پاکستان کے مختلف علاقوں میں جاری پری مون سون بارشوں کے نتیجے میں پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں
سیلابی ریلوں میں رابطہ سڑکیں بہہ جانے سے کئی علاقوں کا رابطہ کٹ گیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ’معمول سے زیادہ مون سون بارشوں کے نتیجے میں پاکستان کو 2010 جیسی سیلابی صورت حال کا سامنا ہوسکتا ہے۔‘
ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیرکوہ میں بھی نو ماہ کے بعد بارش ہوئی۔ اس علاقے کے لوگ پینے کے پانی کی قلت کی وجہ سے جوہڑوں اور تالابوں کا گندا پانی پینے پر مجبور تھے۔ اس وجہ سے گذشتہ ماہ یہاں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی تھی جس سے چھ افراد ہلاک اور تین ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے
پیرکوہ کے رہائشی سماجی کارکن وڈیرہ نور حسن بگٹی نے بتایا کہ ہمارے علاقے کے لوگوں کا انحصار بارش کے پانی پر ہے، لمبے عرصے بعد اچھی بارش ہوئی ہے جس کی وجہ سے لوگ خوش ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں موجود دو ڈیمز کا معیار ناقص ہے جس کی وجہ سے وہاں پانی ذخیرہ ہی نہیں ہوتا جبکہ ٹیوب ویلز کا کام ابھی تک مکمل نہیں کیا گیا اس لیے لوگ آئندہ بھی برساتی نالوں کا گندا پانی پر مجبور ہوں گے
پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں پری مون سون بارشوں سے ہونے والی اموات کی تعداد سات تک پہنچ گئی ہے جبکہ ایک بچے اور تین خواتین سمیت 20 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سبی میں 300 سے زائد مویشی سیلابی پانی میں بہہ گئے ہیں
ادہر گلگت بلتستان میں بارش کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات پر برف باری بھی ہوئی۔ برف باری کی وجہ سے بابوسر ٹاپ ٹریفک کے لیے بند ہوگیا ہے۔ سب ڈویژن روندو میں سیلابی ریلوں کی وجہ سے درختوں، کھڑی فصلوں کے علاوہ جیپ ٹریکس کو بھی نقصان پہنچا ہے
محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ بارشوں اور لینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے جگلوٹ سکردو روڈ چماچو، تورمک اور ڈمبوداس کے مقامات پر ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہو گیا ہے۔ سڑک کی کلیئرنس کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ سڑک بند ہونے سے سینکڑوں سیاح بھی پھنس گئے ہیں۔انتظامیہ کے مطابق بھاری پتھروں اور بڑی سلائیڈوں کی وجہ سے سڑک کی بحالی میں ایک یا دو دن لگ سکتے ہیں
پاکستان کو 2010ع جیسی سیلابی صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ پری مون سون بارشوں کے بعد جولائی کے آغاز میں مون سون بارشیں شروع ہوں گی۔ محکمے نے معمول سے زیادہ بارشوں کا امکان ظاہر کیا ہے۔
ادھر وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا ہے کہ مون سون بارشوں کے نتیجے میں کراچی، لاہور، ملتان، پشاور، اسلام آباد سمیت ملک کے بڑے حصے میں سیلاب کا واضح خطرہ ہے
اپنے ایک بیان میں شیری رحمان کا کہنا تھا کہ مون سون کے آغاز نے پہلے ہی ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ہنگامی صورتحال پیدا کی ہے۔ پاکستان میں بھی معمول سے زیادہ بارشوں کا رجحان رہے گا اور کم از کم اگست 2022ع تک مون سون بارشیں ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب، سندھ، کشمیر اور گلگت بلتستان میں معمول سے زیادہ بارشیں متوقع ہیں
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مون سون بارشوں کے ممکنہ تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لیے قومی اور صوبائی محکموں کو مربوط حکمت عملی اپنانے اور بروقت احتیاطی اقدامات اٹھانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں
شیری رحمان کا کہنا ہے کہ پیش گوئیاں کی گئی ہیں کہ پاکستان کو 2010ع جیسی سیلابی صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے
یاد رہے کہ بارہ برس قبل آنے والے سیلاب سے دو کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے۔