڈکپ کے بعد جب نواز شریف نے کمیشن تشکیل دیا تو عمران خان نے کہا تھا کہ نواز شریف خود کرپٹ ہیں، وہ کیا تحقیقات کروائیں گے۔ عمران خان نے اپنے ایک اخباری آرٹیکل میں لکھا کہ نواز شریف کا کمیشن بنانے کا مقصد صرف عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنا ہے ورنہ ان کو اگر کرپشن ختم کرنا ہوتی تو 1993 کے فکسنگ کے مجرموں کو پہلے کیفر کردار تک پہنچاتے اور پہلے بورڈ کی تحقیقات کرتے کہ کیوں وہ فکسنگ کے پرانے الزامات پر ایکشن لینے میں ناکام رہا تھا
ورلڈکپ 1999 کا فائنل فکس تھا یا نہیں؟ اس کا معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا ہے لیکن میچ میں پاکستان کی پسپائی اور لاپرواہی نے شکوک شبہات کو نہ صرف مستحکم کیا تھا بلکہ فائنل کے دن انگلینڈ میں شرطیں لگانے کی دکانوں پر پاکستان کی جیت پر ایک کے سو مل رہے تھے، جس کے باعث جوا کھیلنے والوں نے بے تحاشہ رقم لگائی تھی اور ہر ایک کو یقین تھا کہ پاکستان جیت جائے گا
لوگوں کے امیر ہونے کے خواب اس دن اس ہی وقت ٹوٹنا شروع ہوگئے تھے جب پاکستان نے ابر آلود موسم میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا
جسٹس بھنڈاری کمیشن کے سامنے اسپورٹس صحافی عبدالوحید اور فرشتے گیتی زاد نے اگرچہ اس بات کی تردید کی تھی کہ فائنل کے دن کسی طرف سے کوئی فکسنگ کی افواہ ملی تھی لیکن انگریز صحافیوں نے میڈیا گیلری میں اس میچ پر فکسنگ کا شک ظٹ کیا تھا
کیا ٹیم کے علاوہ بھی کوئی ملوث تھا؟
اس ورلڈکپ کے دوران کچھ ایسی خبریں گشت کررہی تھیں کہ اس وقت کی ایک حکومتی پارٹی کے رہنما ٹیم کو ہدایات دے رہے ہیں اور ان کا کپتان سے براہ راست رابطہ ہے
نیز اس رہنما کے پھر بکیز سے رابطے بھی کافی عرصہ بعد سامنے آئے تھے اگرچہ ان خبروں کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی لیکن ان رہنما کے ایک بھائی احتساب کمیشن کے سربراہ بھی تھے اور حکومتی حلقوں سے بہت قریبی تعلقات تھے۔
کوچز کا میوزیکل چئیر گیم
پاکستان کے کوچ جاوید میاں داد نے ورلڈ کپ سے چند ہفتے قبل استعفی دے دیا تھا۔ کچھ حلقوں کے مطابق ان سے استعفے لیا گیا۔
ورلڈکپ سے دو دن قبل مشتاق محمد کو کوچ مقرر کیا گیا جبکہ جنوبی افریقی کوچ رچرڈ پائی بس اسسٹنٹ کوچ بنائے گئے
ناقدین پائی بس کی نامزدگی کو بھی فکسنگ سے جوڑتے ہیں جن سے مشتاق محمد خوش نہ تھے، پائی بس اگلے ورلڈکپ تک پاکستانی ٹیم کا تیاپانچہ کرتے رہے اور آخر کار اگلے ورلڈکپ کی شرمناک شکست کے بعد رخصت ہو گئے
اس دوران وسیم راجہ اور مدثر نذر بھی کوچ بنے لیکن ان دونوں کی ٹیم سے نہ بن سکی
تیئیس سال کے طویل عرصہ کے بعد بھی یہ سوال ہنوز قائم ہے کہ فائنل میچ کس نے فکس کیا تھا اور کون کون اس میں حصہ دار تھا؟
عثمان سمیع الدین اپنی کتاب ‘دی اَن کوائٹ ونز’ میں لکھتے ہیں کہ ’جہاں سال 1999 کے دوران ملک میں شدید تناؤ تھا وہیں پاکستان کرکٹ ٹیم نے متعدد مرتبہ عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن یہ ممکنہ طور پر ایک عظیم ٹیم کے تھراتے شعلوں کی آخری پھڑپھڑاہٹ کی مانند تھی۔‘
بہرحال تاریخ آج بھی اس فائنل میچ میں شکست کے ذمہ داروں کو تلاش کر رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ملک کو نوچ کر کھانے والے ہوں یا ایک میچ بیچنے والے۔۔۔ کیا ہمارا نظام آج تک کسی کو سزا دے بھی پایا ہے؟