کراچی میں زیرِ تعمیر بحریہ ٹاؤن اور سندھ کا مستقبل (قسط 3)

گل حسن کلمتی

بحریہ ٹاؤن کے علاوہ ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈولپمنٹ اتھارٹی، ڈپٹی کمشنر ملیر اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کی طرف سے لاکھوں ایکڑ کراچی کی قیمتی زمینیں جعل سازی ،فراڈ اور جعلی گوٹھوں کے نام پر مختلف اداروں، سرمایہ داروں اور بلڈرز مافیاز کو کوڑیوں کے مول الاٹ کی گئی ہیں، جب کہ قانون کے مطابق ان زمینوں اور وسائل پر پہلاحق مقامی لوگوں کا ہے، جنہیں مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے ۔ انہیں ڈرا دھمکا کر زمینیں بیچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ لوگوں سے زمینیں حاصل کرنے کے لئے ریونیو ڈپارٹمنٹ، ضلعی انتظامیہ ملیر اور ملیر پولیس، بحریہ ٹاؤن کے مالک سے زیادہ سرگرم ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کی طرف سے یہ عمل مکمل طور پر حکومت کی سرپرستی میں شروع کیا گیا۔ لوگوں کو یہ کہہ کر زمینیں بیچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ یہ زمین جو سرکاری لیز پر ہیں، کینسل کی گئی ہیں۔ انہیں فروخت نہیں کیا گیا تو آپ کو زبردستی اٹھوایا جائے گا۔ اگر کوئی شخص اپنی موروثی زمین بیچنا نہیں چاہتا، تو ریونیو ڈپارٹمنٹ کی طرف سے یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ آپ کی زمین یہاں سے شفٹ کر کے کسی دور دراز علاقے میں رکھی جاۓ گی۔ لوگوں کو تھانوں میں بلوا کر یہ کہا جا تا ہے کہ ایک طرف ہتھکڑی ہے اور دوسری جانب بحریہ ٹاؤن کا چیک ہے، کیا پسند کر یں گے؟ غریب آدمی جس کا کوئی والی وارث نہ ہو، حکومتی ادارے، حکومت کے منتخب نمائندے ملک ریاض کے ساتھ کھڑے ہوں تو پھر غریب آدمی مجبور ہوکر زمینیں بیچے گا۔ جنہوں نے اپنی زمینیں نہیں دیں، ان کے ساتھ جو حشر ہو رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کی نمایاں مثال نورمحمد گبول گوٹھ کے رہائشی فیض محمد گبول اور دیگر دیہاتی ہیں جنہیں تھانے میں بند کرکے تشددکا نشانہ بنایا گیا۔ کورٹ میں زیر ساعت مقدمے کے دوران ان کے کھیتوں کو بلڈوز کرکے شاہی درختوں کو ختم کیا گیا۔ سینکڑوں پولیس اہل کار ان علاقوں میں لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے گشت کر رہے ہیں، حکومتی منتخب نمائندے اور سندھ کی حکومتی پارٹی  کے قائدین ملک ریاض کے لیے اسٹیٹ ایجنٹ کا کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ یہاں کے غریب لوگوں کی فریاد کی طرف کیا دھیان دیں گے؟ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا بڑے اشتہارات اور ملک کے پیسے کی چمک کے باعث کوئی بھی خبر دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ذیل میں صرف بحریہ ٹاؤن کو غیرقانونی طور پر الاٹ کردہ زمین اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات کا مختصر ذکر شامل ہے:

1- کنسالیڈیٹ زمین کا اختیار لینڈ یوٹیلائز ایکٹ 1912ء کے تحت ریونیو ڈپارٹمنٹ کو حاصل ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک مالک کی زمینیں ضلع کے مختلف علاقوں میں ٹکڑوں میں تقسیم شدہ ہیں اور وہ انہیں دور دراز مقامات پر ہونے کے باعث کاشت نہیں کر پا رہا یا کوئی زمین دریا کا رخ تبدیل ہونے کے باعث زیر آب ہو کر ختم ہوگئی ہو، کسی جھیل کی صورت میں تبدیل ہوکر استعمال کے قابل نہ رہی ہو، تو ان زمینوں کو کنسالیڈیشن ایکٹ کے ذریعے دوسری جگہ اس مقصد کے لیے شفٹ کیا جائے۔ یہ عمل زیر کاشت زرعی زمین اور کھیت پر لاگو ہوتا ہے۔ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی کو یہ اختیار کسی طرح بھی حاصل نہیں ہے کہ زرعی زمینوں کو کنسالیڈیشن ایکٹ کے تحت ایک جگہ سے شفٹ کرکے کسی بلڈر کو رہائشی تعمیر کے لیے الاٹ کرے۔ ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی خود ریونیو ڈپارٹمنٹ سے زمین حاصل کر کے کوئی ہاؤسنگ پروجیکٹ شروع کرسکتی ہے، نہ کہ سرکاری زمینوں کو وہ بلڈرز کو تعمیرات کے لیے الاٹ کرے!

ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی کو یہ اختیار بھی نہیں ہے کہ وہ پورے دیہہ کی زمینیں کسی بلڈرکو رہائشی تعمیر کے لیے الاٹ کرے جیسے یہاں دیہہ لنگھیجی، دیہہ بولہاڑی، دیہہ کاٹھوڑ، دیہہ کونکر اور دیگر دیہوں میں کیا گیا ہے۔ پہاڑ، ندیاں، نالے پرنالے، قبرستان، چرا گاہیں، آثار قدیمہ کی سائٹس اور گوٹھ ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو دیئے گئے ہیں جو کلی طور پر قانون، بنیادی انسانی حقوق، دھرتی مالکان کے حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

اس عمل سے حکومت کو کھربوں روپوں کا نقصان ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ جن لوگوں کی طرف سے بحریہ ٹاؤن کے لیے زمینیں خریدی جارہی ہیں، جو ایجنٹ اور دلال کے طور پر یہ کام کر رہے ہیں اور ان میں اکثریت ریونیو ڈپارٹمنٹ کے افسران، تپیداروں اور کلرکوں کی ہے، ان کی مالی پوزیشن اور ائم ٹیکس کی مد میں کوئی جانچ پڑتال نہیں کی گئی ہے کہ ان لوگوں نے یہ پیسے کہاں سے حاصل کئے ہیں!؟ اتنا پیسہ کہاں سے لائے ہیں!؟

3- بحریہ ٹاؤن فیز-ون اور فیز-ٹو دیہہ لنگھیجی، دیہہ بولہاڑی، دیہہ کاٹھوڑ اور دیہہ کونکر کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ بحریہ ٹاؤن 43 ہزار ایکڑ زمین فیز-ون اور فیز-2 کے لیے حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہے ۔ آگے چل کر فیز-تھری کے لیے مزید 42 ہزار ایکڑ زمین دیہہ حدر واہ، دیہہ لٹھ کرمتانی اور پرانی یونین کونسل موئیدان کے دیہوں سے مانگی گئی ہے، یہ منصوبہ ایک جانب سپر ہائی وے، دوسری جانب مول برساتی نالے ضلع جامشورو تک، تیسری جانب تھدو برساتی نالے، چوتھی جانب حب ندی تک مشتمل ہوگا جو بہ ذات خود کراچی جتنا شہر ہوگا، جہاں لاکھوں لوگ آباد کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ زمینیں کس طرح حاصل کی جا رہی ہیں۔ اس غیر قانونی عمل کا ذکر قبل ازیں کر چکے ہیں۔

سب سے پہلے فیر-1 اور فیز-2 ، جہاں تیزی سے کام جاری ہے، کا ذکر کرتے ہیں یہاں 43 ہزار ایکڑوں پر نیا جدید شہر بنانے  کا منصوبہ ہے۔ یہ پورا علاقہ پہاڑی سلسلہ ہے جو چراگاہوں پر مشتمل ہے، جہاں 45 قدیم گوٹھ بھی ہیں۔ ان پہاڑوں میں تھدھو، ملیر، جرندو، لنگھیجی، بولھاڑی، کُرکُٹی، میلو، باڑو، برساتی نالے، ان گنت بارانی نہریں ہین، جہاں اکثر برساتی پانی جمع ہوتا ہے اور کاٹھوڑ، ملیر، گڈاپ اور اردگرد سے بہہ کر لنگھیجی، جرندو، تھدھو اور ملیر ندیوں کے ذریعے سمندر میں جا گرتا ہے، جس کے باعث ملیر گڈاپ اور کاٹھوڑ کی زرعی زمینیں زراعت کی وجہ سے آباد ہیں۔ یہ پورا زرعی علاقہ ہے جہاں کنوؤں کے ذریعے پانی حاصل کرکے زراعت کی جاتی ہے۔ بحریہ ٹاؤن بننے سے پہاڑی سلسلہ ختم ہوگیا ہے، جو ان ندیوں کا کیچمنٹ ایریا ہے. برساتی نالوں، ندیوں کو بند کرکے یہاں مصنوعی جھیلیں بنانے کا منصوبہ ہے، جس کی وجہ سے یہ پورا زرعی علاقہ تباہ و برباد ہو جائے گا، جس سے ماحولیاتی اور معاشی تباہی کا ناقابل تلافی المیہ جنم لے گا، 15 لاکھ لوگوں کا روزگار جو کسی نہ کسی طریقے سے زراعت سے وابستہ ہے، وہ بےروزگار ہو جائیں گے۔ ان علاقوں میں زیادہ لوگوں کی گزر بسر کا وسیلہ مویشی پالنے پر بھی ہے، وہ بھی متاثر ہوں گے۔ یہ لوگ پانچ ہزار کی تعداد میں مال مویشی لے کر کہاں جائیں گے؟ یہ ایک بڑے انسانی الیے کو جنم دے گا۔ ایک جانب پہلے سے پابندی ہوتے ہوۓ بھی ضلع ملیر کی انتظامیہ کی سرپرستی میں سُکن، ملیر، تھدھو، کونکر، بازار، لنگھیجی، جرندو، مول، کھار، کنڈ اور دیگر برساتی ندیوں سے ریتی بجری اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے، اس غیر قانونی عمل کے باعث پہلے ہی برسات کا پانی زیر زمین جذب نہ ہونے کے باعث ہزاروں ایکڑ زمینیں ویران ہوگئی ہیں، دوسری جانب بحریہ ٹاؤن منصوبے کے باعث برساتوں میں بہہ آنے والی ندیاں اور نالے متاثر ہوں گے تو لاکھوں لوگ بے روزگار ہوکر زمین بیچنے اور نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔ حکومت کا یہ منصوبہ ہے کہ کسی طرح یہ زرعی زمینیں ویران کرکے بلڈرز مافیا کے حوالے کی جائیں۔ اس منصوبے پر تیزی سے عمل جاری ہے۔ بحریہ ٹاؤن بھی اسی کا حصہ ہے تاکہ یہاں کی آبادی کے توازن کو اپنے حق میں کیا جائے۔

جہاں بحریہ ٹاؤن کا منصوبہ زیرتعمیر ہے وہاں لوگوں کی لیزشدہ، موروثی زرعی اور پولٹری فارمنگ کی زمینیں ہیں جہاں بارانی طریقے سے بھی کاشت کی جاتی ہے۔ زیادہ حصہ یہاں کے لوگوں کا مویشی پالنے پر مشتمل ہے۔ یہ مویشی بان لوگ ہیں۔ ان کی زمینیں اور چراگاہیں حاصل کی گئی ہیں۔گوٹھوں کو یہاں سے اٹھوانے اور نقل مکانی کے لیے پولیس اور بحریہ ٹاؤن انتظامیہ ڈرا دھمکا کر خوف و ہراس پیدا کر رہی ہے۔ اسی طرح جہاں یہ منصوبہ چل رہا ہے وہاں 45 گوٹھ ہیں۔ ان کا روزگار تو پہلے ہی چھن گیا ہے، کیوں کہ ان کی زمینیں اور چراگاہیں حاصل کی گئی ہیں۔

انہیں اب یہاں سے بے گھر کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ ہزاروں لوگ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ کہاں جائیں گے؟ یہ اپنی جگہ ایک سوال ہے۔ وہ کون سا قانون ہے جس کے تحت بالائی طبقے کے لوگوں کے لیے خوب صورت اور جدید علاقہ بنانے کے لیے یہاں کے صدیوں سے آباد قدیمی  مقامی باشندوں کو بے روز گار اور در بہ در کیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ پیپلز پارٹی کے ووٹرز رہے ہیں۔ کیا انہیں پیپلز پارٹی اسی کی سزا دے رہی ہے؟ قیام پاکستان کے لیے ان کے بزرگوں نے جد و جہد کی۔ آج انہیں اپنی دھرتی سے جلاوطن کیا جا رہا ہے۔

اس نقشے میں دیھ لنگھیجی کے گوٹھ ۔ پولٹری فارم۔ زرعی زمینوں کو برساتی نالوں دیکھایا گیا۔ اور ساتھ میں بحریہ ٹاؤن کراچی کے بعد کا موازنہ بھی دیکھایا گیا

4. ایک جانب ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈولپمنٹ اتھارٹی اور کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی طرف سے سینکڑوں اسکیمیں کئی برسوں سے غیرتکمیل شدہ پڑی ہیں۔ انہیں مکمل کرنے کے بجائے بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سٹی جیسے بڑے پروجیکٹ شروع کئے گئے ہیں۔ کراچی شہر میں پہلے ہی بجلی، پانی اور گیس کا شدید بحران ہے۔ گھنٹوں لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ پانی کے لیے مظاہرے ہو رہے ہیں، تو 43 ہزار ایکڑز پر تعمیرکردہ نئے شہر کے لیے یہ سہولیات کہاں سے آئیں گی؟ ظاہر ہے کراچی شہر کو ملنے والے پانی، بجلی اور گیس پر نقب ڈال کر ڈی ایچ اے سٹی اور بحریہ ٹاؤن کو یہ سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ کراچی کے لیے کے۔فور (4-K) پانی کا جومنصوبہ شروع کیا گیا ہے، وہ کمل طور پر بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سٹی کو دیا جاۓ گا۔ اس وقت بھی کراچی آنے والی مین لائین میں سے 24 انچ قطر پانی غیر قانونی طور پر بحریہ ٹاؤن کو دیا گیا ہے، جس میں سے وہ اپنا تعمیراتی اور ترقیاتی کام کروا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان علاقوں میں جو کنویں اور گوٹھوں کے لیے تعمیرکردہ واٹر سپلائی اسکیمیں ہیں، انہیں بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور مزید پانی حاصل کر نے کے لیے اس علاقے میں ڈیپ ڈرلنگ کر کے پانی حاصل کیا جائے تو آس پاس کے زرعی علاقے جو پہلے ہی قلت آب کے باعث ویران ہوتے جار ہے ہیں، تو ان علاقوں میں پینے کا پانی تک نایاب ہو جائے گا۔ جب لنک روڈ پر دیہہ چوہڑ میں نیسلے کمپنی والوں نے ڈیپ ڈرلنگ کرکے اپنے پلانٹ کے لیے زیادہ مقدار میں پانی حاصل کرنا شروع کیا تو آس پاس زیر زمین پانی کم ہونے لگا۔ آغا خان فاؤنڈیشن اور مقامی لوگوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو عدالت نے مقامی لوگوں کی بات تسلیم کرتے ہوئے نیسلے کمپنی کے پانی حاصل کرنے والے پلانٹ پر پابندی لگادی، کیوں کہ اس سے زیر زمین پانی تیزی سے ختم ہو جاۓ گا اور زراعت کو کاری ضرب لگے گی۔ یہی غیر قانونی کام اب بڑے پیمانے پر بحریہ ٹاؤن فیر1 اور 2 میں شروع کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہیں ڈیپ ڈرلنگ کے علاوہ پانی کے وسائل پر ڈاکہ ڈال کر انہیں بند کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ عمل بھی عدالت کے اس فیصلے اور بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کی طرف سے ڈیپ ڈرلنگ اور سکنگ کے لیے جو مشینری لائی گئی ہے، اس پر پوری دنیا میں پابندی عائد ہے.

5- 43 ہزار ایکڑ پر بحریہ کے فیز1 اور فیز2 منصوبے میں شامل جو جدید شہر زیرتعمیر ہے، اس کے لیے سیوریج یا نکاسی آب کا سٹم کیا ہوگا؟ یقیناً یہ پورا گندا پانی اور فضلہ ملیر، مول، لنگھیجی، جرندو، تھدھو اور دیگر برساتی ندیوں میں چھوڑا جائے گا۔ ان ندیوں کے کنارے سینکڑوں گوٹھ قائم ہیں، جن میں لاکھوں لوگ رہتے ہیں جن کے گزر بسر کا انحصار انہی ندیوں سے بہہ کر آنے والے برساتی پانی پر ہے۔ قبل ازیں بیان کر چکے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن اپنے رہائشی منصوبے کے باعث ان میں سے کئی برساتی ندیوں، نالوں کو بند کر رہا ہے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ حال ہی میں دنبا گوٹھ کے نزدیک تھدھو ندی کے دہانے کو تنگ کرکے یہاں بحریہ کے تعمیراتی منصوبے کے لیے کریش مکسچر پلانٹ لگایا گیا ہے۔ ندی کے کنارے چار ایکڑ سرکاری زمین کو شہر کے ایک سرمایہ دار کی جانب سے خریدنے کے بعد یہ چوہڑ سے سروے/قبولی زمین کو یہاں شفٹ کیا گیا ہے۔ زمین کم ہونے کے باعث باقی زمین کو تپیدار اور ریونیو افسران نے تھدھو نالے میں بتایا۔ اس طرح دنبا گوٹھ کے نزدیک تھدھو ندی نالے کے بہاؤ، جو 433 فٹ ہے، تنگ کر کے صرف 60 فٹ چھوڑا گیا ہے۔ تھدھو ایک برساتی نالہ ہے جو ضلع جام شورو سے بہہ کر ملیر پل کے نزدیک واقع ملیر ندی میں آ ملتا ہے۔ برساتوں کے موسم میں اس ندی میں سیلاب کی سی صورت حال رہتی ہے۔ اب جب دنبا گوٹھ کے نزدیک اس ندی کے دہانے کو تنگ کر کے اور پانی کا رخ گوٹھ کی طرف کیا گیا ہے تو برساتوں میں پانی کو جب راستہ نہیں ملے گا، تو آدھا گوٹھ بہہ جانے کا خطرہ ہے۔ دوسری جانب کریش مشین سے نکلنے والی دھول مٹی اور مشینوں کا بھاری شور دیہاتیوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں، جس سے کئی بیماریاں پھیلیں گی۔ گاؤں کے لوگوں نے منتخب نمائندوں ضلعی انتظامیہ ملیر، ڈزاسٹر مینجمنٹ انتظامیہ کوکئی خطوط لکھے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، جب عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو پولیس نے دیہاتیوں پر 150 سے زائد مقدمات داخل کر دیئے اور کہا کہ گوٹھ غیر قانونی ہے۔ دنبا گوٹھ قدیم گوٹھ ہے جس کا ذکر ناؤں مل نے اپنی کتاب’’یاد گیریوں‘‘ (یاداشتیں) میں بھی کیا ہے۔

بحریہ ٹاؤن کے سیوریج کا سارا گندا پانی اور زہریلا فضلہ ملیر، جرندو، تھدھو اور لنگھیجی ندیوں اور برساتی نالوں میں چھوڑا جائے گا۔ ایک جانب سپر ہائی وے سے ملیر تک، دوسری جانب گڈاپ کے پورے علاقے کے رہنے والے لوگ اس گندے اور آلودہ پانی کی وجہ سے اپنے روزگار سے محروم ہوں گے۔لوگوں کا رہنا اور جینا محال ہو جائے گا اور یہ خوبصورت علاقے گندے گٹر کے نالوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ آلودہ پانی کے باعث اس صحت افزا علاقے  جو زراعت اور فارم ہاؤس کے باعث مشہور ہے، کے لوگ بیماریوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔

سرمایہ داروں اور دولت مند لوگوں کے لیے جو جدید شہر بن رہا ہے، اس کے گندے پانی سے لاکھوں ایکڑ زمین کو برباد کرنا، جو اس دھرتی کے مالک ہیں، ان لوگوں کو گٹر کے پانی کے حوالے کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ اس بڑے شہر کی سیوریج سے نکلنے والے پانی کے جو اثرات یہاں کے لوگوں، مال مویشی، زراعت، زمین اور ماحولیات پر پڑیں گے، ان کا تصور ہی بھیانک ہے.

جاری ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close